محافظ یا درندے؟

محمد یزید احمد، اسلام آباد

جب مولانا محمد اعظم طارق شہید رحمة اللہ علیہ پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو اس وقت وزارت درندگی یعنی وزارت داخلہ کا کرتا دھرتا نصیر اللہ بابر تھا۔ اس دور میں 14 اگست کے دن سپاہ صحابہ کراچی کے بے لوث کارکنوں نے جشن آزادی پر ریلی نکالی۔ جس پر اس پر امن اور اسلام و پاکستان کی محبت و مودت سے بھرپور ریلی کے شرکاءپر سرحدوں کے رکھوالوں نے اندھا دھند گولیاں چلائیں حتیٰ کہ فوج کے یہ نامور سپوت مسجد صدیق اکبر میں اپنے ناپاک بوٹوں سمیت گھس گئے اور مسجد کے اند ر بھی ایسے فائرنگ کی جیسے دہلی یا تہران فتح کر رہے ہوں۔ قومی اسمبلی کی کاروائی کے دوران مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اپنی ولولہ انگیز اور جرات مندانہ گفتگو میں فوج کی بربریت کو برہنہ کر دیا۔ اس موقع پر مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ نے شہداءکے مقدس خون سے سرخ آلود کپڑے ایوان میں لہرا کر دکھائے۔مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ کی یہ تاریخ ساز گفتگو آج بھی on the record موجود ہے۔

جولائی 2007ءمیں جب دلیر سپوتوں نے وفاقی دارلحکومت کی لال مسجد فتح کی اور پھر اپنے ناپاک بوٹوں سمیت مسجد کا تقدس پامال کرتے ہوئے فاتحانہ مکروہ انداز میں مسجد کے اندر ایسے پوزیشینیں سنبھالیں جیسے وائٹ ہاﺅس فتح کر لیا ہو۔ یہ منظر پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا۔

پھر کچھ عرصہ پہلے انٹر نیٹ کے ذریعہ سوات کی کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں سرحدوں کے رکھوالوں نے کچھ لوگوں سے انتہائی وحشیانہ و پرتشدد اور بہیمانہ اور جابرانہ رویہ اپنایا جب کہ ان لوگوں کی عمریں ان رکھوالوں کے باپ دادوں کی عمر وں کے برابر تھیں۔ یہ ویڈیوز انٹرنیٹ سے remove کر دی گئیں۔

ڈیرہ غازی خان میں حافظ محمد عبداللہ شہیدؒ جن کا تعلق سپا ہ صحابہ سے تھا، کا ایک شیعہ سے اس بنیاد پر جھگڑا ہوا کہ اس نے صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخانہ الفاظ بکے تھے۔ حافظ محمد عبداللہ نے اس شیعہ کے ناپاک وجود سے دنیا کو پاک کر کے محب اسلام اور غیرت مند مومن ہونے کا ثبوت دیا اور ساتھ ہی مخلض و پرامن پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو مقامی تھانہ کی پولیس کے حوالے کر دیا۔ مگر ان قانون کے رکھوالوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 50 سالہ حافظ محمد عبداللہ شہیدؒ کو بپھرے ہوئے شیعہ ہجوم کے حوالے کر دیا جن درندوں سے بھی بد تر لوگوں نے حافظ صاحب کو شہید کیا ان کے جسد اطہر کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھ کی سڑک پر گھسیٹا اور بالآخر آگ لگا دی۔ یہ تمام منظر پاکستان کے تقریباً تمام نیوز چینلز نے دکھائے۔ مگر انتہائی محنت کے بعد جاں نثاران صحابہ کی کوششوں سے یہ ویڈیو میڈیا پر چلائی گئی حالاں کہ میڈیا کے علم میں تھا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے مگر میڈیا اس ویڈیو کو نشر کرنے سے خائف اس لیے تھا کہ کہیں PEMRA یا حکومت کوئی مسئلہ نہ کھڑا کر دے کہ ”فرقہ وارانہ“ مناظر کیوں دکھائے گئے؟ یہ ویڈیو بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے۔

گزشتہ سال ماہ آزادی یعنی اگست میں سیالکوٹ کے دو نو عمر بھائیوں کو قانون کے رکھوالے شیروں یعنی پنجاب پولیس کی موجودگی میں بے ضمیر و بے حس اور بے غیرت و پتھر دل ہجوم کی موجودگی میں جانوروں اور درندوں سے بھی بد تر افراد نے باری باری ڈنڈے مار مار کر شہید کردیا اور پھر ان کے معصوم لاشے کھمبوں سے لٹکا کر میتوں کی بے حرمتی بھی کی۔ یہ وحشت ناک منظر بھی پوری دنیا نے کئی دفعہ ٹی وی پر دیکھا۔

چند دن قبل خروٹ آباد میں پولیس کے جوانوں اور رینجر کے شیطان صفت افراد نے ایک مشترکہ آپریشن کیا جس میں چند ”خود کش حملہ آور“ جن کا تعلق چیچنیا سے تھا اور ان میں عورتیں بھی شامل تھیں، کو سر عام گلیوں میں بھاگتے اور زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے بے رحم جنگلیوں سے بھی دو قدم آگے کی پولیس اور رینجر نے جان سے مار دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ پولیس نے اپنی روایتی انداز میں ان چیچن مسلمانوں کو ”تگڑی پارٹی“سمجھتے ہوئے کئی ناکوں پر روک کر ان سے پیسے بٹورے اور جب یہ چیچن مسلمان آپے سے باہر ہوئے تو پولیس اور رینجر نے اپنے اس تاریخی آپریشن میں ان کو خودکش حملہ آور قرار دیتے ہوئے شہید کر دیا۔ خیا ل رہے کہ ان شہید مسلمانوں میں ایک خاتون 7 ماہ کی حاملہ بھی تھی۔ بربریت کا یہ منظر بھی ٹی وی پر دکھایا گیا۔

کچھ عرصہ قبل سوات میں سرحدی رکھوالوں نے چند لوگوں کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر انہیں قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مار کر بے دردی اور درندگی سے شہید کر دیا۔ یہ ہولناک منظر بھی میڈیا پر نشر ہوا۔

اور چند ہی دن قبل کراچی میں رینجر کے بد مست اور متکبر افراد نے ایک نو عمر لڑکے کو منتیں کرنے کے باوجود سر عام گولیاں مار کر اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔ اس کے پاس نہ تو کوئی اسلحہ تھا اور نہ ہی اس کے سینے پر کوئی خود کش حملہ کی جیکٹ وغیرہ تھی۔ یہ منظر بھی دنیا نے ٹی وی پر دیکھا۔

ان تمام دل خراش واقعات کے علاوہ بھی جانے کتنے ایسے پر تشدد واقعات ہوں گے جو منظر عام پر نہیں ہیں۔ کیا آج تک ایسے بہیمانہ واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی قرار واقعی action لیا گیا؟ ایسے کتنے درندوں کو سزا دی گئی؟ کتنے ایسے واقعات پر میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لے کر تفصیلات سے آگا ہ کیا گیا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی جب جی چاہتا ہے suo moto action لیتے ہیں۔ بعض اوقات پانی سر سے کہیں اوپر نکل جاتا ہے مگر پھر بھی کوئی ادارہ کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کرتا۔ بس ایک آنکھ مچولی سی جاری ہے۔ کبھی کبھی اس میں thrill اور suspense اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وفاقی حکومت کے خلاف کچھ مسائل سپریم کورٹ میں زیر بحث ہوتے ہیں اور اس وجہ سے عوام کو اک امید سے ہو جاتی ہے کہ اب ان ظالموں سے جان چھوٹ جائے گی مگر وہ ڈھاک کے تین پات۔

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ اپنی کتاب Law Courts In A Glass House میں تحریر کرتے ہیں کہ جب انہوں نے شیعہ مسلم تنازعہ پر suo moto action کے تحت کارروائی شروع کی اور طرفین کے لیڈروں کو بلا کر ان کا موقف سنا تو ان کو دھمکی آمیز فون موصول ہونا شروع ہو گئے کہ حکومت (اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے)نہیں چاہتی کہ آپ اس کیس کی سماعت جاری رکھیں۔ یہاں اس کتاب کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ آج تک کوئی ایسا حساس معاملہ منظر عام پر نہیں لایا جا سکا جس کا منظر عام پر آنا دین و ملک کے تحفظ اور سر بلندی کے لیے ضروری ہے۔ لیاقت علی خان شہیدؒ کی شہادت، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، جسٹس منیر انکوائری رپورٹ، جنرل ضیاءطیارہ کیس، لال مسجد کیس، مولانا حق نواز جھنگوی، علامہ ایثار القاسمی، مولانا ضیاءالرحمن فاروقی، مولانا محمد اعظم طارق ، ا علامہ علی شیر حیدری، علامہ عبدالغفور ندیم، مولانا ہارون قاسمی ایڈووکیٹ، حافظ احمد بخش ایڈووکیٹ، حافظ عبدالرشید غازی، غازی حق نواز شہید، جنرل فضل حق کیس، کارگل، 1985ءمیں کوئٹہ میں ایرانی پاسداران انقلاب کی غنڈہ گردی کا کیس،شہباز شریف کے سابقہ دور حکومت میں پنجاب پولیس کو فری ہینڈ اور نتیجةً کئی بے گناہ اہل سنت نوجوانوں کی جعلی پولیس مقابلوں میں شہادت کے کیس، گزشتہ سال سندھ اور پنجاب کے 23مقامات پر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پتلوں کا نذر آتش کرنا، ملک کے طول و عرض میں ایک عرصہ سے جاری اہل سنت کی مظلومانہ و بہیمانہ شہادتوں اور لا پتہ افراد کے کیسوں سمیت کئی اہم واقعات پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی نہ ہی کسی ادارے نے از خود نوٹس لے کر عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے اور اسلام و پاکستان کی حفاظت کے مقصد کے پیش نظر کوئی اہم اقدام کیا۔حالانکہ ان تمام واقعات کا تعلق ملکی سلامتی و سا لمیت کے ساتھ ساتھ تشخص اسلام کی بقاسے بھی ہے۔

ان سمیت تمام مصائب و آلام سے نجات کی فقط ایک ہی صورت ہے کہ جس مقصد اور موقف کی بنیاد پر ملک بنا ہے اسی مقصد یعنی لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ملکی آئین و قانون بنانا چاہیے۔ اور اسی کے مطابق تمام مسائل کو حل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے ساتھ ہو گی بصورت دیگر ہم اسی طرح خوار ہوتے رہیں گے جس طرح 64 سال سے ہورہے ہیں۔ اسی طرح لوگ چند لمحوں میں قانون اور سرحد کے رکھوالے سپوتوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ اور جب اس پر کوئی پیش رفت ہو گی توکئی دن مہینوں اور سالوں میں بدل جائیں گے مگر قاتلوں اور ظالموں کے گریبانوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ سیالکوٹ قتل کیس کا مرکزی ملزم اہل تشیع کا فرد اسی سست روی اور کمزور انتظام کی بدولت ایران فرار ہوا۔ اسی وجہ سے اہل سنت زعماءو عوام کے قاتل اہل تشیع ایران فرار ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم روز اول سے ہی قرآن و سنت کو حقیقی معنیٰ میں اپنا سپریم لاءبنا کر چلتے تو آج ایسے قاتلوں ظالموں کو فوری طور پر عبرت ناک سزا مل جایا کرتی اور عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوتا اور نہ ہی مظلوموں کے پسماندگان و لواحقین اندر ہی اندر جلتے۔ سوات، وانا ، وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں کے مظلوموں کے لواحقین اسی وجہ سے خود کش حملہ آوروں کی خوفناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔

اے اللہ! ہم پر رحم فرما اور ہمیں اپنے رستے پر خالص مخلص ہو کر چلنے کی ہمت اور توفیق عطاء فرما دے، آمین!

(نوٹ: کالم نگار کے مخاطب فوج، رینجرز اور پولیس کے ادارے نہیں، ان اداروں میں شامل کالی بھیڑیں ہیں جو کہ ان اداروں کی reputation مسخ کرنے کا باعث بن رہی ہیں)
Kamran Saleem
About the Author: Kamran Saleem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.