محمد حنیف رامے کی زندگی کا ایک ورق

محمد حنیف رامے پنجاب کے ایک دور افتادہ پسماندہ علاقے اور تحصیل ننکانہ کے نواحی قصبے " بچیکی "کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں یکم مارچ 1930 ء کو پیدا ہوئے ۔دس سال کی عمر میں آپ حصول تعلیم کے لیے لاہور تشریف لے آئے اور1946 میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہورسے میٹرک کاامتحان پاس کیا ۔جہاں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال ٗ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار اور امتیاز احمد آپ کے کلاس فیلومیں شامل تھے ۔ میٹر ک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے مشہور زمانہ تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور 1952 ء میں شعبہ اقتصادیات میں ایم اے کیا ۔ دوران تعلیم کالج میگزین "راوی " کے ایڈیٹر بھی رہے ،پھر گورنمنٹ کالج لاہورہی سے ایم اے فلسفہ کاامتحان پاس کیا ۔ یہیں پر ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو " شاہین بیگم" سے ہوئی۔ دونوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی ہم آہنگی بعدازاں شادی جیسے مضبوط رشتے میں تبدیل ہوگئی ۔ان کی اولاد میں ایک بیٹا ابراہیم رامے اور بیٹی ڈاکٹر مریم رامے شامل ہیں ۔ بعد ازاں 1963 ء میں محمد حنیف رامے لارنس کالج گھوڑا گلی میں جغرافیہ کے استاد مقرر ہوئے۔ 1965ء میں وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے ماتحت ادارے "مرکزی اردو سائنس بورڈ "میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے آپ کا مقرر ہوا اور اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی جستجو کا آغاز بھی اسی ادارے سے آپ نے کیا ۔ 1967ء میں پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد سرکاری عہدے سے استعفی دے دیا اور مکمل طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے ہمرکاب ہوگئے اور اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو فروغ دینے والوں میں آپ کاشمار صف اول کے لوگوں میں ہوتا تھا بلکہ روٹی کپڑا مکان کانعرہ بھی آ پ ہی کی تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار تصورکیاجاتاہے ۔1970 ء کے الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد آپ پہلے وزیر خزانہ پنجاب مقرر ہوئے۔ بعد ازاں1974ء میں وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوکر ایک سال تک اس عہدے پر فائز رہے ۔4 جولائی 1975ء کو آپ پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے پھر1976 ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کی بنا پر نہ صرف پیپلز پارٹی چھوڑ دی بلکہ سینیٹرکے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے ۔اس لمحے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمہ قائم کرکے نہ صرف آپ کو دلائی کیمپ میں قید کردیا بلکہ خصوصی عدالت کی جانب سے انہیں ساڑھے چار سال کی قید کی سزا بھی سنا دی گئی ۔ جنرل ضیاالحق کا مارشل لا لگتے ہی جولائی 1977 ء میں لاہور کورٹ نے رامے صاحب کو رہاکرنے کا حکم جاری کردیا رہائی کے بعد آپ امریکہ چلے گئے اور برکلے یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے چھ سال تک فرائض انجام دیتے رہے ۔ وطن واپسی پر مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ " رب ٗ روٹی اور لوک راج " تھا تاہم یہ سیاسی جماعت عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ بعدازاں اس سیاسی جماعت کو 1986ء میں غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں بننے والی جماعت "نیشنل پیپلز پارٹی" میں ضم کردیاگیا۔ محمد حنیف رامے 12 سال بعد 1988ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور 1993ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر سپیکر پنجاب اسمبلی مقررہوئے ۔ محمد حنیف رامے کے خاندان کے سبھی افراد خود کو باپ کی نسبت سے چودھری کہلواتے تھے صرف آپ نے اپنی ماں کی مناسبت سے خود کو رامے کہلوانا پسند کیا ۔آپ کا شمار تجریدی آرٹ کے بانیوں میں ہوتا ہے آپ کی مصوری اور خطاطی میں اتنی جدت ہے کہ ان کے فن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا انہوں نے تین سو کے لگ بھگ پینٹگز " محمد ﷺ سیریز" اور اﷲ تعالی کے 99 ناموں کو کینوس پر رنگوں سے سجا کر امر کردیا ۔ ان کی اردو تصنیفات میں "پنجاب کا مقدمہ" ٗ "دب اکبر" اور" باز آؤ اور زندہ رہو"، "اسلام کی روحانی قدریں "،" موت نہیں زندگی" ، "پنجاب کا مقدمہ"شامل ہیں جبکہ انگریزی تصانیف میں Again اور Second Adam شامل ہیں ۔یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ محمد حنیف رامے کیا تھے ؟ اس سوال کا مختصر جواب تو یہی دیا جاسکتا ہے کہ محمد حنیف رامے کیا نہیں تھے ۔ وہ شریف النفس انسان اور ترقی پسند دانشور ٗ محقق ٗ درویش منش اور بااصول سیاست دان تھے ٗ منفرد ادیب اور صاحب اسلوب مصور اور خطاط بھی تھے ٗ مصنف ٗ ایڈیٹر ٗ پرنٹر اور پبلشر بھی تھے وہ پنجاب کے اعلی ترین سیاسی اور سرکاری عہدوں پر فائز رہے گورنر ٗ سپیکر ٗ سینیٹر اور وزیر اعلی پنجاب بھی رہے۔ وہ نظریاتی طور پر پیپلز پارٹی کا فکری اثاثہ تھے ۔آپ روحانی طور پر سائیں فضل حسین ( ڈیرہ نور پاک والے ) اور واصف علی واصف سے متاثر تھے ۔ادب اور صحافت کے میدان میں محمد حنیف رامے کا نام کون نہیں جانتا۔گورنمنٹ کالج کے جریدے ’’راوی ‘‘ سے شروع ہونے والا یہ سفر،ماہنامہ’’ سویرا‘‘ اور ہفت روزہ’’ نصرت‘‘ سے ہوتا ہوا روزنامہ’’ مساوات‘‘ پر بظاہر ختم ہوگیا۔

محمد حنیف رامے کو ہم سے بچھڑے یکم جنوری2021ء کو ٹھیک 20 برس گزر چکے ہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ محمد حنیف رامے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔وہ ایک مدّبراور دُور اندیش سیاستدان بھی تھے ۔مفکر بھی تھے اور دانشور بھی۔ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔مصورانہ خطاطی کے موجد بھی تھے اور اعلیٰ پائے کے مصور بھی۔ رامے مرحوم غالب احمد،انتظار حسین،مظفر علی سیّداوراحمد مشتاق کالج کے ساتھی تھے اور ناصر کاظمی،احمد راہی ،شیخ صلاح الدین اور صلاح الدین محمود پاک ٹی ہاؤس کے مستقل بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ان دوستوں کی صحبت میں بتائے ان گنت رت جگوں نے محمد حنیف رامے کے زرخیز ذہن میں کئی نئے چراغ روشن کر دیے۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 669676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.