سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم (حصہ 26)


ازقلم... بابرالیاس
خطبہ حجۃ الوداع،
( حصہ سوم آخری)

نوٹ...
حقوق انسانی کا پہلا عالمی منشور ھے اگر غوروفکر کی جاۓ....ایک مفصل تحریر کی کوشش کی ھے اللہ تعالی سے امید ھے کہ قبول فرما کر عمل کی توفیق عطا فرماۓ.آمین

ابو موسیٰ مالک بن عبادۃ الغافقی رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام خطیبا فی حجۃ الوداع فقال علیکم بالقرآن وسترجعون الی اقوام یشتہون الحدیث عنی فمن عقل عنی شیئا فلیحدث بہ ومن قال علی ما لم اقل فلیتبوا مقعدہ جہنم۔
(الآحاد والمثانی، ۲۶۲۶۔ مسند احمد، ۱۸۱۸۲۔ المحدث الفاصل، ۱/۱۷۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم قرآن کو لازم پکڑے رکھنا، اور تم لوٹ کر ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو میری باتیں سننے کے خواہش مند ہوں گے، پس جس نے میری کوئی بات اچھی طرح سمجھ کر یاد کی ہو، وہ اس کو بیان کر دے، اور جس نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۰)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔
(مسلم، ۲۱۳۷)
’’میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کو تھامے رکھنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب۔‘‘
(عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی۔
(ترمذی، ۳۷۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت..

معاشرتی مساوات

رنگ و نسل کی برتری کی نفی

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔
(بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء ۳/۱۰۰۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱)
’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ ‘‘

عداء بن عمرو بن عامر رضی اللہ عنہ: ان اللہ عزوجل یقول یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم فلیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی فضل ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل الا بالتقوی۔
(المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں قوموں او رقبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ باہم تمھاری پہچان کا ذریعہ ہو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ اس لیے کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر اور کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔‘‘

مسلمان بھائی بھائی ہیں

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: ان کل مسلم اخ المسلم المسلمون اخوۃ ولا یحل لامرئ من مال اخیہ الا ما اعطاہ عن طیب نفس ولا تظلموا۔
(مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’ہر مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جو وہ اپنے دل کی خوشی سے دے دے۔ اور ظلم نہ کرو۔‘‘

باہمی امن و سلامتی

فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ: الا اخبرکم بالمومن من امنہ الناس علی اموالہم وانفسہم والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ والمجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب۔
(مسند احمد، ۲۲۸۳۳۔ صحیح ابن حبان، ۴۸۶۲)
’’کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے؟ وہ جس سے لوگ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو محفوظ سمجھیں۔ اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے لوگ بچے رہیں۔ اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو ترک کر دے۔‘‘
(ابو مالک الاشعری (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷)

عرب کے صحرا میں اسلام کا سورج پوری آب وتاب سے چمکا اور اﷲ کی بھٹکی ہوئی مخلوق اپنے اصل مرکز پر جمع ہوگئی۔
اسلام کے عقائد و اعمال اور شریعت کے اصول و فروع مکمل ہوگئے۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا اور سارے عالم کی رہنمائی کے لیے ایک پاکیزہ جماعت تیار ہوگئی تو اﷲ کا فرمان نازل ہوا ’’جب خدا کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوچکا اور آپؐ نے دیکھ لیا کہ لوگ جوق در جوق اﷲ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔ آپؐ خدا کی حمد کی تسبیح پڑھیں اور استغفار کریں۔ اﷲ توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘ (سورہ نصر) اس سورت کے نزول سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جان گئے تھے کہ رخصتی کا وقت آگیاہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ شریعت اور اخلاق کے تمام اساسی اصول مجمع عام میں پیش کردیے جائیں۔ ہجرت کے بعد ایک مدت گزرگئی تقریباً 9سال ہوچکے تھے مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فریضہ حج ادا نہیں فرمایا تھا۔ چناںچہ ذی قعدہ 10ھ میں اعلان ہوا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم حج کے ارادے سے مکہ تشریف لے جارہے ہیں۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی تمام عرب آپؐ کے ساتھ حج کرنے کے لیے امڈ آیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے 26ذی قعدہ کو غسل فرماکر احرام کی چادر اور تہبند باندھا، نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے روانگی ہوئی۔ تمام ازد واج مطہرات ساتھ تھیں۔ مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ جو مدینہ منورہ کی میقات ہے وہاں پہنچ کر شب بھر قیام فرمایا۔ اس کے بعد دو نفل ادا فرمائے، احرام کی نیت فرمائی اور قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوکر بلند آواز میں تلبیہ پڑھی۔
اے اﷲ ہم تیرے سامنے حاضر ہیں، اے اﷲ تیرا کوئی شریک نہیں، ہم حاضر ہیں، تعریف اور نعمت سب تیری ہی ہے اور سلطنت میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً سوا لاکھ لوگ تھے۔ مکہ مکرمہ کے قریب سرف (وادی فاطمہ) میں پہنچ کر غسل فرمایا۔ دوسرے دن 4 ذی الحج صبح کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا یہ سفر 9 دن میں طے ہوا۔ جب کعبہ شریف پر نظر پڑی تو فرمایا ’’یا اﷲ اس گھر کی عزت و شرف کو دوبالا کردے‘‘ پھر کعبہ شریف کا طواف ادا کیا۔ پہلے تین چکر رمل (کندھا ہلاکر اور اکڑ کر چلنا) کے ساتھ اور باقی چار چکر عام چال سے پورے فرمائے۔ طواف سے فارغ ہوکر مقام ابراہیمؑ پر تشریف لائے۔ اور یہ آیت پڑھی ترجمہ ؛ اور مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ بنائو‘‘
یہاں دو نفل ادا کیے، پہلی رکعت میں قل یا ایھا الکافرون اور دوسری میں قل ھو اﷲ احد پڑھی۔ اس کے بعد سعی کے لیے صفا ومرویٰ تشریف لے گئے۔ سات چکر ادا کرنے کے بعد اعلان فرمایا کہ جن کے پاس قربانی کے جانور ہیں وہ احرام نہ کھولیں اور باقی لوگ حجامت بنواکر احرام کھول دیں۔ حضرت علیؓ جنہیں حضور اکرم نے یمن سے قربانی کے اونٹ لانے کے لیے بھیجا تھا وہ ایک سو اونٹ اور یمن کے حجاج کا قافلہ لے کر تشریف لائے۔ جمعرات 8ذی الحجہ صبح سورج طلوع ہونے کے بعد آپﷺ منیٰ تشریف لے گئے جہاں ظہر عصر، مغرب عشاء اور نو ذی الحج کی فجر کی نماز ادا فرمائی۔ جمعہ کے دن 9 ذی الحجہ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے۔
نمرہ میں کمبل کا ایک خیمہ نصب کیا گیا وہاں قیام فرمایا، زوال کے وقت اونٹنی پر سوار ہوکر میدان عرفات میں تشریف لائے اور اونٹنی پر ہی خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ تھا جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی 23سالہ مبلغانہ مساعی کا حاصل ہے۔ یہ خطبہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصول اخلاقیات، ضوابط حسن معاشرت کا جامع دستور العمل اور عالمی انسانی منشور کی حیثیت رکھتاہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سب تعریف اﷲ کے لیے ہے، ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی کی حمد وثناء کرتے ہیں، اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، جس کو اﷲ ہدایت دے اس کو کوئی راہ سے بھٹکا نہیں سکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، لوگو! میری بات غور سے سنو، کیا خبر اس سال کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات نہ ہوسکے، لوگو! حج کے مسائل مجھ سے سیکھ لو، شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت نہ آئے‘‘
لوگو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا ہے، تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے کہ تم الگ پہچانے جائو، اﷲ کی نظر میں سب سے زیادہ معزز اور مکرم وہی ہے جو اﷲ سے سب سے زیادہ ڈرتاہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں، نہ کالا گورے پر فضیلت رکھتاہے نہ گورا کالے پر، بزرگی اور فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے‘‘ سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے، جاہلیت میں فضیلت اور برتری کے سارے دعوے میرے قدموں تلے ساقط ہوگئے ہیں، بس بیت اﷲ کی تولیت اورحجاج کو پانی پلانے کی خدمات باقی رہیںگی، قتل عمد کا قصاص لیا جائے گا۔ اس کی دیت سو اونٹ ہے، ہر قسم کا سود، اس کا لین دین آج سے ممنوع ہے۔ زمانہ جاہلیت کے تمام سودی کاروبار اب باطل ہیں اور جہاں تک عباس بن عبدالمطلب کے سود کا تعلق ہے تو وہ تمام کا تمام ساقط ہے۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون (بدلہ اور انتقام) اب کالعدم ہیں اور میں اپنے خاندان کے ربیعہ بن حارث کا خون معاف کرتاہوں۔
’’لوگو! اب زمانہ گھوم پھر کر اسی جگہ آگیاہے، جہاں سے کائنات کی پیدائش ہوئی تھی، مہینوں کی تعداد بارہ اور چار مہینے حرام ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ۔ حج قیامت تک اب ذی الحجہ کے مہینے کے ساتھ مخصوص رہے گا۔‘‘ لوگو! تمہارے جان ومال عزت ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردیے گئے ہیں اور یہ ایسے ہی محترم ہیں جیسے آج کا دن۔ آج کا مہینہ اور آج یہ مقام محترم ہے۔ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کا خون حلال سمجھے، مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھے اور مجاہد وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر نفس کشی کرے۔ خبردار اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس کو لوٹانے کا پابند ہے۔ ضامن ضمانت کا ذمے دار ہے اور مجرم اپنے جرم کا خود ذمے دار ہے۔ نہ باپ کا بدلہ بیٹے سے اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔
لوگو! سارے مسلمان آپس میں بھائی ہیں اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، جو خود کھاتے ہو وہ انہیں کھلائو، ایسا ہی پہنائو جیسا خود پہنتے ہو ‘‘ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا۔ جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا پتھر ہے اور اس کا حساب اﷲ کے ذمے ہے۔ جو کو اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کوئی اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اﷲ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا کوئی معاوضہ قبول نہ کیاجائے گا۔
لوگو! ’’عورتوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو ان کے ساتھ حسن سلوک کرو کیوںکہ وہ اﷲ کے کلام کے تحت تم پر حلال کی گئیں۔ اگر وہ فرماںبرداری کریں تو ان پر کسی قسم کی زیادتی کا تمہیں کوئی حق نہیں، ان کا کھانا، کپڑا تمہارے ذمے ہے۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے یا کسی ایسے شخص کو تمہاری غیر موجودگی میں بلائے جسے تم پسند نہیں کرتے۔ یا بے حیائی اور بد کاری کے کام کرے۔ اگر وہ یہ سب کریں تو تم ان پر سختی کرو اور انہیں بستروں پر اکیلا چھوڑدو‘‘
لوگو! ’’اپنے پروردگار کی عبادت کرو، نماز، پنج گانہ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے رب کے گھر کا حج کرو، اپنی زکوٰۃ خوشی خوشی دیا کرو اور اپنے حکام کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائو‘‘
لوگو! اﷲ سے ڈرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، ملک میں فساد کرتے نہ پھرو دین میں غلو سے بچو‘‘
لوگو! ’’شیطان اس بات سے تو بے شک بالکل مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین پر کبھی اس کی پرستش کی جائے گی مگر چوکنا رہنا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر اس سے بچے رہنا۔ اﷲ کے نام پر جھوٹی قسمیں نہ کھایا کرو، میں نے تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ تم کبھی گم راہ نہ ہوگے، اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہے اور وہ ہے اﷲ کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی سنت۔ خبردار میرے بعد کہیں کافر نہ بن جانا، کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ لوگو! تم اپنے رب سے ملوگے تو اﷲ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں ضرور باز پرس کرے گا، پس جو آخرت کو ہی پیش نظر رکھے گا تو اﷲ اسے دل جمعی عطا کرے گا اور اسے دنیا میں تونگری اور بے نیازی عطا کرے گا اور دنیا اس کے قدموں میں سرنگوں ہوکر خود آئے گی، لیکن جو دنیا ہی کو محبوب و مقصود قرار دے گا تو اﷲ اس کے معاملات کو منتشر ومتفرق کردے گا اور وہ شخص دنیا میں افلاس وتنگ دستی دیکھ لے گا۔ دنیا میں سے اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ لوگو! جو یہاں موجود ہیں وہ غیر حاضر تک میری باتیں پہنچادیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے اﷲ میں نے تیرا پیغام پہنچادیا: پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت کیا : ’’ کیا میں نے اﷲ کا پیغام تم تک اچھی طرح پہنچادیا؟ سب نے اقرار کیابے شک اﷲ کے رسولؐﷺ ۔ تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اےبیت تو گواہ رہنا‘‘ یہ خطبہ حجۃ الوداع امن و سلامتی تہذیب و معاشرت حقوق انسانیت کا ایسا پیغام ہے جو اپنی جزئیات کے اعتبار سے انتہائی مکمل اور جامع ہے۔
خطبہ سے فارغ ہوکر حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا۔ پھر ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا فرمائی۔ پھر موقف میں تشریف لائے اور دیر تک قبلہ رو کھڑے ہوکر دعا میں مصروف رہے۔ جب آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے کی تیاری فرمائی۔ اسامہؓ بن زید کو اونٹ پر پیچھے بٹھالیا۔ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ادا فرمائی۔ رات آرام فرمانے کے بعد صبح نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ واپس تشریف لائے اس وقت فضل بن عباسؓ اونٹنی پر پیچھے بیٹھے تھے۔ وادی محسر میں ابن عباسؓ کو حکم دیا کہ مجھے کنکریاں چن دیں۔ جمریٰ عقبیٰ کی رمی سے فارغ ہوکر یدان منیٰ تشریف لائے، سید نا بلالؓؓ ناقہ کی مہار تھامے ہوئے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کی قربانی کی۔ 63اونٹ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نحرکیے اور 37 کی سیدنا حضرت علیؓ نے قربانی کی۔ قربانی سے فارغ ہوکر سر مبارک معمر بن عبداﷲ ؓ سے منڈوایا۔ فرط محبت سے ابو طلحہؓ اور ان کی بیوی ام سلیم کو اپنے دست مبارک سے کچھ بال عنایت فرمائے اور باقی ماندہ بال ابو طلحہؓ نے اپنے ہاتھ سے تمام مسلمانوں میں ایک ایک دو دو کرکے تقسیم کردیے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے طواف زیارت کیا۔ چاہ زمزم پر تشریف لائے۔ سیدنا عباس ؓ نے ڈول میں پانی نکال کر پیش کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبلہ رو ہوکر نوش فرمایا اور منیٰ واپس تشریف لے جاکر نماز ظہر ادا فرمائی۔ 13ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام فرمایا۔ زوال کے بعد منیٰ سے چل کر وادی محصب (معابدہ) میں قیام کیا۔ رات وہاں بسر فرمائی اور سحری کے وقت مکہ تشریف لائے۔ کعبہ شریف کا الوداعی طواف ادا فرمایا اور صبح نماز کے بعد مدینہ روانہ ہوگئے۔
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459462 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More