قاتل یا محافظ۔۔۔؟

یہ کیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وہ کون سے خون کی ہولی ہے جس کو کھیلنے کی خواہش ہمارے محافظوں میں جاگ اُٹھی ہے۔ کس پہ یقین کیا جائے اور کس پہ نہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کس کے کہنے پہ ہو رہا ہے۔ کیا ہم سب مسلمان ہیں؟ مسلمان تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کوئی بھائی اپنے ہی بھائی کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟

ہمارے محافظوں کے دلوں میں یہ وحشت کیوں ہے؟ کہ کوئی اُن سے معافی مانگ رہا ہے ،رحم کی التجا کر رہا ہے۔ مگرشاید اُن کے دل تو پتھر کے ہو چکے ہیں۔ نہ وہ سُن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کو بس اپنے ہتھیاروں کا استعمال یاد ہے۔ کہ اُن کو پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی میڈیا کی آنکھ اُن کو دیکھ رہی ہے ۔

کوئی اُن سے معافی مانگ رہاہے ۔ مگر اُنہوں نے میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ظالمانہ طور پر ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔ کوئی ہے اُن کو روکنے والا؟

ارے کوئی اس نوجوان کا قصور ہی پوچھ لیتا۔ وہ رو رہا تھا زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھوں میں تو اسلحہ بھی نہیں تھا ۔تو پھر مجھے کوئی بتائے کہ اُسے جانوروں کی طر ح کیوں مار دیاگیا؟

اِس طرح تو کوئی کسی پاگل کتے کو بھی نہیں مارتا۔ وہ تو پھر ایک جیتا جاگتا انسان تھا اور ایک مسلمان بھی۔وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔

ایسا کیا جرم تھا اُس کا کہ ایک ماں سے اُس کا بیٹا اور ایک بہن سے اُس کابھائی چھین لیا گیا۔

ہم سب تو مسلمان ہیں نا۔ اور وہ رینجرز بھی ہماری حفاظت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں پھر اُن کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ وہ ایک نہتے نوجوان کو سرِعام مار دیں۔

پوری قوم کیوں سو رہی ہے؟ کیا ہمارے ضمیر بھی سو چکے ہیں؟ کیا ہم صرف اُس وقت جاگیں گے؟ کہ جس دن ہمارے گھروں سے ہمارے شوہر ، باپ ، بھائی اور بیٹوں کو اُٹھا لیا جائے گا۔ اور اِسی طرح سرِعام کسی چوراہے میں قتل کر دیا جائے گا۔یاد رکھو کہ۔!! اگر آج آواز نہ اُٹھائی تو اُس دن اُن کی لاشوں پہ بین کر نے والے ہم نہ ہوں گے۔ یعنی وہ لاشیں بے گور و کفن ہو ں گی۔
اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے
کیا زمانہ ہے کہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے
عزتِ نفس کسی کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے
خون ریزی کا یہ عالم ہے کہ خدا خیر کرے
اب تو مسلمانوں کو مسلمانوں سے ڈر لگتا ہے
سمجھتے تھے جنہیں اپنی جانوں کے محافظ
اِن محافظ و مہربان انسانوں سے ڈر لگتا ہے

آج اخبار اُٹھاکر دیکھیں خبر چھپی ہو گی کہ کوئی شخص پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اور ہم خبر پڑھ کر خوش ہو گئے کہ اچھا ہے پولیس کچھ تو کر رہی ہے۔ پر یہ تو آدھی خبر ہے۔ سچائی کون دیکھتا ہے؟ کون جاننا چاہتا ہے؟

یہ بھی تو ممکن تھا کہ اُس وقت میڈیا کا کیمرہ نہ ہوتا تو کتنی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا کہ وہ نوجوان ایک پولیس مقابلے میںمارا گیا۔کیوں اس قدر بے حسی چھا چکی ہے ہمارے اندر ۔؟

کیوں کسی کی تکلیف اپنی نہیں لگتی۔؟کیا ہم اب ایک قوم نہیں رہے۔؟ اگر اس کا جواب نہیں میں آتا ہے تو شرم آتی ہے مجھے خود پر کہ میں کس منہ سے اپنے آپ کو پاکستانی کہتی ہوں۔۔
اور اگر آ ج بھی ہم ایک قوم ہیں تو
خدا کے لیے جاگو اے قوم کے لوگوں جاگو
ہوش میں آﺅ۔۔۔
قاتلوں اور محافظوں کا فرق سمجھاﺅ۔۔۔
Sahar Ali
About the Author: Sahar Ali Read More Articles by Sahar Ali: 23 Articles with 86479 views https://www.youtube.com/channel/UCJp9DAvuxtE-Wt5KhEaZxpw.. View More