ہم سب سرفراز شاہ کے مجرم ہیں

”تمہاری دو ازواج کار کے ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئیں“
جج نے کمرہ عدالت میں موجود ملزم سے پوچھا
جی ”ہاں“ملزم نے جواب دیا
”دونوں مرتبہ ایکسیڈنٹ کی وجہ یہ بنی کہ کار کے بریک فیل ہو گئے تھے۔جبکہ تمہاری تیسری اہلیہ کی موت کا سبب زہر خورانی بنا؟کیا میں اس کی وجہ تسمیہ پوچھ سکتا ہو ں؟“
جج نے استفسار کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا
ملزم نے معصومیت سے جواب دیا
”عالی جناب !اس لیئے کہ میری تیسری بیوی ڈرائیونگ نہیں جانتی تھی“

27سالہ سرفراز شاہ کی موت کسی خود کش بمباردہشت گرد‘یا کسی انتہاپسندکی موت اس لیئے نہیں بن سکی کہ سرفراز شاہ ڈرائیونگ نہیں جانتا تھا۔یہ دل دہلا دینے والا اندوہناک منظر اگر کیمرے کی آنکھ محفوظ نہ کرتی یا جائے واردات پر موجود صحافی رینجر والوں کی مانند اپنے پیشہ وارانہ فرائض سے روگردانی اختیار کرتا تو آج سرفراز کی قبر پر کسی نامعلوم عسکریت پسند کا کتبہ لگاہوتا۔جس کی گواہی کراچی سے خیبر تک (بشمول بلوچستان )کئی بے گناہوں کی قبریں دے رہی ہیں۔باوردی قاتلوں پر انعام واکرام کی برسات جاری ہوتی۔عوام بے خبر ہوتی اور امراء کے آرام میں بھی خلل نہ پڑتا۔اور سرفراز شاہ کے ورثاءبھی اس خوف سے بیٹے کی میت تک پہنچنے سے گریزاں رہتے کہ مبادا ان کا تعلق بھی کسی عسکریت پسند گروہ سے جوڑ کر انہیں بھی پابند سلاسل نہ کردیا جائے۔اور سرفراز شاہ کا جسد خاکی خلق خدا کے بیچ گلتا ‘سڑتا اور پکارتا رہتا مگر کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔ایک سرفراز شاہ نہیں بلکہ ہزاروں سرفراز شاہ جن پر ہونے والے مظالم کیمرے کی پہنچ سے دور ہیں اور وہ جرم بے گناہی کی سزا پاتے ہیں۔لیکن بشکرے خدا اب میڈیا کا دور ہے ۔
بقول شاعر
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے

دراصل عوام کی اوقات اپنے ہی وطن میں خس و خاشاک سے بھی کم تر ہو گئی ہے۔جس بیہمانہ و سفاکانہ انداز میں سرفرازشاہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا‘کونسا بدن ہے جس پر لرزہ طاری نہیں ہوا‘کونسا دل ہے جو پگھلانہیں‘کونسی آنکھ ہے جواشکبار نہیں ہوئی‘ظلم انتہاﺅں کو چھوگیالیکن بااختیار لوگ بے حس ہی رہے۔ایک نہتا بشرکبھی ہاتھ باندھ کر تو کبھی رب و رسولﷺ کا واسطہ دے کر جان بخشی طلب کر رہا تھا۔لیکن اسے نہیں اسکے ساتھ پوری قوم کو دھتکارا گیا۔سفاک قاتلوں کی طرز پر جسم کے ایسے حصوں میں گولیاں اتاری گئیں کہ اس نے تڑپ تڑپ کر جان دی۔اتنا ظلم تو بے رحم قصاب جانور پر بھی روا نہیں رکھتا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محافظوں نے کیا(لیکن اس ضمن میں پوری پاک فوج کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں )۔کونسا قانون ہے جس نے انہیں ماروائے عدالت قتل کی اجازت دی ۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓنے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے تلوار کی زد میں آکر کلمہ پڑھ لیا تھا اور پکارتا رہا میں مسلمان ہو گیامیری جان بخشی کر دی جائے۔لیکن اس صحابی ؓ نے اسے قتل کر دیا۔جنگ سے واپسی پر معاملہ آپﷺ کی عدالت میں پیش ہوا۔آپﷺ نے اس سے باز پرس کی تو صحابیؓ نے جواباً کہا”اس نے تلوار کے خوف سے اسلام قبول کیا“ یہ جواب سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ”کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟“۔اور پھر رسول خداﷺ نے آسمان کی جانب رخ انور کر کے فرمایا ”اے اللہ میں اس شخص(صحابیؓ)کے عمل سے دستبردار ہوں۔لیکن آپ ﷺ نے اسے صحابی سے قصاص نہیں لیا۔مگر تنبیہ ہوگئی کہ پھر ایسانہیں کرنا۔لیکن ہم امت رسولﷺ کو بغیر کسی حجت کے کاٹ پھینکتے ہیں اور خود غازی کہلواتے ہیں۔ خدارا ہوش کیجئے۔

حضرت عمرؓکافرمان ہے(مفہوم)”اگر فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓاس کا جواب دہ ہوگا“۔تو پھر سرفراز شاہ اور اس جیسے ہزاروں واقعات کا کون ذمہ دار ہے؟یقیناً ہماری تمام حکمران و بااختیار جماعتیں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکناہوگاکہ جب قدرت ہمیں موقع و اختیار دیتی ہے تو کیا ہم اس کامنفی استعمال نہیں کرتے۔ تعلقات‘ تھانہ‘ کچہری‘ لسانی ‘ نسلی‘ علاقائی بنیادوں پر ووٹ دے کر کرپٹ و بے حس mpaاور mnaکو ایوان تک نہیں پہنچاتے؟یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عنان اقتدار سنبھالنے والے معصوم ہیں لیکن ان سے پہلے ہم میں سے ہر وہ شخص جس نے اپنے حلقے کے کرپٹ و بے ایمان شخص کو(خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو) بااختیار بنایا وہ مجرم ہے۔اگر چار سو نظر دوڑائی جائے تو سینکڑوں نہیں ہزاروں سرفراز شاہ ہیں جن کے ہم مجرم ہیں۔لہذا ہمیں اپنے اطوار بدلنا ہوں گے۔یاد رکھیئے عدالتیں نہیں معاشرے انصاف فراہم کرتے ہیں۔زندہ قوموں کی عدالتیں بھی بااختیارہوتی ہیں اور مردہ قوم کے عالی ظرف منصف بھی بے اختیار۔

ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کو چھو رہاہے۔اخوت ‘رواداری‘معاشرتی انصاف‘جذبہ حب الوطنی‘مساوات‘شرم وحیاءالغرض وہ سب کچھ جو کسی قوم کی حیات کیلئے ضروری ہوتاہے ہمارے اندر قریبا معدوم ہوچکاہے۔اور ہماری پیش قدمی قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کی مخالف سمت میں جاری ہے ۔اور جب ایسا ہوتا ہے تو قومیں اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں۔بقول واصف علی واصف”عذاب کا لمحہ وہ لمحہ ہے جب کرنیں سورج کو چاٹنے لگیں جب شاخیں درخت کو کھاجائیں ۔جب اعضاءاپنے وجود سے کٹ جائیں“۔اگر مندرجہ بالا قول ہمارے معاشرے پر پورا اترتا ہے تو پھر توبہ کا وقت ہے۔ذہن نشین رکھیئے توبہ آخری سانس سے پہلے تک قابل قبول ہے۔اس سے پہلے کہ ہماری مہلت ختم ہو اور ہمارا نام و نشاں مٹے ہمیں اور ہمارے تمام ارباب اختیار کو استغفار کرنا چاہیئے ۔کرپشن و ظلم کے خلاف تب ہی کوئی راہ ہموار ہوگی۔اور سرفراز شاہ اور سانحہ خروٹ آبادکے مظلوموں کی روحوں کو سکون پہنچے گا۔وگرنہ سب کچھ غارت۔الامان الحفیظ۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 175696 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.