فروغ امن بذریعہ صحافت

9/11 کے بعد عالمی استعماری قوتوں نے اسلام کو جس طرح نشانہ بنایا اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ اس کام کے لیے سب سے بڑا ذریعہ جو استعمال کیا گیا، وہ میڈیا کا تھا۔ میڈیا کے ٹاک شوز اور مختلف پروگرامز میں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان جدید دنیا سے بے خبر ایک جاہل قوم ہے، جس سے جان چھڑائے یا ان کے سوچنے کا رخ تبدیل کیے بغیر معاشرہ خطرات سے دوچار رہے گا۔ دوسری طرف ڈرامہ اور فلم کے ذریعے مادر پدر آزادی کو روشن خیالی کے خوش نما نعرے میں چھپا کر عوام میں پیش کیا گیا۔ چونکہ ہم مسلمان، مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام سے بے خبر ہیں، اس لیے ہم نے نا صرف اس نام نہاد روشن خیالی کو قبول کیا بلکہ خود کو معتدل ظاہر کرنے کے چکر میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے بچھائے ہوئے دام میں پھنستے چلے گئے. نتیجتاً اس گروہ کو کھل کر اسلام پسندوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا۔ دوسری طرف اگر ہم غیر مسلم ممالک پہ نظر ڈالے تو چونکہ باوجود اس کے کہ وہ ہمارے ہم مذہب نہیں لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ تحقیق میں ہم سے صرف آگے ہی نہیں، بہت آگے ہیں۔ لہذا اسلام کے خلاف اس یکطرفہ محاذ بنانے کا اہل یورپ کے معتدل مزاج افراد پر یہ اثر ہوا کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر یہ اسلام کیسا عجیب دین ہے جو ترقی کے خلاف اور اپنے نا ماننے والوں کو بنا کسی دلیل و جواز کے قتل کرنے کا قائل ہے. اسی نکتے کو جاننے کے لیے جب انہوں نے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو انہیں اس وقت سخت حیرت ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ اسلام تو وہ آفاقی دین ہے، جو دنیا بھر کے انسانوں کے فلاح و تحفظ کا ضامن ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جو انسانوں کے علاوہ حیوانات و نباتات کے حقوق پر نا صرف بات کرتا ہے، بلکہ اس کے تحفظ کے لیے جامع پلان بھی پیش کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ایک عام انسان کو اس کی حثیت سے زیادہ بوجھ اٹھانے پر مجبور کرتے ہوئے اس کے بنیادی حقوق ہی سلب کرنے کا درپے ہے، وہی اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ انسان تو دور کی بات تم اپنے پاس موجود مال بردار جانوروں پر بھی ان کے طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ یہی وجہ رہی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد جہاں اسلام اور مسلمانوں کو منظم مہم کے تحت نشانہ بناگیا، وہی اسی عرصے مغرب میں غیر مسلم بڑی تعداد میں اسلام کے آغوش میں آئے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان نو مسلموں کو کسی نے یہ دعوت نہیں دی تھی کہ وہ آئے اور اسلام قبول کریں بلکہ ان کی اکثریت نے از خود اسلام کا مطالعہ کیا اور حقائق ان پر واضح ہوگئے۔ اب بات یہ ہے کہ اگر ہم اس پروپینگڈے کے توڑ کے ساتھ ساتھ اسلام کا آفاقی پیغام دنیا تک پہنچادیتے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کے نتائج یکسر مختلف ہوتے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکے؟ اس بات کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ عالمی استعمار نے اپنے مقامی کاروندوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف اس قدر منظم انداز میں پروپیگنڈہ کیا کہ ہم دفاعی انداز اپنانے پر مجبور ہوئے اور ان کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے میں ہمیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری وجہ یہ کہ اگر چہ ہمارا مذہبی طبقہ صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض شخصیات کو چھوڑ کر باقی دیگر کی صلاحتیں اور توانائیاں مذہب کی بجائے مسلک کے دفاع میں زیادہ خرچ ہوتی ہے. اگرچہ اپنے مسلک سے جڑے رہنا اور اس کی ترویج کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عملاً ہمارے علماء کرام نے اپنے پیروکاروں کے لیے غیر اعلانیہ طور پر دوسرے مسالک سے قربت یا ان کے لٹریچر سے استفادہ کرنے کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا علمی سرمایہ بجائے مذہب کے مسلک کے تحفظ پہ زیادہ خرچ ہورہا ہے اور اس کے اثرات ہمیں معاشرے میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ مثلا: ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی اسلام یا اسلامی شخصیات کی شان میں کوئی گستاخی کرنے کی جسارت کرتا ہے تو ہمارے ہاں کے مذہب پسند یا دائیں بازو کو سپورٹ کرنے والے احباب ہزاروں بلکہ بعض دفعہ لاکھوں کی تعداد میں نکل کر پرامن احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں لیکن ہم یہ بھی دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ایک متفقہ مسئلے پر بھی ہمارے لوگ اپنے اپنے مسلک کے جھنڈے تلے رہ کر آواز اٹھانا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہی لوگ ایک ہی جھنڈے تلے کسی بھی ایشیو پر متفقہ آواز بلند کریں تو وہ زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ سوال مگر یہاں ہر یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مختلف مسالک کے لوگ متفقہ دینی نکات پر آپس میں گھل مل سکتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے براہ راست ایسا کرنا فی الوقت خاصا مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، وہ ماحول فی الوقت ہمارے ہاں میسر نہیں۔ البتہ کسی تیسرے ذریعے سے ان کے درمیان ربط پیدا کیا جا سکتاہے۔
ایسی ہی کوشش وائس میڈیا نیٹ ورک نے کچھ عرصے سے شروع کر رکھی ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ ہم جلد ایک نئے دور میں داخل ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

وائس میڈیا نیٹ ورک YMN نے اس خلیج کو پاٹنے کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں اس سے بہتر راستہ دوسرا کوئی نہیں اور وہ راستہ ہے میڈیا کا۔ میڈیا کا ادارہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کی پہنچ آج ہر گھر تک ہے۔ اسی طرح میڈیا پرسن چاہے وہ اینکر ہو، رپورٹر ہو یا کالم نگار اسے سنتے اور پڑھتے ہوئے کبھی یہ نہیں دیکھا جاتا کہ موصوف کا مذہب و مسلک کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھا اور پرکھا جاتا ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے یا کیا لکھ رہا ہے۔ اسی لیے میڈیا سے جڑے ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ ان کی جو بھی ذمہ داری ہے وہ پوری دیانت و صداقت سے ادا کریں۔ اگر وہ رپورٹر ہے تو ان پر لازم ہے کہ وہ خبر فائل کرتے وقت اس میں ذاتی رائے زنی سے گریز یا اسی طرح اگر وہ تجزیہ نگار یا کالم نویس ہے تو اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تجزیہ کرتے وقت اس میں ڈنڈی نا مارے بلکہ مکمل ایمانداری کے اپنی رائے شامل کرکے تجزیہ پیش کرنا چاہیے۔
میڈیا سے جڑے افراد میں اس احساس کو مزید اجاگر کرنے کے لیے وائس میڈیا نیٹ ورک کی جانب سے کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک تین روزہ ورکشاپ بعنوانِ Promoting Peace Narratives Through Journalism کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں جہاں بڑی تعداد میں میڈیا سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ وہی VMN نے اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور تجربہ کار شخصیات کو مدعو کیا تھا جنہوں نے بڑی مہارت اور دلائل کے ساتھ خوشگوار ماحول میں ورکشاپ کے شرکاء کو وہ گر سکھائے کہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے ناصرف معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکتا ہے بلکہ اس کے آگے بڑھ کر مضبوط دلائل کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ڈائلاگ کی راہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔
وی ایم این نے شرکاءِ ورکشاپ کے استفادے کے لیے جن ماہرین علم و ادب کو مدعو کیا تھا ان میں پروفیسر سید مسعود عثمانی، معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر محسن نقوی، سینئیر کالم نگار و چئیرمین ماس کمیونیکیشن وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف احمد خان، سینئیرصحافی و سابق صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران، ڈاکٹر محمد اسامہ شفیق، صحافی نجم سہروردی اور دارالعلوم کراچی سے وابستہ معروف عالم دین مفتی محمد زبیر اشرف عثمانی شامل ہیں۔
اس پروگرام کی خاص بات پروگرام کے ذمہ داران محترم تحمید جان، محترم منیر احمد شاہ اور جناب وکیل الرحمان کا دوستانہ رویہ رہا اور ماحول کو خوشگوار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ امید ہے کہ اہل علم کے زیر تربیت گزرنے والے یہ تین دن ہم تمام شرکاء کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105652 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More