سسکتی آہ

کیا آپ جانتے ہیں ہمارے ملک میں روزانہ ہر عمر کی عورت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ تین سال کی بچی سے لے کر پچھتر برس کی بڑھیا تک محفوظ نہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، قومیت اور لباس کی کوئی قید نہیں۔ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ہماری عزت محفوظ نہیں ، جہاں اپنے حق میں بولنے والے انسان کو دبایا جاتا ہے۔ہر آئے دن ایک ایسا واقعہ ضرور سننے کو ملتا ہے یقین کریں جسم کانپ اٹھتا ہے۔آخر اس کے پیچھے غفلت کس کی؟ والدین کی،نہیں بلکہ ہمارا کمزور قانون ہے۔

میرا خیال ہے کہ جب کوئی مرد ،عورت، بچہ یا ٹرانس جنڈر ، جسمانی وذہنی معذور سٹرک پر نکلتا ہے تو وہ صرف شہری ہوتا ہے جس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عورت،ماں بہن بیٹی گھر یا معاشرے کے لیے ہوسکتی ہے مگر قانون کی نظر میں وہ صرف شہری ہےجس کے حقوق اور فرائض نہ کسی سے کم ہیں نہ زیادہ ہے۔ لیکن ہماری ریاست کیا کر رہی ہوتی ہے اس ریپ جیسے بھیانک جرم کا شکار کو قصوروار ٹھہراتی ہے۔یاد رکھیں، دراصل بطور سرکار یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اپنی حفاظت خود کرنا ہمارے بھروسے پر مت رہنا ۔ اور ہمارا معاشرہ بھی یہی کہتا ہے ضرور عورت میں ہی کچھ ایسی خرابی ہوتی ہے مرد بے چارہ تو خود پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ چلیں مان لیتے ہیں ایک عورت قصوروار ہوسکتی ہے لیکن ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے؟ کیا وہ بھی غیر مناسب لباس میں سنسان راستوں پر چلتے ہیں؟ ہمارا معاشرہ ہمیں کیا سکھاتا ہے عورتوں کا پہناؤ اور ڈھال مرد کی مرضی کے ہونے چاہئیں ،عورت بھلے ان پڑھ ہو کہ تعلیم یافتہ ایک بار اسے مرد نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔میں سوچتی ہوں ایسا کیوں آخر؟کیا عورت انسان نہیں ؟ اس کو جینے کا حق نہیں؟ کیا اس کو وہ حقوق نہیں ملنے چاہئیں جو مرد کو دیے گئے؟ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ملک میں بچوں کے کوئی چا للیڈ پروٹیکشن ایجنسی بھی ہے اور کسی نیشنل کمیشن فار چاللیڈ ویلفیئر کا وجود بھی ہے۔ ایسا ہوتا تو اس ملک میں پانچ تا 15 برس تک کے دس بچے روزانہ اجتماعی و جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ کیوں بنتے۔ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں اس مجرم کی سزا سرعام پھانسی دینا نہیں، سوال یہ ہے کہ جب اپنے مفاد کا قانون بن سکتا ہے تو عوام کے مفاد، بچوں کی حفاظت ٹرانس جنڈر کی حفاظت کے اقدامات مجرم کے لیے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟

اصل میں یہاں انسان سماجی جانور ہے اور تنہا زندگی میں گزار سکتا۔ ایسے قدم قدم پر رشے داروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر اندھا اعتماد بھی تو خود کو اندھی گلی میں لے جانے کا راستہ ہے۔ مت کیجیے اندھا اعتماد آپ کے بچوں کو کسی اجنبی سے صرف 30 فیصد خطرہ ہے ستر فیصد خطرہ رشتےداروں سے ہے۔ جاننے والوں یا اردگرد کے لوگوں کے لوگوں سے ہے۔تب ہی تو ہمیں اور آپ کے بچوں سے ہونے والی زیادتی سے فکر یہ رہتی ہے کہ منہ کھولا تو دنیا کیا کہے گی۔

خدارا چھوڑیے اس دنیا کے لوگوں کو اور ان کی باتوں کو وہ ہمارا کچھ نہیں کر سکتے اور نہ امید اس ملک کی ریاست سے کبھی کی جا سکتی ہے۔کیونکہ آخر میں جواب یہی ملنا ہے ' کوئی مدد کو نہیں آئے گا' ایسے حالات کا مقابلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ سوال اٹھتا ہے تو پھر کریں کیا؟ حل جتنا مشکل ہے اتنا ہی آسان ہے۔ والدین سے گزراش کرتی ہوں اپنے بچوں کے ساتھ جتنا وقت گزار سکیں گزاریں ۔مگر گوشوں کو جیب خرچ، کھولنے، سائیکل ، گھڑی یا موبائل فون سے بھی بہت پہلے آپ کی قربت چاہیے ۔ فاصلہ پیدا تو بیچ میں کوئی نہ کوئی تیسرا آجاۓ گا۔ آپ خود دوستانہ تعلیمی انداز میں انسانی جسم میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اں کی عمر کے لحاظ رکھتے ہوئے آسان لہجے میں سمجھائیں۔ اپنے بچیوں کو دنیا کی ڈر سے گھر میں بند نہ رکھے، بلکہ ان کو اپنی زندگی کی یہ جنگیں خود لڑنے کے لیے تیار کریں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ہماری حفاظت کے لیے ابھی تک ایسا قانون نہیں بنا ۔اگر ایسے کوئی سخت قوانین بنائے جاتے تو آج یہ واقعات نہ ہوتی۔ اس کے بعد میڈیا کا ہاتھ ہے وہ کیا کر رہی ہیں ؟ ہمارا میڈیا متاثرہ شخص کے خاندان کا چہرہ میڈیا پر نمائش کررہی ہوتی ہے مختلف مورننگ شوز میں بلائیں جاتے ہیں انٹرویوز لیے جاتے ہیں یعنی کہ ان کے زخموں پر نمک اور چھڑکا جاتا ہے اور دوسری طرف مجرم کا چہرہ میڈیا پر چپایا جاتا ہے جیسے اس نے کوئی بہت ہی بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ یہ ہے ہمارے ملک کا قانون۔

جب ہم ایک ظلم پر خاموش رہتے ہیں اور جب ہم ایک واردات پر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں تو دراصل دس اور وارداتوں کے لیے راستہ کھول دیتے ہیں۔ اور پھر ہمارا یہ مسلسل نظر انداز کرنا اغوا جبری طور پر غائب کرنے کے عمل ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کو ایک نارمل بنا دیتا ہے۔ اور پھر ہم یہ سمجھوتہ کر لیتے ہیں کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے، معاشرے میں تو ایسا ہوتا رہتاہے۔ اور پھر ہم اس وقت چیختے ہیں جب کوئی ایسا واقعہ ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دے دیں۔ ورنہ تب تک تو باقی لوگ بھی یہ سوچنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ شکر ہے فلاں کے ساتھ ایسا ہوا ہم محفوظ ہیں۔ اور ہم یہ جانتے ہوئے کتنی آسانی سے جان بوجھ کے بھول جاتے ہیں کہ 'چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں' اور آخر کوئی مدد کو نہیں آئے گا۔
 

Nabeela Sarfraz
About the Author: Nabeela Sarfraz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.