کشمیر٬ کشمیری شہداﺀ اور آزاد کشمیر کے سیاستدان

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی اپنے کام کی غرض سے اکثر وبیشتر شہر آتا اس کی دوستی ایک شہری تاجر سے ہوگئی وہ اس کے پا س مہینوں ٹھہرا کرتا تھا شہری خواجہ اس کی آؤبھگت کرتا اور خوب مہمان داری کرتا دیہاتی اس شہری کو اکثر دعوت دیتا کہ وہ کبھی بال بچوں سمیت اس کا مہمان بنے اور اسے بھی خدمت کا موقع دے دیہات کی کھلی آب وہوا اور باغات اور لہلاتے کھیتوں کا زکر کر کے وہ اسے دیہات میں اپنا مہمان بننے کی ترغیب دیتا ۔شہری خواجہ اکثر کام کا بہانا کرکے ٹالتا رہا آخر کار بہت اصرار پر اس نے اس کی دعوت قبول کرلی اور بچوں کے ہمراہ سفر کرکے ایک دن اپنے دوست کے دیہات میں جاپہنچا جب اس کے گھر پر دستک دی تو دیہاتی نے خواجہ اور اس کے بچوں کو پہچاننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اللہ کی یاد میں اس قدر کھو گیا ہے کہ کسی کو نہیں پہچانتا شہری نے بڑے حوالے دیئے کہ مہینوں میرے دسترخوان پر تو کھاتا رہا ،میں نے تیرے لیے کیا نہیں کیا لیکن دیہاتی نے اجنبیت کا اظہار کردیا پانچ چھ دن شہری اور اس کے بچوں نے بڑی مشکل سے وہاں گزارے رات کا جاڑا اور دن کی گرمی برداشت کی ایک رات بارش آگئی شہری نے پریشانی سے دیہاتی سے کہا کہ میں اپنے تعلق سے دستبردار ہوتا ہوں آج رات بارش ہے مہربانی کر اور مجھے کوئی جگہ چھت والی دے دے دیہاتی نے کہا کہ ایک کمرا چوکیدار کا ہے وہاں تو رہ سکتا ہے مگر رات کو میری بکریوں کو بھیڑیے سے بچانے کیلئے تجھے چوکیدار کے فرائض تیر کمان سنبھال کر اداکرنا ہو گے شہری رات کی چوکیداری پر رضا مند ہوگیا اور تیر کمان لے کر بیٹھ گیا اس نے رات کو ایک ہی تیر چلایا اور دیہاتی سے کہا کہ اس نے بھیڑیے کو مار دیا ہے دیہاتی نے جانور کی آواز پہچان کر کہا کہ یہ تو میرے گدھے کا بچہ ہے خواجہ نے ا صرار کیا کہ نہیں بھیڑیا ہی ہے جو میں نے مارا ہے دیہاتی نے اس پر کہا کہ میں اپنے گدھے کے بچے کی آواز پہچانتا ہوں تو نے میرے گدھے کا بچہ ہی مارا ہے اس پر شہری خواجہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے کہا اے چور بدبخت بدفطرت انسان تو مجھ جیسے محسن کو جس کے دستر خوان پر مہینوں روٹیاں توڑتا رہا اور جس نے تجھ پر اور کتنے احسان کیے اسے تو نہیں پہچانتا اور رات کے اندھیرے میں اپنے گدھے کے بچے کی آواز بھی پہچانتا ہے تو نے خداترسی اور خودفراموشی کا بہانہ بنا رکھا ہے جبکہ تو ہر شے کو پہچانتا ہے ۔۔۔

قارئین اگر ہم کشمیر کو تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں تو تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیری ایک قوم کی حیثیت سے مدتوں دنیا کے نقشے پر موجودتھے اور کشمیری مملکت امن ،آشتی ،سکون ،آرام کا ایک گہوارہ تھی ،کشمیر شاعروں ،فنکاروں ،محب وطن سادہ لوح انسانوں کی سرزمین تھی اور دنیا جہاں میں یہ خطہ ارضی جنت کہلاتا تھا اور ایک شاعر نے جسے دنیا اقبال کے نام سے یاد کرتی ہے نے یہاں تک کہہ دیا
اگر فردوس گر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است و

جب تقسیم پاک وہند کامرحلہ آیا تو اس وقت ہندوستان میں شامل کئی ریاستیں جن میں حیدرآباد اور کشمیر سرفہرست ہیں کو اصولوں کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا یا اپنی خودمختار حیثیت برقر ار رکھنا تھی یا ہندوستان میں شامل ہوجانا تھا لیکن اس کا فیصلہ یہاں کے رہنے والے باسیوں نے کرنا تھا بھارت جو دنیاکی سب سے بڑی سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہے اس نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیر اور حیدرآباد سمیت دیگر درجنوں ریاستوں کو اپنے اند رضم کرلیا اور بدمعاشی کا یہ کھیل اس حد تک بڑھا کہ کشمیریوںنے تنگ آکر امن وآشتی چھوڑ کر احتجاج کا راستہ اختیار کیا لیکن احتجاج کے دوران کسی قسم کی مسلح جدوجہد سے پرہیز کیا لیکن جب دوبدو مقابلے اور بھارت کی طرف سے طاقت آزمانے کی بات آئی تو کشمیریوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے بھی دیا ۔

1948ءمیں بھارت خود اقوام متحدہ میں اس درخواست کے ساتھ پیش ہوا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے اور استصواب رائے کیلئے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے طے یہ پایا کہ پاکستا ن اور بھارت مناسب وقت آنے پر کشمیریوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقعہ دیں گے اور کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے ۔

پاکستان نے تو کشمیریوں کا بڑا بھائی ہونے کے ناطے ہر طرح اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کی کوشش کی لیکن بھارت نے گزشتہ 63سالوں کے دوران دغا باز ،محسن کش اور احسان فراموش دیہاتی کی طرح اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور طوطا چشمی اس حد تک بڑھی کہ آج بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے یہ ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے کہ کشمیری تو بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان ”گھس بیٹھیوں اور درانداز دہشت گردوں “کے زریعے کشمیر میں دخل اندازی کررہا ہے افسوس صد افسوس کہ سابق پاکستانی حکمران جنر ل مشرف کے دور سے لے کر آج تک دس سالہ عرصے میں لاکھوں کشمیری شہداءکی قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے پاکستانی پالیسی ساز کشمیرکیس کو بھولتے جارہے ہیں حالانکہ مسئلہ کشمیر پاکستانی فارن پالیسی کا ہر دو رمیں فرنٹ پیج رہی ہے یہاں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ پاکستان کا براہ راست مفاد کشمیر سے اس حد تک وابستہ ہے کہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہ کشمیر کا تنازعہ ہی تھا کہ جس کی وجہ سے آج پاکستان کی دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قو ت ہے اور یہ کشمیر ہی کا مسئلہ تھا کہ جس نے ایک غریب اورلٹے پٹے ملک پاکستان کو دنیا کی آٹھویں بڑی فوج بنانے پر مجبور کردیا آج ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہداءکی قبریں یہ سوال کرتی ہیں کہ اگر منطقی انجام تک تحریک آزادی کو نہیں لے جاناتھا توآخرکیوں کشمیریوں کو قبرستان کے قبرستان آباد کرنے کیلئے ابھارا گیا ۔۔۔؟آخر کیوں کشمیریوں کو پرامن سیاسی جدوجہد سے ہٹاکرمسلح جدوجہد کرنے دیا گیا ۔۔۔؟اگر پاکستان واقعی کشمیریوں کا بڑا بھائی ہے تو کشمیر پالیسی پر گزشتہ دس سالوں کے دوران یوٹرن کیوں مارا گیا ۔۔۔؟

یہاں پرہم 26جون 2011ءکو آزادکشمیر میں ہونے والے انتخابات کی بات بھی ضرور کریں گے کہ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن ،مسلم کانفرنس ،جماعت اسلامی ،جموں کشمیر لبریشن لیگ ،نیشنل الائنس ،جمیعت علماءاسلام ،جمعیت علماءجموں کشمیر اور دیگر کئی سیاسی قوتیں الیکشن میں حصہ لینے جارہی ہیں یہ تمام جماعتیں او ران کے قائدین سے آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کے انتخابی ایجنڈا ز میں ”مسئلہ کشمیر یعنی کہ کشمیر کیس “کی کیا حیثیت ہے ۔۔۔؟

اس وقت یونی پولر ورلڈ میں امریکہ واحد دجالی قوت بن کر تمام مسلم ممالک کو اپنا دشمن قرار دے چکا ہے اور ارض عرب میں فلسطین سے لے کر عراق تک او رمصر سے لے کر لیبیا تک مختلف سازشوں کے زریعے بہانوں کے ساتھ مسلمانوں کاہی خون بہایا جارہا ہے اسی طرح برصغیر میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی قوت پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا جھانسہ دے کر ایک بہت بڑے آگ کے الاﺅ میں جھونک دیا گیا ہے امریکہ ،ہندوستان ،اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن قوتیں براہ راست پاکستان کو میدان جنگ بنا چکی ہیں اب یہ پالیسی سازوں کا کام ہے کہ وہ 18کروڑ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل کی آواز سنتے ہیں یا پھر غیر ملکی آقاﺅں پر ناچناجاری رکھتے ہیں ۔۔۔؟

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
ایک دفتر میں مینجر صاحب سٹاف میں بیٹھ کر گھسے پٹے لطیفے سنا رہے تھے اور خوشامدی عملہ دل کھول کرقہقہے لگا رہا تھا صرف ایک لڑکی سنجیدگی سے بیٹھی تھی
مینجر صاحب نے پوچھا
”تم میں حس مزاح نہیں ہے تم کیوں نہیں ہنس رہی ۔؟“
لڑکی نے جواب دیا کہ
”سر مجھے ہنسنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ میں آج نوکری چھوڑ کرجارہی ہوں ۔“

قارئین کشمیر ی اور پاکستانی قیادت بھی اب نوکری چھوڑے اور دل کی باتوں پر عمل کرے یہی وقت کا تقاضا اور کشمیریوں کی آواز ہے ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340300 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More