میڈیا پر الزامات اور حکمرانوں کی راگنیاں

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص جس کا چہرہ خوف سے زرد ، ہونٹ پیلے اور رنگ فق تھا اور اس کے ہاتھ بید کی طرح کانپ رہے تھے وہ ایک گھر میں داخل ہوا گھر کے مالک نے اس سے پوچھا کہ بھئی تم اتنے خوف زدہ کیوں ہو تمہاری یہ حالت کیسے بنی ۔؟

اس نے کہا کہ باہر گلیوں میں ظالم بادشاہ کی بیگار کے لئے اس کے کارندے گدھے پکڑ رہے ہیں میں ان کی سرگرمی اور تیزی سے خائف ہوں مالک مکان نے کہا کہ وہ تو گدھے پکڑ رہے ہیں اور تم انسان ہو پھر تمہیں کیا خوف ہے تو اس شخص نے جواب دیا کہ بادشاہ کے کارندے پکڑ دھکڑ میں اس قدر سرگرم اور تیز ہیں کہ ان سے بعید نہیں ہے کہ وہ مجھے بھی پکڑ لیں ان کی نظر میں انسان اور گدھے کی تمیز اٹھ چکی ہے ۔۔۔

قارئین ! پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ گزشتہ چند سالوں میں مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس اضافے کی وجہ سے غریب لوگوں کے بجٹ پر جو فرق پڑا ہے وہ تو پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے اس کے ساتھ ساتھ اب مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس جو پہلے آسانی کے ساتھ اپنا کچن ، گاڑی اور دیگر ضروریات زندگی افورڈ کر سکتے تھے وہ بھی دہائیاں دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور امام رومی ؒکی اس حکایت کی طرح اب تمام لوگ ایک ہی چکی میں پس رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ آصف علی زرداری کے قریب دوست ڈاکٹر عاصم کو ملک کے توانائی کے بحران پر قابوپانے کےلئے جو خصوصی ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان کا کچھ کچھ نتیجہ تو ضرور نکلنا ہے اور اس کا نتیجہ پہلی قسط کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی بے پناہ اضافہ کے شکل میں سامنے آیا اب اس کے اثرات ضروریات زندگی کی تمام اشیاءپر کتنے پڑتے ہیں اور کیسے پڑتے ہیں یہ تو جلد ہی سب کے سامنے آجائیگا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ق کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد نئے وزراءاور نائب وزیراعظم کے اخراجات جو پاکستان کے عوام نے اٹھانے ہیں یقینا وہ اضافہ بھی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آئے گا۔

قارئین ! گزشتہ 63سالوں سے ظلم و ستم کا جو سلسلہ پاکستان میں جاری ہے یوں لگتا ہے کہ اس دور حکومت میں اس سلسلہ کو ایک شدت اور مہمیز ملی ہے اور عوام درست معنوں میں اس وقت نفسیاتی خلجان کا شکار ہو چکے ہیں اور گلیوں کوچوں ، دیہاتوں قصبوں اور شہروں میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ مرنے مارنے کے تیار ہو جاتے ہیں ، فضول اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنا شروع کر دیتے ہیں ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی نفسیاتی حالت کس حد تک بے ترتیب ہو چکی ہے مالی مشکلات کا بوجھ پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کی ذہنیت کو شکست خوردگی کی طرف لئے جا رہا ہے یہاں یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ قلمی جدوجہد کرنے والے میڈیا کے لوگ قیام پاکستان سے لیکر آج تک قلمی جہاد کر رہے ہیں ، آج ان لوگوں کو جو اپنے قلم اور تحریر کے ذریعے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور استحصال کرنے والے طبقات کو بے نقاب کرتے ہیں مختلف عنوانوں کے ساتھ مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے میڈیا کے ان مجاہدوں کو بلیک میلرز ، یلو جرنلسٹس ، کالی بھیڑیں اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جا رہا ہے حالانکہ یہ صحافت کے متعلقہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں تمام کرپٹ طبقات کی بدعنوانیوں کو جان پر کھیل کر بے نقاب کر رہے ہیں آج جرنلسٹ طبقہ پاکستان میں دنیا کے خطرناک ترین صحافتی ماحول میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں سینکڑوں صحافیوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، کئی صحافی شہید کیے گئے اور مستقبل میں بھی اس سلسلہ میں کسی قسم کی اصلاح اور بہتری کی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی تمام مقتدر قوتوں اور معاشرے کو بدعنوانیاں بے نقاب کرنے والے قلمی مجاہدوں کے متعلق سوچنا ہو گااور وہ تمام لوگ جن کی کرپشن کو منظر عام پر لایا جاتا ہے انہیں چاہیے کہ وہ خود اپنی اصلاح کریں نہ کہ میڈیا کے متعلق بے جا الزامات کی یک طرفہ بارش جاری رکھی جائے اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور عوام پر مہنگائی کے اثرات مرتب ہوں گے تو میڈیا ہر گز ہر جانب ”ہرا ہرا ہے “نہیں کہہ سکتا۔ بقول شاعر
آپ خود اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم جو کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

قارئین! یہ ہماری پیش گوئی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں رہنے والا چالیس فیصد کے قریب نوجوان طبقہ جلد ہی سڑکوں پر آئے گا اور تبدیلی اور انقلاب سامنے آئیں گے اگرچہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان اور برصغیر میں رہنے والے لوگوں کے جینز میں انقلاب اور ظلم کا مقابلہ کرنے والی خاصیت نہیں ہے تو انہیں ہمارا یہی جواب ہے کہ ”میوٹیشن“ بھی جینیٹک سائنس کا ایک باب ہے اور یہ میوٹیشن پاکستانی میڈیا لا رہا ہے میڈیا میں خامیاں ہو سکتی ہےں ، اصلاح کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن میڈیا کو کسی بھی صورت میں معاشرے سے ختم کر کے یا اپنی خواہشات کے مطابق کنٹرول کر کے کسی صورت میں اصلاح احوال کا سوچنا ایک دیوانے کا خواب ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک گلوکار ہر وقت اپنے ساتھ دو میڈل لئے گھوما کرتے تھے ایک میڈل چھوٹاتھا اور ایک بڑا ان کے ایک دوست نے خیال کیا کہ آپ کو چھوٹا میڈل کسی ہلکے پھلکے گانے کا مقابلہ جیتنے پر ملا ہو گا اور بڑا میڈل کوئی کلاسیکل مقابلہ جیتنے پر ملا ہو گا ۔ اس پر گلوکار نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے چھوٹا میڈل مجھے گلوکاری کے بہت بڑے مقابلے پر بہترین گانا گانے پر دیا گیا تھا دوست نے حیران ہو کر پوچھا اور بڑا میڈل ۔۔۔؟

گلوکار نے جواب دیا۔

”وہی گانا بند کرنے پر “

اس وقت حکمران جو راگنی الاپ رہے ہیں وہ 18کروڑ پاکستانی و کشمیری عوام کےلئے انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ بمہربانی اذیت ، تکلیف اور مہنگائی کا یہ راگ بند کیا جائے میڈیا اور عوام بڑا میڈل دینے کےلئے تیار ہیں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340281 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More