کیا قائد نے تعصب کا پہلا بیج بویا تھا یا علا قائیت پرستوں نے

"قائد نے تعصب کا پہلا بیج بویا....!"یہ آج میرے کالم کا موضوع ہے لیکن یہ سوچ قطعی میری نہیں بلکہ اس متعصب سوچ نے ہی مجھے یہ کالم لکھنے کی تحریک دی۔ بد قسمتی سے ہمیں قدم قدم پر متعصب سوچوں کا جال نظر آتا ہے اور یہ جال ہمیں قومیت، قومی یکجہتی کی طرف جانے نہیں دیتا۔ ٹھہرے پانی میں کوئی اچانک پتھر پھینک دے تو، دیر تک ہلچل پانی کی سطحوں کو بے چین رکھتی ہے۔ متعصب سوچیں، رویے اور باتیں قومی یکجہتی کے پرُسکون سمندر میں ہلچل کا باعث بننے والے پتھر وں کی مانند ہیں۔ یہ جملہ بھی ایک پتھر ہی ہے یہ جملہ کہنے والاکوئی عام انسان نہیں تھا کہ دِرگزر کردیاجاتا کہ بے چا رہ علم سے بے بہرہ ہے۔ میں معافی مانگتی ہوں کہ اگر میرا لکھنا"کسی" کو گِراں گزرے تو معذرت....!!میرا مقصد صرف تعصب کونشانہ بنانا ہے جو ناسور کی طرح ہمیں قومیت سے دور کررہا ہے ۔ایک قوم کو "فرقہ فرقہ کررہا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ"قائد اعظم نے تعصب کا پہلابیج بویا اور قائد ہی خرابی کی اصل جڑ تھے"(یہ جملہ من وعن ویسے ہی لکھ رہی ہوں جیسے کہا گیا۔)یہ بظاہر دو جملے ہیں لیکن یہی تعصب سے مزّین ایک ایسی تلوار کی طرح میرے قلب کو چھلنی کر گئے جس کی دھار عام رتلوار سے کئی ہزار گُنا خطرناک تھی۔ جس نے قومیت پر کاری ضرب لگا ئی تھی اور جس نے میرے دل میں "قائد" کی محبت کو نشانہ بنایا تھا۔ بابا(قائداعظم)نے....؟؟ مجھے لگا شاید میرے سننے میں خلل واقع ہواہے۔"ہاں بابا(قائداعظم) نے ہی اردو کو قومی زبان بنا کر تعصب کا پہلا بیج بوُ یا تھااور اسی تعصب نے ہم سے مشرقی پاکستان کو بدظن کیا۔ اسی تعصب نے علاقائی، فرقہ ورانہ اور لسانی اور مذ ہبی تعصب کو ہَوا دی....."

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ.....؟؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ قائد اعظم نے تعصب کی فصل بوئی ہو؟؟ مجھے لگا کہ وہ صاحب اپنے حواس میں نہیں تبھی اول فول بولے جارہے ہیں۔ لیکن وہ مکمل حواس میں ہونے کے ساتھ اپنی بات کے ٹھیک ہونے پر بضد تھے اورمیں تعصب کے بتُ کو د یکھ کر شاکڈتھی۔

"ایسا ہی ہے قائد اعظم کو نظر نہیں آتا تھا کہ پاکستان میں مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف علاقائی کلچر رکھنے والے، مختلف ثقافتی ورثہ کے حامل جدُاجدُاcast کے لوگ آباد ہیں۔ ایسے میں جب سندھی، پنجابی اور بلوچی اور پشتو بولنے والوں کی کثیر تعداد پاکستان میں رہتی ہے تو"اردو" کو ہی کیوں قومی زبان چُنا گیا....؟؟۔

یہ تقریر مجھے قائل کرلیتی اگرمجھے پتا نہ ہوتا کہ متعصب لوگ اپنی بات کے حق میں کُھوکھلے دلائل پیش کرنے کے ماہر ہو تے ہیں۔

اگر ہم ار دو کوقومی زبان نہ بناتے تو کس زبان کو قومی زبان بناتے ....؟کیو نکہ پاکستان میں 30سے زیادہ زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ جن میں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو چار بڑی زبانیں ہیں۔ جن کا اپنا اپنا لوک ادب ہے ان سے اسکے بولنے والوں کی نفسیاتی اور جذباتی وابستگی اس قدر ہے کہ ہر ایک صوبہ اپنی علاقائی زبان کو"قومی زبان" بنائے جانے کا خواہشمندہے ۔یہ سوچ قومی یکجہتی، قومیت کی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اُنھوں نے مجھے کچھlinksبھی studyکے لئے دئے جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ یہ linksاُس تاریخ پر پڑے دبیز پردوں کو ہٹا ئینگے جو ہمیں پڑھائی گئی ہے۔ بعد ازاں میں نے جب پڑھنے کے ارادے سے وہ linksکُھولے۔ توپڑ ھے بغیر ہی کلوز(close)کردئیے، کلوز کرنے کی ایک وجہ اُن کی ضخامت تھی اسے آپ میری کام چوری کہیں یا کچھ اور..... دوسری وجہ یہ تھی کہ میں اپنی اُس سوچ کو تعصب کی آگ میں جُھونکنا نہیں چاہتی تھی جس کی پرورش میں مجھے عرصہ لگا اور وہ سوچ یہ تھی۔

"ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح"

صاحب! بنگالی اگر اردو کی وجہ سے بد ظن تھے تو رہیں ۔ بنگالی زبان کیو نکرہماری قومی زبان بنائی جاتی جبکہ اردو پاکستان کے مطالبے میں پہلی واضح آواز" تھی جو بر صغیر میں اُبھری۔ جس نے ایک خیال کو ،۔ خواب سے، تعبیر کا رنگ دیا.۔۔۔۔۔۔۔!!۔ مشہور ما ہرِلسا نیا ت گرا ہم بیلی ا س با رے میں کہتے ہیں کہ اُردو کی ابتدا ٹھیک اس وقت ہوئی جب ۷۲۰۱ءمیں غز نو ی کی فو ج نے لا ہور میں قیام کیا ،مختلف لسا نی گرو ہوں کے لو گو ں آپس میں گفتگوفا رسی میں کیا کرتے تھے ۔لیکن شما لی ہند کے با زاروں میں گھو متے وقت انہیں یہ احسا س ہوا کہ وہاں کے مقا می لوگ اُن کی زبا ن نہیں سمجھتے ۔۔اس مشکل نے ایک نئی زبان کی ضر ور ت کو جنم دیا۔بعد ازاں جو زبان ایجاد ہوئی وہ اُردو تھی جسے لشکر کی زبان کہا گیا۔۲۴۸۱ءکے اوائل میں لا رڈ لا رنس نے اُردو کو تما م طبقوں کے ما بین سمجھی جا نے والی بین ا لاقوا می زبان قرار دیا لیکن ۷۶۸۱ءمیں بنا رس کے سر کر دہ ہندوﺅں نے اپردو ہندی تنا زعہ کو ہوا دی ۲۷۸۱ءمیں بنگال کے گورنر سرجا رج کے مپبل نے صو بہ بہار میں اُردو کی جگہ ہندی کو رائج کردیا۔۰۰۹۱ءمیں یو پی کے گو رنر انٹونی میکڈونل نے بھی ہندوﺅں کو شے دی ۔۔مسلما نوں کی کچھ شنوائی نا ہوئی ۔یہی وہ شکست تھی جس نے برِصغیر کے مسلما نو ں کو سیا سی طو ر پر منظم کیا بعدا زاں یہی سیا سی شعور مطا لبہ ِپا کستان کی وجہ بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!جس کے بارے میں بابا ئے اُر دو مولوی عبد ا لحق(191-1870)کا کہنا تھا کہ:" پاکستان کی پہلی اینٹ جس نے رکھی وہ اردو زبان ہی تھی"

اردو برصغیر کے مسلمانوں کے قومی تشخص کی پہلی علامت بھی ہے جس کے بارے میں صہبا اختر نے کہا تھا:
"اب کا نہیں یہ صدیوں کا ساتھ ہے
تشکیل ارضِ پاک میں اُردو کا ہاتھ ہے"

اور فرض کیا کہ بنگالیوں کی خواہش کے مطابق بنگالی کو قومی زبان بنا بھی لیا جاتا تو کونسا تعصب کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ پھر پنجابی، سندھی، سرائیکی اور پشتو بولنے والے بھی اپنی اپنی زبانوں کے حق میں اُ ٹھ کھڑے ہوتے ۔ اور یوں نا ختم ہونے والی لسانی تعصب کی جنگ شروع ہوجاتی۔قائد اعظم نے تعصب کا بیج نہیں بُویا تھا بلکہ تعصب کی جڑ یں کا ٹی تھیں۔ پرافسوس !چند عناصر تعصب کی مسلسل پرورش کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کو جہاں دیگر مسائل و مشکلات کا سامنا ہے وہاںتعصب جیسے خطرناک دیو کا بھی سامنا ہے۔۔۔ بنگالیوں نے نے اس دھرتی کے ساتھ کونسی وفا کی تھی ؟ جس کو ہزاروں لوگوں نے اپنے لہو سے سینچا تھا ، جس کے لئے ماوﺅں، بہنوں کے آنچل میلے ہو ئے تھے بے سرسامان لُٹی پٹی زندگی صرف اس آس پر مسکراتی رہی تھی کہ"پاکستان ہمارا ہے اور ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں" لیکن ہم پاکستانی ہونے سے زیادہ سندھی،پنجابی، بلوچی اور پٹھانی ہونے پر فخر محسوس کرنے لگے ، بنگا لیوں نے صرف بنگالی کو قومی زبان نہ بنائے جانے پر ایک وجود(پاکستان) کو دولخت(1971ءمشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحد گی) کردیا۔ یہ کہاں کی محب الوطنی تھی....؟؟

اب اُن صاحبوں! کو کون سمجھا ئے جو نفرت، تعصب ، فرقہ بندی، لسانی تعصب ،مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی کی فصل اس پاک دھرتی پر کاشت کرنا چاہتے ہیں کہ" متعصب سوچیں زہرِقاتل ہوا کرتی ہیں قوموں کے لئے۔۔۔ انتہائی تکلیف ہورہی ہے کہ ہم ہرسطح پر تعصب کے شکنجوں میں جکڑے جارہے ہیں۔قومی مفادات، علاقائی مفادات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوکر تعصب کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ قومی مفادات کے اَن گنت منصوبے علاقائی تعصب کی آگ میں جل کر خاکستر ہوگئے اور کئے جارہے ہیں ۔ عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور ہم آپس میں چاک وگر یبان ہیں ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندی کے نام پر جو دہشت ناک کھیل کھیلا جارہا ہے وہ کسی طور پاکستان کے حق میں نہیں اس دہشت ناکی نے امن و اما ن کو ہم سے دور تر کر رہا ہے ہمیں اپنے آس پاس موجود متعصب سوچوں کو کُچلناہوگا۔ عوام کی بات تو الگ، ایک لیڈر سے تعصب کی تو قع نہیں کی جاسکتی کیونکہ لیڈر آئین کے ناگہبان بھی ہوتے ہیں، 26فروری 2010ءکی بات ہے جب اے این پی(ANP) کے پارلیمانی لیڈر اور سینئر صوبائی وزیر برائے بلدیات بشیر احمد بلور نے ایک سوال کے جواب میں کہا:
" ارُدو قومی زبان نہیں بلکہ رابطے کی زبان ہے"

باوجود اس کے کہ آئین کے آرٹیکل251میں واضح طور کہا گیا ہے کہ
"ارُدو قومی زبان ہے"

لگتا ہے موصوف نے حلف اُٹھاتے وقت اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ رکھی تھی۔ اس طرح کے لوگ قوم کے دوست نہیں، دشمن ہوتے ہیں جو تعصب کو اپنے ذا تی اور سیا سی فائدے کے لئے ہَوا دیتے ہیں۔ ارُدو زبان ہی لسانی تعصب کی بیخ کنی کرنے کا واحد ذریعہ تھی۔ قائد اعظم نے جو فیصلہ کی تھا وہ اپنی سچائی ثابت کر چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد علا قائیت پر ستوں نے جب لسانی اختلافات کو ہَوادی تو ڈھاکہ میں 24مارچ1948ءکو قائد اعظم نے انتہائی پُڑشگاف الفاظ میں فرمایا تھا:
"ارُدو زبان عظیم ثقافتی ورثے کی حامل اور پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بولی اور سمجھی جاتی ہے او ر اسلامی ممالک کی زبانوں سے بھی قریب تر ہے اس لیئے پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ جو اس بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا کر نا چاہتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔"

اس قول کی تائید ہمارا آئین بھی کرتا ہے ۔ بلوچی، سندھی، پںپنجابی اور پشتو سمجھنے والے لوگ آپس میں تبادلہ خیال نہیں کرسکتے۔ انھیں باہمی رابطے کےلئے، گفتگو کےلئے ایک ایسی زبان کی ضرورت ہر حال میں رہتی جو تمام لوگوں کو آسانی سے سمجھ آتی ۔۔۔۔ ایسے میں اردو سے بہتر کوئی زبان نہیں ہوسکتی تھی۔ اردو زبان کراچی سے خیبر تک بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔ اردو زبان میں تقریباً ہر زبان کے الفاظ سمونے کی صلاحیت ہے اسلیئے اسے ہی قومی زبان ہونے کا حق حاصل تھا۔ ہم اسے اجنبی زبان بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ زندہ قوموں کو اپنی تاریخ پر فخرہو تاہے کہتے ہیں کہ ایک پلیٹ میں کھانے سے برکت ہوتی ہے اللہ بھی خوش رہتا ہے لیکن ہم سے ایک پلیٹ کے بجائے ٹوٹی پلیٹ میں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ قومیت ایک پلیٹ ہے اور علا قائیت، قومیت سے الگ کی گئی ٹوٹی پلیٹ۔۔۔۔۔

جب ہماری شناخت پاکستان ہے تو الگ زبان ، الگ نصاب، الگ صوبوں کامطالبہ کیوں ۔۔؟؟ایک چھت کے نیچے رہنے والے چاہے آپس میں کیسے ہی ہوں، مشکل گھڑی میں ایک ڈھال ہوجاتے ہیں اور ہمیں"ایک" ہی رہنا ہے۔ سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو جیسے الفاظ قومیت کی خاطر فراموش کرنا ہونگے اور ان ناموں پر سیاست کرنے والوں کی نفی کرنا ہوگی۔" تعصب کو اپنی سوچوں سے ، اپنی باتوں سے ، اپنی زندگیوں سے چلتا کرنا ہوگا کہ” ہم ایک ہیں" میں پنجابی ہوں ، آپ سندھی ہو ، وہ بلو چی ہے یا وہ پٹھا ن ہے ایسے رویوں کی بیخ کنی کرنا ہوگئی ا س سے قومیت، قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔ کالم لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ مجھے قطعی اچھا نہیں لگا کہ کوئی میرے قائد کو غلط الفاظ میں "Paint" کرے۔ لیکن میں یہ خامہ فر سائی اپنے قائد کے دفاع کےلئے نہیں کررہی ۔ (اُنہیں اس کی ضرورت ہی نہیں)میں تو اپنے خیال کو شکل دے رہی ہوں جس کے مطابق"ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح ©" آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگی کہ قرآن کلامِ الہی ہے پاک ہے اور اس میں انسانوں کی فلاح، بہتری، کامیابی کا خزانہ ہے ۔ لیکن چند بیمار ذہنوں نے اس پاک کتاب کی حُرمت کا بھی پا س نہ کیا ا پنے مفاد، اپنے فائدے کے لئے آیتوں کے مفہوموں کو اپنی ضروریات مرضی و منشاءکے مطابق بدل لیا کہ "وہ سچے ہیں" حالانکہ ایسے لوگ ایک ایسے اندھے کنواں میں گِرے ہوئے ہیں جہاں حق و سچائی کی روشنی اول تو داخل انہیں ہوتی ۔ اگر ہو بھی جائے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ حق و سچائی کو جُھٹلانے کے لئے۔۔۔۔۔۔ جبکہ درحقیقت تو وہ خود کو ہی فریب دے رہے ہوتے ہیں ۔

بس تعصب کسی بھی رنگ میں، کسی بھی طرح کا ہو ، ہوتا فریب ہی ہے۔ ہمیں اس فریب سے نکلنا ہے اپنے روشن کل کی خاطر۔ قائداعظم نے1948ءکو کوئٹہ میو نسپلٹی کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا۔

' ہم سب پاکستانی ہیں ، ہم میں سے کوئی شخص بھی پنجابی، سندھی، بلوچی یا پٹھانی نہیں ہے ۔۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک کو صرف پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا، محسوس کرنا اور عمل کرنا چاہیئے اور ہمیں پاکستانی کہلوانے پر فخر ہونا چاہیئے"

مجھے فخر ہے کہ میرا قائد دنیا کے اُن چند لوگوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی تاریخ کو بدلنے کا ہنر جانتے تھے۔ اردو ناصرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ پاکستان کی سرکاری زبان بھی ہے جس کو تسلیم نہ کرنے والا آئین سے غداری کا مرتکب ہونے کے ساتھ تعصب پھیلا نے کا باعث بھی ہوتا ہے۔تعصب کی آ گ میں قومیں تر قی نہیں کرتیں بلکہ خلفشار،بد ا منی اور جمود کا شکار ہو کر مٹ جا تی ہیں ۔میں نہیں چا ہتی کہ جب بہت سی بیرو نی قو تیں ہما ر ی جُدا گا نہ قو میت کو نشا نہ بنا ئے ہوئے ہیں تو ہم اندرونی طور پر علا قا ئی ،مذ ہبی یا لسا نی تعصبا ت میں پڑ ٓکر اپنی مٹی سے بے وفائی کریں۔۔۔۔۔۔!!!!اللہ آپ سب کا حامی وناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.