سافٹ زبان کے ہاٹ نیوز ،ہاٹ اینکرس

اردوزبان کا جب تذکرہ آتاہے تو اس میں قدرتی طور پر شفافیت،معصومیت اور غیر عریانیت کاتصور آتاہے،بڑے سے بڑا شاعر، ادیب اور بڑے سے بڑا اردواخبار بھی اپنے قلم کو عریانیت و بے حیائی سے پاک رکھنے کی کوشش کرتارہاہے۔ہاں کچھ قلم کاروں نے رومانس کو اپنے ادب میں باادب طریقے سے پیش کیا،سعادت حسن منٹونے اپنے افسانوں میں سماج کی حقیقت کو پیش کیانہ کہ افسانوں کے ذریعے سے عریانیت کوعام کیا۔اس سے بھی اگرپیچھے جائے تو کچھ حقیقتوں کی بنیاد پر قلم کاروں اورشعراء اوروادباء نے عورتوں ،عشق اور رومانس کو بڑے ہی سلیقے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیاجس کے ذریعے سے ایک مثبت پیغام لوگوں کودینے کی کوشش کی۔اب21 ویں صدی کاانقلاب ہے۔بدن پہ برقعہ،چہرا بے نقاب ہے۔اس لئے ویب پورٹل اور یوٹیوب پر بامہذب اور دیندار کہلائے جانے والے وہ لوگ جنہوں نے مسلم میڈیاکی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ویب پورٹلس،یوٹیوب چینل اور صحیفے نکالنے کی پہل کی ہے،انہوں نے بھی قومِ مسلم کی ترجمانی کے نام پر ان کاآغاز توکردیا لیکن درمیان میں راہوں میں اتار چڑھاؤ آنے سے پہلے ہی مغربیت کی چالوں کو اپنانا شروع کردیاہے۔کئی اردو نیوز پورٹلس میں باقاعدہ طور پر سیکس ،غیر اخلاقی حرکتیں،خواتین کی عریاں تصاویر،ناجائز رشتوں کی کہانیاں اور ازدواجی زندگیوں کی کمیوں و خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے دکھایاجارہاہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ ان کے ویوورس کی تعدادمیں اضافہ ہوجائیاور لوگ ایسی خبروں کو پڑھ کر خوب قلبی سکون حاصل کریں۔اسی طرح سے کچھ اردو نیوز پورٹلس خبروں کے ساتھ ایسی خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر شائع کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس کا خبر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔کچھ سال پہلے ایک شیونگ بلیڈکے اشتہارمیں ایک خاتون کو ریزر پکڑے ہوئے دکھایاجاتاتھا،جبکہ شیونگ اور خاتون کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے،البتہ اْس نیم عریاں خاتون کو بتاکر شیونگ بلیڈ والوں نے خوب پیسے کمائے۔اسی طرح سے ایک کولڈڈرنگ کے اشتہارمیں ایک پیاسی خاتون کولڈڈرنگ پیتی ہے تو اس کے قطرے گلے کے اندرنہیں بلکہ ٹھوڑی سے ہوتے ہوئے گلے سیاترکرسینے کی طرف جاتے تھے، جو دیکھنے والوں کو اس کی طرف مائل کرتے تھے۔اسی طرح سے اب اردو ویب پورٹلس اور یوٹیوب چینلس پر بھی اسی طرح کی وہیائت تصاویر چسپاں کی جارہی ہیں،کچھ تو خبریں دینے کیلئے خوف صورت خواتین کو خوبصورت بنا کر ناظرین اکرام سے مخاطب کروارہے ہیں۔سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ یہ قوم مسلم کی کونسی ترجمانی ہے؟۔یقیناً صحافت کو مذہبی روایات سے جوڑ کر دیکھا نہیں جاسکتا نہ ہی عمومی صحافت میں دینداری کو شدت سے پیش کیاجاسکتا ہے،لیکن روایات سے بڑھ کر رواج،تہذیب اور اخلاق بھی بنیادہے تو اْس پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔عریانیت کوعام کرتے ہوئے خبریں پہنچانے والے ٹی وی چینلس تو ہمارے پاس بہت ہیں لیکن صحافت کی پاسداری کرتے ہوئے لوگوں کی ترجمانی کرنا کسی بھی صحافتی زمرے کی اہم ذمہ داری ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی نمائش سے ہی ویب سائٹ کی رونق ہے اور اسی سے ویب سائٹس چلتی ہیں تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔بی بی سی کی بات لی جائے یہ خبررساں ادارہ عیسائیوں کے ماتحت رہ کربھی ا?ج تک اخلاقیات و صحافتی بنیاد کو اپنے سے دورنہیں کرپایا۔بی بی سی اردو سیجڑی ہوئی خواتین لندن جیسے ممالک میں رہ کربھی اب بھی بہت حدتک محتاط ہیں،مگر کل پرسوں سے منظرعام پرآنے والے ویب پورٹلس،اخبارات اور یو ٹیوب چینلس پر عریانیت کو جس طرح سے عام کیاجارہاہے،اس سے یہ بات ثابت ہے کہ شہرت کیلئے کچھ بھی ،ضرورت کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے ہم تیارہیں۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 178327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.