امن مشق 2021- : داستانِ ظفر

نوید مشتاق

جون سپائیک مین سے رابرٹ کپلن تک رِم لینڈ دنیا کی سیاست میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔ گلوبلائزیشن اور عالمی تجارت کے فروغ نے جوکہ زیادہ تر بحری سفر پر منحصر رہا ہے، خطہ بحرِ ہند کی سمندری ریاستوں کا اس پر انحصار مزید بڑھادیاہے جس کی وجہ ان کی توانائی کے شعبے میں اجارہ داری اور مصنوعات کی تیاری سے وابستہ معیشت ہے۔

مزید برآں انڈونیشیا، بھارت اور چائناجیسی ایشیائی طاقتوں کے سمندروں پر انحصارنے اس خطے کو بحری تجارتی ارتکاز کا مرکز بنا دیاہے۔ چائنا اور ایران پر دباؤ بڑھانے کی سیاسیات اور علاقائی طاقتوں کی مسابقت نے ریاستوں کی چپقلش کو زمین سے سمندروں پر منتقل ہونے کے خطرے کو دو چند کردیا ہے۔اگرعالمی معیشت کے تناظر میں دیکھا جائے تو چائنا کے میری ٹائم سلک روٹ ، چائنا کے افریقہ وژن 2064،بھارت کی افریقی پالیسی اور اس جیسے دیگر اقدامات نے ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کا انحصار مغربی بحر ہند کی توانائی کے ذرائع پر بڑھا دیا ہے۔ خطے کی اس اہمیت کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ، چائنااور اب روس کی اس خطے میں ملٹری بیسز موجود ہیں جن کا مقصد نہ صرف طاقت کا اظہار ہے بلکہ منشیات اور انسانی اسمگلنگ اور بحری قذاقی جیسے غیر روایتی خطروں کی روک تھام بھی ہے۔

جنوبی ایشیائی ریاستوں کے مشرق وسطیٰ کی توانائی پر بڑھتے ہوئے انحصار نے بحر ہند
کے پانیوں میں بحری ٹریفک میں اضافہ کیاجس سے خطے کے غیر ریاستی عناصر کو ان تنگ بحری گزر گاہوں میں استحصالی کاروائیوں کے مواقع ہاتھ آئے ہیں ۔ آپس میں منسلک عالمی تجارت اور بڑھتے ہوئے غیر روایئتی بحری خطرات کے باعث تمام ریاستی بحری قوتوں کا اشتراک وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر خطے کی مشترکہ سمندری حفاظت میں پاک بحریہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاک بحریہ عالمی بحری استحکام کے تمام اقدامات کا ایک اہم حصہ رہی ہے جن میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کمبائنڈ ٹاسک فورس 150اور151شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کو CTF-151کی کمان دوبارہ ملی ہے۔ قبل ازیں پاکستان 8مرتبہ اس فورس کی قیادت کرچکا ہے۔ مزید بر آں، چائنا کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بڑا شراکت دار ہونے ، اپنی بندرگاہوں اور انتہائی اہم جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاک بحریہ خطے کے پیچیدہ بحری ماحول میں ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔خطے کے بحری استحکام اور اپنے بحری مفادات کے تحفظ کے لئے پاک بحریہ نے مشترکہ عالمی بحری اقدامات کے ساتھ ساتھ ریجنل میری ٹائم سیکیورٹی پیٹرول کی صورت میں بحری استحکام کے لئے آزادانہ اقدامات بھی اٹھائے ہیں یہ تمام کاروائیاں پاک بحریہ کی آپریشنل تیاریوں کا مظہر ہیں۔

خطے کی پیچیدہ بحری صورتحال میں بڑھتی ہوئی اکائیوں اور مشترکہ اقدامات کے فقدان کے باعث پاک بحریہ نے ـ"امن"مشقوں کے انعقاد کا شاندار آغاز کیا جن کا مقصد خطے کا بحری استحکام، مشق میں شریک بحری بیڑوں کے ساتھ مشترکہ کاروائیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ، آپریشنل تیاری کا حصول اور پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی بحری سفارت کا فروغ تھا۔ پاکستان کے دشمنوں کی مختلف فورمز پر پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے کی تمام تر کوششوں کے پیشِ نظر آغاز میں یہ منصوبہ خاصا جان جوکھوں کا کام دکھائی دیتا تھا ۔ تاہم سال 2007میں اس مشق کے آغاز کے بعد سے جوکہ ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے، علاقائی اور غیر علاقائی بحری طاقتوں کی بڑھتی ہوئی شرکت سے مشق کے دائرہ کا رمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

"امن"مشقوں کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار سے پاکستان نے اپنے دشمنوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ بحری سطح پر پاکستان کوتنہا کرنے کی انکی کوششیں کبھی بار آور نہیں ہوسکتیں۔ امریکہ، چائنا، جاپان اور روس جیسی بحری طاقتوں سمیت 40سے زائدممالک کی شرکت سے چھٹی "امن"مشقیں یقینی طور پر کامیابی سے ہمکنار رہی ہیں۔ "امن"مشقوں کا مقصد امن ہی ہے نہ کہ کسی قسم کے جارحانہ عزائم کا فروغ ۔ "امن"مشقیں دوحصوں پر مشتمل ہیں ۔ہاربر فیز اور سمندری مشقیں ، ہاربر فیرز میں رسمی اور غیر رسمی دونوں سرگرمیاں شامل ہیں جن میں شرکاء کے تبادلہ خیال اور اپنے کلچر کے اظہار کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ مشق کا سمندری حصہ انٹرنیشنل فلیٹ ریویو اور فائرنگ جیسی سیلریلز کے انعقاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ مشق کے ہاربر فیز میں حالیہ اہمیت کے حامل موضوعات پر سیمینار ز، ورکشاپس اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔مشق کے سی فیز میں شرکا ء ممالک کے بحری بیڑے کثیرالجہتی خطرات کے تناظر میں اپنی آپریشنل اور ٹیکٹیکل سرگرمیوں کو بہتر بناتے ہیں ۔مشق کا سمندی حصہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشترکہ کاروائی کی صلاحیت میں بہتری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ حصہ مختلف بحری افواج کے متعدد پلیٹ فارمز کو مختلف مشترکہ سرگرمیوں کی مدد سے اکٹھے کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ خطرات بڑھ کر مختلف النوع ہو گئے ہیں۔لہذاریاستی بحری افواج کی دفاعی صلاحیت کو بھی کثیر الجہتی ہونا چاہیے۔ طاقت کی سیاست کے اس بدلتے ہوئے بحری ماحول میں بالعموم اور خطہ بحر ہند کے تناظر میں بالخصوص "امن"مشقیں یقینا راست اقدام کا درجہ رکھتی ہیں۔

اگر ہم ان مشقوں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ یہ ایک مشترکہ فورم ہے جس کا مقصد معلومات کا تبادلہ، باہمی تجربات سے سیکھنا، شرکاء کے مابین باہمی دلچسپی کے امور کی نشاندہی ،خطرات سے نمٹنے کے لئے صلاحیت کا فروغ اور مل کر روایتی اور غیر روایتی خطرات کا مقابلہ کرنے کی تربیت ہے۔اس طرح کی کثیر الملکی مشقیں نہ صرف ا قوام کے درمیان تفہیم اور استحکام پیداکرتی ہیں بلکہ شرکاء ممالک کے مابین سیاسی ، معاشی ، تجارتی اور تہذیبی تعلقات کے فروغ کا اہم ذریعہ بنتی ہیں۔پاک بحریہ کی کاوشوں کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ فروری میں ساتویں ا"امن"مشقوں سے قائم کئے گئے افواج کے اس تعلق کو سفارتی، معاشی اور علمی لحاظ سے ایک بڑی کامیابی میں ڈھالا جائے۔ لہذا یہ مشقیں نہ صرف بحر ہند کے اہم پانیوں میں غیر روایتی خطرات سے تدارک کے لئے ایک مشترکہ بحری تعاون کا باعث بنیں گی بلکہ پاکستان کو تنہا قرار دینے کے لئے دشمن کے مذموم پرو پیگنڈا کو زائل کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کو عالمی اشتراکی بحری کاوشوں کے مرکز کے طور پر پیش کریں گی۔
 

Lieutunent Muhammad Ali PN
About the Author: Lieutunent Muhammad Ali PN Read More Articles by Lieutunent Muhammad Ali PN: 4 Articles with 2332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.