گدا گری ایک منظم پیشے کے طور پر پروان پا چکا ہے

 اسلامی ممالک میں بھکاری اور گداگر اﷲ کے نام پر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور محنت و مشقت کرنے کی بجائے پیشہ ور گداگر بن چکے ہیں اور بھیک کی لعنت سے جڑے ہوئے ہیں گدا گری ایک عالمی مسئلہ ضرور ہے لیکن پاکستان کے اندر گدا گری ایک افسوس ناک امر ہے کیونکہ بھیک آسان ترین نفع بخش تجارت اور پیشہ بن چکا ہے جبکہ آئیں پاکستان کے آرٹیکل 3 اور 11 میں بھیک مانگنا ایک جرم قرار دیا گیا ہے پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے حکومت کو اس امر کو روکنے کے لئے عملی پیش رفت کر کے بیروزگار ،معذور، محتاج،غریب اور نادار افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہئے اور اس قابل سزا جرم سے منع کیا جائے۔جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھکاری ہومز بنائے گئے جہاں ان کو مفت کھانا اور لباس فراہم کیا جاتا تھا یہ سلسلہ آج بھی چلایا جا سکتا ہے۔گدا گری ایک منظم پیشے کے طور پر پروان پا چکا ہے وقت گزرنے کے ساتھ گداگروں نے بہت سے نت نئے طریقے،روپ اور انداز دھار لئے ہیں پہلے تو کہیں کوئی ایک بھیک مانگنے والا بندہ یا بندی نظر آتا تھا لیکن اب ہر سگنلز،شاہراہوں،سڑکوں،گلیوں،بازاروں میں یہ سر عام پائے جاتے ہیں اور جلدی سے پیسے مانگنے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔گداگروں نے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے نیا روپ نکالا ہے یہ اپنے جسموں پر نقلی نشان بنواتے ہیں اور اپنے پاؤں پر پٹی باندھ کر ریڑیوں پر بیٹھ کر کراہتے ہیں اور دیکھنے والے کو اصل معلوم ہوتا ہے اور فورا بھیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔پیسے ہتھیانے کا ایک طریقہ دینی،مذہبی،اور شرعی حیلے بہانوں کا استعمال ہے ان کے ہاتھوں میں مدرسوں کی رسیدیں ہوتی ہیں اور وہ مسجد کی تعمیر کے لئے اینٹوں،بجری اور سیمنٹ کے لئے پیسے مانگتے نظر آتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کی اکثریت بہت دھوکے باز ہوتی ہے۔گداگروں کی ایک قسم عادی نشہ آور ہوتی ہے جو نشہ آور ادویات اور منشیات کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نشے کی لعنت کو پورا کرتے ہیں۔عوام اور حکومت بالا سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے،محلے،دفاتر،اور اداروں کے اندر نچلے طبقے کے ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدنی قلیل ہے اور انتہائی تنگ دست ہیں ان کی مدد پیسوں سے کرنے کی بجائے ضروریات زندگی کی اشیاء مثلا کھانے کا سامان لباس اور دوسری ضرورت کی اشیاء سے کریں تاکہ پیشہ ور گداگروں کے ساتھ ساتھ جرائم کا خاتمہ بھی ہو سکے اور پیسے کا صحیح استعمال ہو سکے اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بھی سود مند ثابت ہو
 

Dr Muhammad Adnan
About the Author: Dr Muhammad Adnan Read More Articles by Dr Muhammad Adnan: 27 Articles with 24797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.