انسانی تخلیق کے اِرتقائی زمان و مکان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالحِجر ، اٰیت 26 تا 44 انسانی تخلیق کے اِرتقائی زمان و مکان !! ازقلم.... علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
خلقنا الانسان
من صلصال من حماٍ
مسنون 26 ولجآن خلقنٰہ من
قبل من نار السموم 27 واذقال ربک
للملٰئکة انی خالق بشرا من صلصال من حماٍ
مسنون 28 فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوالہ
سٰجدین 29 فسجد الملٰئکة کلھم کلھم اجمعون 30 الا ابلیس ابٰی
ان یکون مع السٰجدین 31 قال یٰآ ابلیس مالک الا تکون مع السٰجدین 32
قال لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حماٍ مسنون 33 قال فاخرج منھا
فانک رجیم 34 وان علیک اللعنة الٰی یوم الدین 35 قال رب فانظرنی الٰی یوم یبعثون 36
قال فانک من المنظرین 37 الٰی یوم الوقت المعلوم 38 قال رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض و
لاغوینھم اجمعین 39 الا عبادک منھم المخلصین 40 قال ھٰذا صراط علی مستقیم 41 ان عبادی لیس لک علیھم
سلطٰن الا من اتبعک من الغٰوین 42 وان جہنم لموعدھم اجمعین 43 لھا سبعة ابواب لکل باب منھم جزء مقسوم 44
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ انسان کے موجُودہ وجُود کو ھم نے پانی کی تراوٹ سے تر اور آفتابی تمازت سے خُشک ہونے والی اُس مِٹی کے جوہر سے بنایا ھے جو جَوہر آب و خاک کے اِس اشتراکِ مُشترک سے پیدا ہوا ھے اور انسان سے پہلے ھم نے جنات کو اُس مُجرد آگ سے پیدا کیا تھا جس میں حرارت تھی دُھواں نہیں تھا ، پھر ایک مُدت بعد اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو بتایا کہ میں آب و خاک کے ایک خُشک آمیزے سے ایک متوازن و متناسب بشر بنانے والا ہوں اور تُم میرے اِس حُکم کو ابھی سے ذہن نشین کر لوکہ جب میں اُس بشر کے جسم میں اپنا حُکمِ حیات ڈال کر اُس کو حرکت و عمل کا حامل بنا دوں تو تُم سب نے سربخم ہوکر اُس بشر کے ساتھ اپنی تابع داری اور وفاداری کا اظہار کرنا ھے اور پھر جب میرے اِس حُکم پر عمل کا وقت آیا تو ایک مایُوس فرد ابلیس کے سوا سب نے سربخم ہو کر میرے پیدا کیۓ ہوۓ اُس بشر کے ساتھ اپنی تابع داری اور وفا داری کا اعلان کیا ، جب اللہ نے بشری اقتدار کے اُس اَکلوتے مُنکر ابلیس سے انکار کی وجہ پُوچھی تو اُس نے کہا کہ یہ بات تو میرے تخلیقی مزاج ہی کے خلاف ھے کہ میں اُس بشر کی اتباع کروں جو پانی سے نکلی ہوئ ایک خُشک مُشتِ خاک سے بنایا گیا ھے ، اللہ تعالٰی نے حُکم دیا کہ تُو میری اِس وفادار جماعت کے اِس حلقے سے نکل جا کیونکہ میرے اِس حُکم کی اِس خلاف ورزی کے بعد تُو میرا دُھتکارا اور پِھٹکارا ہوا ایک اقبالی مُجرم ھے جس کے لیۓ یہاں اَب کوئی بھی جگہ نہیں ھے ، اللہ کا یہ حُکم سُن کر ابلیس نے کہا کہ اے مُجھے پیدا کرنے اور پروان چڑھانے والے میرے خالق و مالک ! اگر تُونے اپنی اِس آتشبار تخلیق کے مقابلے میں اپنے اُس خاکسار بشر کو اپنی محبت کا زیادہ مُستحق جانا ھے اور اُس بشر کو عظمت دینے کے لیۓ مُجھے دُھتکار پِھٹکار کر اپنی محبت سے دُور کر ہی دیا ھے تو پھر مُجھے بھی خود کو کامل اور اِس بشر کو ناقص ثابت کرنے کے لیۓ فیصلے کے اُس دن تک مُہلت دی جاۓ جب اِس بشر کے اَعمالِ خیر و شر کا آخری جائزہ لیا جاۓ گا اور میں تیرے اِس بشر کے اِس عرصہِ حیات میں خود کو ایک فَردِ کامل اور اِس بشر کو ایک مردِ ناقص ثابت کردوں گا ، اللہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تُجھے بھی فیصلے کے اُس دن تک مُہلت پانے اور اِس مُہلت سے فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل کردیا ھے ، ابلیس نے کہا کہ ٹھیک ھے تُونے اپنے جس محبوب بشر کی محبت میں مُجھے راندہ درگاہ کیا ھے میں تیرے اُس محبوب بشر کو زمین کے طول و عرض کے ہر راستے پر بیٹھ کر راہ سے گُم راہ کروں گا اور میں اُس کے سامنے فتنہ و شر کو اِس طرح خوب صورت بنا بنا کر پیش کروں گا کہ اِس بشر کی اکثریت میرے فتنہ و شر کی اسیر ہو جاۓ گی اور تیرے چند وفادار بندے ہی میرے اِس شر سے بَچ پائیں گے ، اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میرے وفادار بندوں کے لیۓ میرے وفادار بندوں کی یہ وفاداری ہی مُجھ تک پُہنچنے کی ایک سیدھی راہ ھے جس کا تُو ذکر کر رہا ھے اور میرے جو وفادار بندے مُجھ تک پُہنچنا چاہیں گے اُن پر کبھی بھی تیرا کوئی زور نہیں چلے گا اور میرے جو نافرمان بندے تیرے بَھرے میں آکر گُم راہ ہو جائیں گے تو میں اُن سب کو جہنم کی اُس وسیع وادی میں دھکیل دوں گا جس میں داخلے کے سات دروازے ہوں گے اور جس میں میرے غداروں اور تیرے وفاداروں کے لیۓ جگہ کی کوئی کمی نہیں ہو گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے کم و بیش 116 اٰیات میں انسان کی تَخلیق کا 65 ، بشر کی تَجسیم کا 26 اور آدم کی تَکمیل کا 25 بار جو ذکر کیا ھے وہ ایک ہی ہستی یعنی آدم و انسان یا بشر کی ہستی کی مُختلف زمان و مکان میں ہونے والی اُس تَخلیق و تَجسیم اور تَکمیل کے تاریخی و تدریجی مراحل کا ذکر ھے جو اُس ہستی پر ارتقاۓ حیات کے مُختلف زمان و مکان میں وارد ہوۓ ہیں اور اٰیاتِ بالا کا یہ مقام بھی اُن 116 مقامات میں سے ایک ھے لیکن اٰیاتِ بالا کے اِس مقام پر آدم کا ذکر نہیں ہوا ھے بلکہ صرف انسان اور بشر کا ذکر ہوا ھے ، انسان کو انسان کی اِس ارتقائی تفہیم کا عام فہم سے بہتر فہم صرف اُس صورت میں حاصل ہوتا ھے جب وہ قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ اِن سارے مقامات کا علمی احاطہ کرتا ھے اور اللہ تعالٰی نے انسانی تَخلیق کے اِس موضوع کا مُخلتف مقامات پر شاید ذکر بھی اِس لیۓ اَلگ اَلگ ہی کیا ھے تا کہ انسان اپنی تدریجی تَخلیق کے واقعات کو اُسی تدریج کے ساتھ پڑھے اور سمجھے جس تدریج کے ساتھ انسانی تَخلیق کے وہ واقعات پزیر ہوۓ ہیں کیونکہ انسان کو اپنی اِس تَخلیق کا ایک پہلُو تو قُرآن کی اٰیات میں ملتا ھے اور ایک پہلُو عالَمِ کائنات کی اُس تجربی حیات میں ملتا ھے جس کا ذریعہ انسانی تاریخ ھے اور اٰیاتِ بالا کے مطابق انسان کی انسانی تَخلیق کا ایک زمانہ وہ تھا جس میں وہ ایک مُجرد انسان تھا اور اپنے لُغوی معنی کے اعتبار سے اُس زمانے میں اُس زمانے کا وہ انسان { آنَسَ } کی قُرآنی لُغت کے مطابق دیکھنے کی اور { اُنس } کی قُرآنی لُغت کے مطا بق ایک دُوسرے کے ساتھ مانُوس کی صلاحیت کا حامل بن چکا تھا ، یعنی انسان کا یہ زمانہ انسان کے وجُود پر گزرنے والے ارتقاء کا وہ زمانہ تھا جب انسان تمدن کی طرف بڑھ رہا تھا اور اَلگ تَھلگ کسی غار میں رہنے کے بجاۓ ایک بستی بسانے اور ایک بستی میں ایک دُوسرے کے ساتھ مل کر رہنے بسنے کو ترجیح دینے لگا تھا ، اٰیاتِ بالا میں انسان کے بعد اِس ہستی کے لیۓ جو دُوسرا لفظ استعمال ہوا ھے وہ بشر ھے اور بشر کا لُغوی مفہوم انسان کی اُس ابتدائ جسمانی ساخت کی خبر دیتا ھے جب وہ اِس قابل ہوا تھا کہ اُس کا جسم اپنی اُس رُوح کی رفاقت کو برداشت کر سکے جس رُوح کے جسم میں آنے کے بعد پہلے انسان مُجرد حرکت کا اہل ہوتا ھے اور پھر رُوح و جسم کی اِس یَکجائی کے بعد وہ اللہ تعالٰی کے اُس علم کو پانے کا اہل بھی ہو جاتا ھے جو اللہ تعالٰی کے نزدیک انسانی حیات کا علمِ مطلُوب ھے اور اللہ تعالٰی نے اُس علمِ مطلُوب کے تمام گوشے اِنسان کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کردیۓ ہیں جن کے اِس کے فکر و خیال میں موجُود ہونے کی علامت اِس کا وہ فطری تجسس ھے جس فطری تجسس کے تحت وہ علم اور نظر میں آنے والی ہر چیز کو دیکھنا اور دیکھ کر سمجھنا چاہتا ھے اور انسان جب ارتقاۓ حیات کا سفر کرتے ہوۓ فہم و ادراک کی اِس منزل میں داخل ہوجاتا ھے تو اللہ تعالٰی اِس کے سابقہ تمام ناموں کے بعد اِس کو جو آخری نام دیتا ھے وہ "عبادی" ھے جس کا مطلب میرا بندہ ، میرا غلام ، میرا فرمان بردار اور میرا تابعدار ھے اور یہی وہ باریک نُکتہ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو سمجھایا تھا اور ابلیس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ جو میرا فرمان بردار ھے وہ میرے "عبادی" میں شامل ھے اور جو میرے "عبادی" میں شامل نہیں وہ میرا فرمان بردار نہیں ھے ، ایک محاورہ ھے کہ جس پرندے کو تُم نے پالا ھے اُس کو آزاد کر دو ،اگر وہ پلٹ کر تُمہارے پاس آگیا تو وہ تُمہارا ھے اور اگر وہ تُمہارے پاس واپس نہ آیا تو پھر یہ یقین کر لو کہ وہ کبھی بھی تُمہارا نہیں تھا ، اٰیاتِ بالا کے متن سے معلوم ہوتا ھے کہ اللہ تعالٰی نے ابلیس کو جو آزادی دی ھے اِس سے پہلے بھی اللہ تعالٰی وہی آزادی بہت سے نافرمانوں کو دے چکا ھے اور اِس کے بعد وہ انسان بھی مُکمل آزاد ھے جس کا وجُود اُس فساد کا باعث ھے جس فساد کے لیۓ ابلیس و شیطان اللہ تعالٰی سے جنگ آزما ہیں اور اللہ تعالٰی اپنے "عبادی" کی طرف سے ابلیس و شیطان اور اُن کی ذُریات کے ساتھ جنگ آزما ھے اور وہ اپنے اُس علمِ اَزلی و اَبدی کے تحت اپنے"عباد" کے ساتھ ھے اور جانتا ھے کہ خیر و شر کی اِس جنگ میں آخری فتح اُس کے اِن "عباد" کے حصے میں آۓ گی اور اُس کے یہ "عبادی" عباد ہی دُنیا و آخرت دونوں میں سرخ رُو ہوں گے تاہم یہ انسان کے اور بشر کے انسان و بشر بننے کے بعد کی ایک ضمنی صورت حال ھے ، اٰیاتِ بالا کا بُنیادی مضمون انسان اور بشر کا وہ تَخلیقی ارتقاء ھے جس کے پہلے مرحلے میں اُس کے اَجزاۓ جسم کے کُچھ اَجزا پانی میں اور کُچھ اَجزا ساحلی مٹی میں ملے ہوۓ تھے ، اللہ تعالٰی نے اِس کی تخلیق چاہی تو انسانی اَجزا کے حامل اُس پانی کو اور انسانی اَجزا کی حامل اُس مِٹی کو ایک زمانے تک ایک دُوسرے کا مُتزوج بنا دیا ، پھر طویل زمانے تک آبِ حیات سے گزری ہوئی مِٹی کو سُورج کی حرارت دی اور ایک طویل زمانے بعد تخلیق کے اِس فارمولے کے نتیجے میں وہ جَوہرِ مُفرد ہاتھ آیا جس سے اُن مُتزوج اَفراد کی ابتدا ہوئی جن سے انسان اور بشر پیدا ہونے لگے ، قُرآنِ کریم نے اُس پہلے پانی میں ملنے والی اُس پہلی مٹی کے اتصال کو "صلصال" اور "طین لازب" کا نام دیا ھے اور اِس کے بعد جب وہ مِٹی ہوا سے خُشک ہوگئی تو اِس کو "حماٍ مسنون" کا نام دیا اور دُھوپ سیکنے اور دُھوپ سہنے کے بعد جب وہ مِٹی ایک خشت بن گئی تو اللہ تعالٰی نے اُس کو اِس تخلیقی کا وہ اسمِ "فخار" قرار دیا ھے جس سے فخر کے سوتے پُھوٹتے ہیں اور اھم بات یہ ھے کہ یہ سب نام انسان ہی کے وہ نام ہیں جو انسان کے ارتقائی حالات کے مطابق انسان کو انسان اور بشر کی صورت اختیار کرنے سے پہلے ملے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کی جس مَخلوق کو "الملٰئکة" کہا ھے اُس مخلوق کا مسجد و خانقاہ میں جو کردار بیان کیا جاتا ھے وہ بہت محدُود کردار ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کے اِن "ملٰئکة" کا کردار ثرٰی سے لے کر ثریا تک آب و خاک اور آتش و سحاب کے ہر مقام پر موجُود ھے ، دریا کی طوفانی لہروں ، سمندر کی سکوں آشا موجوں ، درختوں کی جڑوں ، شاخوں ، تنوں ، پتوں ، پُھولوں ، پَھلوں ، کونپلوں ، کلیوں اور انسانی جان و رَگِ جان کے ہر جہان میں فرشتوں کی اپنی چھوٹی بڑی صورتیں ہیں اور اُن کی اُن صورتوں کے مطابق عالَم کے ذرّے ذرّے میں اُن کا کوئی نہ کوئی کردار ھے اور اٰیاتِ بالا میں "الملٰئکة" جو الف لام کی معرفت کے ساتھ آیا ھے عجب نہیں کہ اِس سے یہ مُراد ہو کہ اللہ تعالٰی نے انسان کے جسم و جان کی اِن ساری ملکوتی قوتوں کو آدم کے جُملہ اَحکام ماننے کا حُکم دیا ہو اور ایک سرکش قوت کے سوا ہر قوت نے آدم کے اَحکام ماننے کا اقرار کیا کر لیا ہو اور وہ ایک مُنکر و مَنفی قوت انسان کے نفسِ اَمارہ کی صورت اختیار کر کے انسان کے اندر بیٹھ گئی ہو اور قُرآنِ کریم جس چیز کو نفسِ اَمارہ کہہ رہا ھے یہ وہی وہ ابلیس ہو جو انسان کے جسم کا ایک تابع دار حصہ بننے کے بجاۓ خود انسان کی جگہ لینا چاہتا ہو اور انسان کو تابعداری و خدمت گزاری کا وہ مقام دینا چاہتا ہو جس مقام کو قبول کرنے کا اللہ نے اُس کو حُکم دیا تھا ، بہر حال انسانی حیات و ارتقاۓ حیات کے دیگر فکری اندازوں کی طرح یہ بھی ایک فکری اندازہ ھے جس کو انسانی فکر رَد بھی کرسکتی ھے اور قابلِ غور سمجھ کر اِس پر غور و فکر بھی سکتی ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460767 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More