اقبال کا پیغام جوانوں کے نام

اقبال کا طرز تدریس انسانیت کی بقا کا ضامن ہے

#علامہ_اقبال

آج کی نظم : خطاب بہ جوانانِ اسلام
Address To The Muslim Youth

نظم نمبر 115

بانگِ درا سے انتخاب

تعارف : بڑی دلکش، دلپذیر اور اثر آفرین نظم ہے. اقبال کے جذبات و احساساتِ ملی کی آئینہ دار ہے. مقصد یہ ہے کہ قوم کے نوجوانوں کے اندر اپنی حالت کا، اپنے آباء و اجداد کی حالت سے موازنہ کرنے کا خیال پیدا ہو. يہ مصرع "تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی" اس نظم کی جان ہے.

مجھے افسوس ہے کہ آج کل مسلمان قوم کے نوجوانوں کو کالجوں میں مخلوط تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ موازنہ کا ناخوشگوار فریضہ سر انجام دے سکیں. انسان ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے، اور موازنہ سے مشاہدہ بہرکیف زیادہ دلچسپ اور دلپذیر ہے.

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

Kabhi Ae Naujawan Muslim, Tadabbur Bhi Kiya Tu Ne
Woh Kya Gardoon Tha Tu Jis Ka Hai Ek Toota Huwa Tara

Have ever you pondered, O Muslim youth, On deep and serious things?
What is this world in which this you is only a broken star?

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

Tujhe Iss Qoum Ne Pala Hai Aghosh-e-Muhabbat Mein
Kuchal Dala Tha Jis Ne Paon Mein Taj-e-Sar-e-Dara

You came of a stock that nourishes you In the close embracing of love,
A stock that trampled under foot Dara who wore the crown.

تمدن آفریں خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

Tamaddun Afreen, Khallaq-e-Aaeen-e-Jahandari
Woh Sehra-e-Arab Yani Shutar-Banon Ka Gehwara

Civilization’s grace they forged to a world‐disposing law,
Those folks that came from the Arab sands that cradled their camel‐men.

سماں 'الفقر فخری' کا رہا شانِ امارت میں
''بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبارا''

Sama ‘Al-Faqru Fakhri’ Ka Raha Shan-e-Amarat Mein
‘Baab-o-Rang-o-Khal-o-Khat Che Hajat Rooye Zaibara’

The simple life was the pride they had in their deeds of glorious show.
How does the lovely face feel need of rouge and mole and art?

گدائی میں بھی وہ اللّٰه والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

Gadai Mein Bhi Woh Allah Wale The Ghayoor Itne
Ke Mun’em Ko Gada Ke Dar Se Bakhshish Ka Na Tha Yara

In pure plain life and in fear of God they lived their modest way.
The rich man stood in no fear of the poor that he gives his wealth in fee.

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا

Gharz Main Kya Kahun Tujh Se Ke Woh Sehra Nasheen Kya The
Jahangeer-o-Jahan Dar-o-Jahan Baan-o-Jahan Aara

In short, in words can I tell to you what were these desert men?
Holders, Keepers, Saviours, Adorners of what we call the world.

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

Agar Chahon To Naqsha Khainch Kar Alfaz Mein Rakh Dun
Magar Tere Takhiyyul Se Fazoon Tar Hai Woh Nazara

If I should draw the sketch aright limning the form in words,
The vision I’d draw would be better far than all your fancy paints.

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا

Tujhe Aaba Se Apne Koi Nisbat Ho Nahin Sakti
Ke Tu Guftar Woh Kirdar, Tu Sabit Woh Sayyara

There is no standard by which to judge Yours and your father’s worth.
You utter words but they did deeds. They roamed: you stay at home.

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

Ganwa Di Hum Ne Jo Aslaf Se Meeras Payi Thi
Surreya Se Zameen Par Asman Ne Hum Ko De Mara

We have despoiled the inheritance that we from our fathers won.
The heaven from the zenith has dashed it down

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا

Hukumat Ka To Kya Rona Ke Woh Ek Aarzi Shay Thi
Nahin Dunya Ke Aaeen-e-Musallam Se Koi Chara

And cast it on the ground. what is this weeping at ordered things
That it is the affair of a day? Except the help of all‐certain law

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

Magar Woh Ilm Ke Moti, Kitabain Apne Aaba Ki
Jo Dekhain In Ko Yourap Mein Tou Dil Hota Hai Seepara

The world has no other plan. but if those pearls of learning’s lore,
Those books our fathers wrote we see in Europe made scholar’s joy, The heart is rent with grief.

غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را

"Ghani Rouz-e-Siyah-e-Peer-e-Kanaan Ra Tamasha Kun
Ke Noor-e-Didah Ash Roshan Kunan Chashm-e-Zulekhara”

O Ghani*, behold the darkened day Kinan’s old man once knew,
That the light of his eyes to Zuleikha’s eyes might bring the brightness of sight.

* Ghani Kahsmiri was a poet

تدبر : کسی امر میں غور و خوض کرنا، کس بات کے سمجھنے پر اپنی تمام ذہنی قوتوں کو مبذول کرنا
گردوں : آسمان، یہاں قوم مراد ہے
ٹوٹا ہوا تارا : اس سے وہ افراد مراد ہیں جو قوم سے جدا ہو گیا ہو.
دارا : قدیم ایران کا مشہور بادشاہ جسے سکندر نے 328 قبل مسیح میں شکست دی تھی.
تاجِ سرِ دارا : فارس جسے مسلمانوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کیا تھا.
تمدن آفرین : عربوں نے دنیا کو ایک اعلیٰ درجے کے تمدن سے روشناس کرایا.
آئین جہانداری : حکمرانی کے قوانین
سماں : نقشہ یا منظر
الفقر فخری : یہ حضور اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کا ارشاد ہے کہ شانِ فقر میرے لیے باعثِ فخر ہے. یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی تمام تصانيف میں مسلمانوں کو اپنے اندر شانِ فقر پیدا کرنے کی تلقین کی ہے.

بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبارا : یہ حافظ شیرازی کی مشہور غزل کا مصرع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت قدرتی طور پر خوبصورت ہو اسے میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی.

شعر کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک حسین عورت ظاہری بناؤ سنگھار سے بے نیاز ہوتی ہے، اسی طرح ہمارے خلفاء ظاہری شان و شوکت سے بے نیاز تھے. اشاره ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف جن سے بڑا حاکم، مدبر و منتظم سیاست دان اور جامع حیثیات انسان ابھی تک دنیائے اسلام میں پیدا نہیں ہوا، قيصر و کسریٰ تک اُن کے نام سے کانپتے تھے. لیکن ان خوبیوں کے باوجود ان کی سادگی اور درویشی کا یہ عالم تھا کہ ان کے کُرتے میں پیوند لگے ہوتے تھے اور زمین پر سوتے تھے.

غیور : غیرت مند، غیرت بھی مروت کی طرح وسیع المعانی لفظ ہے. مراد ہے انسان کا ہر بری اور ذلیل حرکت سے اجتناب کرنا. یعنی ہمارے اسلاف مفلسی کی حالت میں بھی کوئی بات شرافت کے اصول کے خلاف نہیں کرتے تھے.

منعم : دولت مند
گدا کے ڈر سے : مسلمان اس قدر غیرت مند تھے کہ مفلسی میں بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے.
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا : بہت عمدہ مصرع ہے. لفظی معنی ہیں جہاں کو فتح کرنے والے اس پر حکومت کرنے والے اس کی نگہبانی کرنے والے اور اسے آراستہ کرنے والے. تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تمام کام بخوبی انجام دئیے.
تخیل : تصور یا خیال. یعنی تو مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا تصور بھی نہیں کر سکتا. واضح ہو کہ اقبال نے یہ بات بالکل سچ لکھی ہے. آج کل کے غلام مسلمان اپنے بزرگوں کی شان و شوکت کا تصور بھی نہیں کر سکتے.
تو گفتار وہ کردار : تو محض باتیں بنا سکتا ہے اور تیرے اسلاف تلوار کے جوہر دکھاتے تھے.
تو ثابت : آج کل کے مسلمان جو عمل اور حرکت سے عاری ہیں.
وہ سياره : تیرے اسلاف ہر وقت مصروفِ جہاد رہتے تھے.
عارضی شے تھی : حکومت کسی قوم میں ہمیشہ نہیں رہا کرتی.
سیپارہ : اس کے دو معنی ہیں. عرف عام میں قرآن مجید کے کسی جزء کو کہتے ہیں. لغوی معنی ہے ٹکڑے. اس شعر میں دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب ہم اپنے اسلاف کی کتابیں یورپ کے کتب خانوں میں دیکھتے ہیں تو دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں (یعنی کہ بہت رنج ہوتا ہے)
غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
ترجمہ : اے غنی! حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی بدقسمتی تو دیکھو کہ خود تو بیٹے کی جدائی میں رو رو کے اندھے ہو گئے لیکن ان کی آنکھوں کے نور (بیٹے) نے زلیخا کی آنکھوں کو روشن کر دیا. اس شعر میں نور دیده کی ترکیب بہت بلیغ ہے. مطلب یہ ہے کہ حقدار یا مستحق تو محروم رہا، اور اغیار یا غیر مستحق لوگ فیض یاب ہو گئے.

(غنی کاشمیری کا نام مُلا محمد طاہر تھا. کلیم اور صائب کا دوست اور ہم عصر تھا. فارسی شاعری میں ایک خاص طرز کا موجد تھا. تصنع، پیچیدگیاں، دشواری اور مشکل پسندی یہ اس کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں. صائب کی طرح یہ بھی مثال نگاری میں بہت بلند درجہ رکھتا ہے. چالیس سال کی عمر میں 1661ء میں وفات پائی. غنی کی سیرت کا بہترین پہلو یہ ہے کہ اس نے ساری عمر کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا.)

شرح اول : اے نوجوان کبھی تو نے اس بات پر بھی غور کیا کہ تو جس قوم کا فرد ہے، وہ کسی زمانہ میں کس قدر عظیم الشان تھی؟ سن! تو اس قوم کا فرد ہے (نام لیوا ہے) جس نے قيصرِ روم کا تخت الٹ دیا اور پرویز خسرو (کسریٰ) کے تاج کو پامال کر دیا تھا. تیرے اسلاف اگرچہ عرب کے صحرا سے نکلے تھے لیکن انہوں نے دنیا میں نئے تمدن کی بنیاد رکھ دی اور علوم و فنون کے دریا بہا دئیے اور حکمرانی کا نیا طریقہ دنیا کو سکھایا یعنی ان کی حکمرانی میں بھی درویشی (فقر) کا رنگ چھلکتا تھا. اور وہ اس قدر غیرت مند تھے کہ مفلسی میں بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے. سچ تو یہ ہے کہ تجھے اپنے بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں ہے. وہ میدانِ جنگ میں اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے تھے، تو ہوٹلوں میں بیٹھ کر سگریٹ کے دھوئیں میں چائے پیتا ہے. حکومت تو خیر ایک عارضی چیز ہے اس کے جانے کا تو مجھے اتنا غم نہیں ہے جتنا رنج اس بات سے ہوتا ہے کہ آج ہمارا سارا علمی سرمایہ اغیار کے قبضے میں ہے.
آخری فارسی کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حقدار یا مستحق تو محروم رہا، اور اغیار یا غیر مستحق لوگ فیض یاب ہو گئے.

شرح دوم :
1-3. یہ نظم علامہ اقبال نے بطور خاص مسلمان نوجوانوں کے لئے لکھی اور غالباً یہ کسی ایسے اجتماع میں ہی پڑھی گئی جس کا تعلق نوجوانوں سے تھا. چنانچہ وہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ اے نوجوان مسلم کبھی تو نے اتنا بھی سوچا ہے کہ تیرا ماضی کس قدر شاندار تھا وہ ماضی جو ایک آسمان کی مانند تھا جس کا تو ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ہے. تجھے اس قوم نے اپنی آغوش محبت میں پالا ہے جس نے ایران کے مشہور ساسانی بادشاہ دارا کے تاج و تخت کو روند ڈالا تھا. کیا تجھے علم ہے کہ تو کتنی عظمتوں والی قوم سے تعلق رکھتا ہے. اگر تجھے اس کا علم نہیں تو میں بتائے دیتا ہوں یعنی یہ وہ قوم تھی جو صحرائے عرب میں اونٹنی چرانے والوں کے گہوارے میں پلی. اس کے باوجود اس قوم نے دنیا بھر کے لوگوں کو تہذیب و تمدن اور رہنے سہنے کا ڈھنگ سکھایا. اس کے علاوہ حکمرانی کے قاعدے بھی بتائے.

4-6. اتنی کروفر اور شان و شوکت کے باوجود اس قوم کے لوگوں نے دولت مندی اور حکمرانی کے دور میں بھی درویشی اور فقیری کو اپنا طرہ امتیاز بنائے رکھا. اس لیے کہ ان کے نزدیک دلکش اور خوبصورت چہرے کی زیبائش کے لیے ظاہری ساز و سامان ضروری نہ تھا. وہ اللہ کے خاص بندے درویش اور فقیری کے عالم میں بھی اس قدر غیرت مند تھے کہ امراء کو اس امر کی اجازت نہ ہوتی تھی کہ وہ ان فقراء کو کچھ خیرات کے نام پر کسی قسم کا عطیہ دے سکیں. غرض تجھے میں کیا بتاؤں کہ وہ صحرا میں رہنے والے لوگ فی الواقع دنیا کے فاتح اور حکمرانوں کے علاوہ ساری دنیا کے محافظ اور اس کو سجانے والے تھے.

7-8. اگر میں چاہوں تو الفاظ میں ان کا نقشہ کھینچ کر رکھ دوں. اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کا سراپا بیان کروں. تاہم مشکل تو یہ ہے کہ تو اس عہد کا تصور کرنے سے قاصر ہے. امر واقعہ یہ ہے کہ اگر تیرا اور تیرے اسلاف کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے اس لیے کہ تو محض باتیں بناتا اور بے عمل ہے جبکہ وہ صاحب کردار، فعال اور متحرک تھے. تو جامد و ساکت اور دوسروں کی نقالی کرنے والوں میں سے ہے جبکہ تیرے اجداد عملاً اجتہاد فکر کے عادی لوگ تھے اور اپنی بات پر ہمیشہ ڈٹے رہنے والے تھے.

9-12. دیکھا جائے تو ہم نے اس ورثے کو گنوا دیا جو اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا تھا. یہی وجہ ہے کہ ہم انتہائی عروج پانے کے باوجود اب پستی کے آخری مرحلے میں ہیں. حکومت اور سلطنت کا تو کوئی غم نہیں کہ وہ ایک عارضی اور آنے جانے والی چیز ہے آج ایک کے پاس ہے اور کل دوسرے کے پاس، ہمیشہ سے یہی روایت چلی آ رہی ہے مگر اپنے اسلاف کی چھوڑی ہوئی وہ نادر اور بیش بہا کتابیں جو اب اہل یورپ کے قبضے میں ہیں اور ان سے وہ استفادہ کر رہے ہیں وہاں ان کو دیکھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے. آخری شعر غنی کاشمیری کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پیارے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو تھے مگر زلیخا کو مل گئے اور حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے محروم ہو گئے.

شرح اول : پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب

شرح دوم : جناب اسرار زیدی صاحب

تحقیق و تحریر : قيصر نديم و علی نجف عباسی
 

NAJAF ALI
About the Author: NAJAF ALI Read More Articles by NAJAF ALI: 22 Articles with 23487 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.