تم سیاست کرو، مرنے کو زمانہ ہے ابھی

وطنِ عزیز شائد اب ہمہ جہت زوال کی طرف گامزن ہے ۔ معاشی ،معاشرتی۔سیاسی ، مذہبی اور اخلاقی الغرض ہر سطح پر زوال اپنے نقطہ کمال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ملک ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اہلِ سیاست کے سامنے کوئی تعمیری اور فکری لائحہ عمل نہیں ۔ ہر طرف سیاسی کھیل جاری ہے۔ جمہوری ملوکیت کو دوام دینے کی مساعی جلیلہ و ذلیلہ نقطہ عروج کی طرف گامزن ہیں ۔ معاشرے میں ظلم و طغیان کا دور دورہ ہے ۔سفاکیت ، تخریب کاری اور دہشت گردی کا بازار گرم ہے ۔انساینت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے اور اشرف المخلوقات جہالت،غربت، مظلومیت اور بے توقریت کے اندھیروں میں قدم قدم پر لڑکھڑا رہا ہے ۔اور ان تمام باتوں سے بے نیاز اہلِ سیاست و حکومت اپنی نشاطِ موج میں گم ، عیاشیوں میں غرق،سیاسی شطرنج پر جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ملک میں حکومت نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ! تو پھر یہ حکمران کیوں ہیں ؟امن و امان خواب کے جزیروں سے عذاب کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے۔ریاست اپنی معنویت کھو چکی اور اہلِ نظر دعاﺅں میں مصروف کہ شائد عذاب اترتا دیکھ رہے ہیں ۔

ابھی سانحہ خروٹ آباد ذہن پر منقش تھا ۔ دل سوگوار اور فضا پر ملال تھی۔ٹی وی سکرین پہ آنکھیں جمتی نہ تھیں بھوک اور پیاس کا جیسے احساس نہ رہا تھا کہ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کا سفاکانہ قتل روح کو تڑپا گیا ۔اک نہتے نوجوان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اسطرح سے قتل کرنا ان کے نظامِ تربیت ۔رینجرز کی کراچی میں موجودگی کے مقاصد سمیت بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔جب وہ زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا تو اسے گولیوں کا نشانہ کیوں بنایا گیا ؟جب وہ سرنڈر کر رہا تھا تو اسے پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا؟اس کی بات کیوں نہیں سنی گئی؟اور اسے وقت پر ہسپتال کیوں نہیں پہنچایا گیا ؟۔بلا شبہ یہ چند رینجرز اہلکاروں کا فعل ہے مگر اسے ذاتی ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آن ڈیوٹی تھے اور ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔اس ادارے میں اہل کاروں کے طریقہ انتخاب ، ان کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی تربیت اور قانونی دائرہ کار پر سوالات تو اٹھیں گے۔اہلِ وطن کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا ؟چہ معنی دارد!۔ایک لمحے کے لیے مان لیں کہ اس بچے نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس نے تو ایک خاندان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ لوگ جو اس ملک کے خزانے پر ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے بلکہ ڈاکے پہ ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ ان میں سے کتنوں کو رینجرز نے ابتک پکڑا ہے ؟ کتنوں کو اس طرح گولیوں کا نشانہ بنایا ہے؟ان لوگوں کے سامنے ان کی بندوقیں شل کیوں ہے؟اور یہ بھی بتایا جائے کہ کسی ایک فرد کو لوٹنا بڑا جرم ہے یا پوری قوم کے خزانے پر ڈاکہ ڈالنا بڑا جرم ہے؟

نام نہاد سیاسی رہنما اس واقعہ پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں ۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ گولیاں چلانے والے رینجرز اہلکاروں کو کراچی میں بلانے والا کون ہے؟یہ سیاسی مداری مارشل لا کو برا کہتے ہیں اور سول انتظامیہ کے ذریعے امن و امان کا مسئلہ حل کر نہیں سکتے!یہ دوغلی سے بھی اگلی بات ہے جو ان کی نااہلیت کا بھانڈا پھوڑ کر ان اصل اہلیت عوام پر آشکار کرتی ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کا مستقل سدِ باب ہونا چاہئے تاکہ مزید ماﺅں کی گودیں نہ اجڑ سکیں ۔ورنہ زمانہ چال قیامت کی چل جائیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۷۹۱ کے بعد ملک میں قانون بننا چاہیئے تھا کہ فوج اور اس کے ذیلے ادارے عوام ِ پاکستان پر کسی صورت بھی گولی نہیں چلائیں گے۔وہ صرف اور صرف ملکی سرحدوں کے دفاع اور اپنی آپریشنل صلاحیتوں کو بہتر کرنے پر توجہ دیں گے۔امن و امان کی ذمہ داری پولیس کا کام ہے ۔ فوج براہِ راست اس میں ملوث نہیں ہو گی تاہم اگر ضرورت پڑے تو وہ پولیس کو ٹریننگ دے سکتی ہے۔

پولیس کے نظام کو بھی ری وزٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ بلکل کولیپس کر چکا۔ہماری پولیس خود کو فاتح اور عوام کو مفتوح سمجھتی ہے۔ یہ خود سنگین جرائم میں ملوث ہے یا اس کی سرپرست۔پولیس گردی عام ہے ۔یہاں تک کہ جنسی تشدد میں ملوث ہے۔عام شخص ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکتا ۔سیاسی اثر اس میں اتنا نفوذ کر گیا ہے کہ پولیس کا سارا نظام سیاسی ہو گیا ہے۔اور یہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔حکومت اگر امن و امان کے مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے اسے سیاسی اثر سے آزاد کیا جائے۔ اس میں صرف اہل لوگوں کو بھرتی کیا جائے جس کا معیار competency , اورefficiency, honesty, ہو۔ موجودہ پولیس اہلکاروں کو بھی اسی معیا پر پرکھاجائے ۔ ٹرینڈ کیا جائے اور پھر نا اہل لوگوں کو محکمانہ کاروائی کے ذریعے فارغ کیا جائے۔فاتح پولیس کے تصور کو ختم کرکے عوامی اور فرینڈلی پولیس کے نظام کو متعارف کروایا جائے ۔ایف آئی آر کے اندراج کے نظام کو سادہ کیا جائے اور جو پولیس افسر اس کے اندراج میں رکاوٹ ڈالے اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔اور میڈیا کے ذریعہ اس کی تشہیر کی جائے۔

اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ جب امن و امان اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کا کام ہے تو وزیرِ اعظم اور متعلقہ ادارے تھوک کے حساب سے اسلحہ کے لائسنس کیوں جاری کر رہے ہیں ؟اور عوام کے پاس اتنا اسلحہ کیوں ہے؟جو ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کا سبب بن رہا ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزم کرنے والی حکومت کا یوں اسلحہ کلچر کو فروغ دینے کا آخر مطلب کیا ہے؟پھر یہ جائز اور ناجائز اسلحے کا کیا مطلب ہے؟کیا جائز اسلحے سے پھول جھڑتے ہیں ؟اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا

حکومت اگر ملک میں امن و امان قائم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہئیے کہ فی الفور ملک میں موجود تمام اسلحہ لائسنس کو کینسل کرے اور عوام سے وہ اسلحہ خرید کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرے۔ ملک میں برداشت اور باہمی بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے کے لیئے بھر پور کوششیں کی جائیں۔اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور میڈیا کا موثر استعمال کیا جائے۔بم بنانے کا سامان عام مارکیٹوں میں تھوک کے حساب سے کیوں دستیاب ہے؟اس کی خریدو فروخت پر چیک کیوں نہیں ؟وزارتِ داخلہ اور لوکل پولیس کیا کر رہی ہے؟ ملک سے پروٹوکول کلچر کو ختم کیا جائے۔ پولیس کو پروٹوکول ڈیوٹیوں سے ہٹا کر عوام کے تحفظ پر مامور کیا جائے۔ یا پھر عوام کو بھی اسی تناسب سے پروٹوکول اور تحفظ کے لیئے پولیس اہلکار فراہم کیے جائیں ۔جنہیں سیاست کا شوق ہے وہ اپنی ذاتی حفاظت کا انتظام خود کریں اور اگر نہیں کر سکتے ملک پہ رحم کریں کوئی اور کام کرلیں ۔ملک کو اس طرح کے ڈرپوک اور رنگیلے حکمرانوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔جن کے اثاثے اور مفاد ملک میں موجود ہی نہیں ۔

عدلیہ کو چاہیئے کہ دہشت گردی کا مقدمات کا فیصلہ کرنے کا ٹا ئم فریم طے کرے او ر اگر اس طرح کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کئی اہلکار ملوث ہو تو اس کے لیے سپیڈی کورٹس بنائی جائیں اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں ۔پارلیمنٹ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ کھیل تماشوں اور منفی سیاست کے باب کو بند کیا جائے ۔ بہت ہو چکا۔

عوام بھی اپنا کردار ادا کرے اہل اور دیانتدار اور ایسے رہنماﺅں کا انتخاب کرے جوصرف اور صرف پاکستانی ہوں جن کا جینا مرنا۔ مال اور اولاد اس وطن میں ان کے ساتھ ہو۔اور اگر اب بھی عوام نے ایسا نہ کیا تو پھر اسے اپنی تباہی پہ آنسو بھی نہیں بہانے چاہئیے۔اور وطن کے لئیے قربانیاں دینے والے پوچھ رہے ہیں ۔
اب بھی اوجھل ہے آنکھوں سے نشانِ منزل
زندگی تو ہی بتا کتنا سفر باقی ہے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 28258 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More