”ممدو اور شیرنی “شائقین کے معیار کو چھو گیا

ٹی وی ون کو بے باک موضوعات کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے ایک خاص نام و مقام حاصل ہے۔ معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ دہرنے والے ڈراموں کی پیش کش اس چینل کا خاصہ ہے۔ بطور خاص” بولتے افسانے “ میں پیش کئے جانے والے ڈرامے عوام کی پسندیدگی کی سرحدسے آگے نکل جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بولتے افسانے میں کلاسکی ادب کو ڈرامائی تشکیل کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں پیش کئے جانے والے ڈرامے”ممدو میاں اور شیرنی “ نے شائقین کے معیار کو چھولیا جس کی وجہ اس کا موضوع‘ گنگاجمنائی زبان اور 1940ءکی تہذیب ‘ ماحول اور ثقافت کو اس کے اصل رنگ میں انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا جانا ہے۔ عصمت چغتائی کے افسانے کی ڈرامائی تشکیل انتہائی خوبصورتی سے کی گئی ہے‘ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ عصمت چغتائی کے بے باک قلم کو عکس بند کرنا سہل کام نہیں لیکن ڈائریکٹر عامر صمد خان کو اس بات کا کریڈیٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس ڈرامے کولکھے گئے دورکی مناسبت سے اس کے اصل ماحول کی مطابقت کے ساتھ عکس بند کیا ہے۔
ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں ثمن انصاری‘ راشد فاروقی ‘ ماہ رخ شاہ اور احمد پیرزادہ شامل ہیں۔ یہ ڈرامہ ان ہی چار کرداروں کے گرد گھومتا ہے۔ ثمن انصاری نے ”ڈر سی جاتی ہے صلہ“کے بعد ”ممدو میاں اور شیرنی “میں بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ راشد فاروقی بھی ایک کہنہ مشق اداکار ہیں جن کی اداکاری کے جوہر ممدو میاں کے کردار میں مزید اجاگر ہوئے ہیں۔گو کہ ماہ رخ شاہ اور احمد پیرزادہ نواردان میں ہیں لیکن دونوں ناپا کے فارغ التحصیل ہیں ‘ ان کی جاندار اور حقیقت سے قریب ترین اداکاری ان کے بہترین مستقبل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

یہ ڈرامہ ایک ایسے موضوع کا احاطہ کرتا ہے جو آج بھی نہایت حساسیت کا حامل ہے چہ جائیکہ 1940ءکے ڈھکے چھپے ماحول میں اس حوالے سے کسی بات کا کیا جانا ۔ماہ رخ شاہ یعنی بنو بن بیاہی ماں بن رہی ہے ‘ اس کا باپ ممدو بیٹی عزت بچانے کی غرض سے اس کی ڈیلیوری کیلئے محلے کی ایک چلتا پرزہ ٹائپ کی خاتون خلیفن کے در پرجاپہنچتا ہے جو مزاج کی تیز و طرارلیکن بے باک اور دل کی نہایت صاف ہے ۔ وہ نہ صرف اس کی مدد کرتی ہے بلکہ اس بنو اور اس کے بیٹے کو ان کا حق دلانے کیلئے واحد کے گھر تک پہنچ جاتی ہے جو ڈپٹی انسپکٹر کا بیٹا ہے۔ واحد بنو کو اپنانے کیلئے تیار ہے لیکن والدین کے آگے مجبور نظر آتا ہے جوبنو کو بہو کے روپ میں قبول نہیں کرتے۔وہ خلیفن کو ذلیل کرکے گھر سے نکال دیتے ہیں واحد خلیفن سے مدد مانگتا ہے اس کا عندیہ پاکر خلیفن پورے محلے میں واحد کے والدین کے خلاف مہم چلادیتی ہے یہاں تک کہ واحد کے ماں باپ سماجی دباﺅ میں آکر بنو کو بہو بنانے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔

ڈرامہ اپنی بہترین لوکیشن کی بناءپر کافی پسند کیا گیا بطور خاص ایک منظر میں یکے کی سواری دکھائی گئی ہے جس نے منظر میں حقیقی رنگ بھر دیا۔ شائقین کی اس ڈرامے کی پسندیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر موضوع میں تنوع اور ڈرامائی تشکیل میں جان ہو تو لوگ آ ج بھی عشق و محبت کی داستانوں پر ایسے ڈراموں کو ترجیح دیتے ہیں۔


 

شازیہ انوار
About the Author: شازیہ انوار Read More Articles by شازیہ انوار: 197 Articles with 287510 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.