قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے

میں کچھ کہنا چاہتا ہوں بات کچھ یوں ہے میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہم ہر سال کچھ دن یادگار کے طور پر مناتےہیں جیسے یوم آزادی ، عید کے طورپر، ، لیبر ڈے کے طورپر، انوارمنٹ ڈے کے طورپر، قائداعظم ، علامہ اقبال ڈے کے طور پر، میں یہ نہیں کہتا کہ ان دنوں کونہ منایاجاہے۔ بلکہ ہمیں اور ایک ایسی دن منانے کی ضرورت ہے جو ان غریبوں کو فائدہ پہنچے جن کو مدد ضرورت ہے۔ وہ مزدور جو اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے مزدوری کرتا ہے وہ غریب جو اپنے لئے کوہی چت کا سایہ نہ بناسکے، وہ اسٹوڈنٹس جو اپنے اسکول کا فیس جمع نہ کر سکے ۔آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح اس دن کو منانے سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا اگر ہیں تو پھر میں آپ کو بتا دیتاہو نہ ہی ہم اس دن کو کوہی ریلیاں نکالیں گے اور نہ کوہی چشن یا مہفل سجاہیں گے اورنہ کوہی سوگ مناہیں گے۔ اس دن کو ہم اسطرح آسان بناہیں گے کہ اسے ہر کوئی بڑھے شوخ سے مناسکے گا چاہیے وہ کوئی مزدور ہو یا اسکول میں پڑھاتا ہوا استاد ہو یا ہوٹل میں کام کرتا ہوا ویٹر ہو یا اسکول میں پڑھتا ہوا اسٹوڈنٹس ہو۔ اگر آپ اس دن کو منانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو بتاتاہو کہ آپ اس دن کو کیسے مناہیں۔ طرف اور طرف آپ کو اتنا پیسہ اپنے اکاؤنٹ سے نکالنا پڑے گا جتنا آپ ایک دن میں اپنے آپ پر خرچ کرتے ہیں ان پیسوں کو ان غریبوں کے اکاونٹ میں جمع کر نا ہے ۔ جو بھوکے پیھٹ رات کو سو جاتے ہیں ننگے پاؤں سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں اب آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میرے سو یا پانچ سو روپے سے کیسے ان غریبوں کے ننگے پاؤں میں جوتے آہیں گے۔ اگر آپ یہی سوچ رہےہیں تو آپ بلکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ لیکن میں آپ کو دعوےسے یہ کہوگا کہ کچھ لوگوں کے پاؤں میں جوتے آہیں گے اور کچھ کے چولے بھی جلیں گے کیونکہ آپ اکیلے نہیں ہونگے ہم سب اس دن کو بڑے شوق سے مناہیں گے۔اتہ کہ وہ لوگ بھی اس دن کو مناہیں گے جن کے پیروں میں جوتے نہیں ہونگے اور وہ جن کے گھروں میں چولے بھیجیں ہونگے کیونکہ وہ بھی زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھاتے ہیں یا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں سب بڑا بیکاری بھی زندہ رہنے کے لیے دن میں پچاس یا سو روپیہ خرچ کرتا ہے اور نہ کے اسے ہر روز پچاس یا سو روپیہ دینا ہوگا بلکہ 365دنوں کو چوڑ کر ایک دن کا اپنی کمائی دینا ہو گا۔ اگر وہ ہر ہفتے میں ایک روپیہ بچاہے تو 365 دنوں کے دوران 51 روپیہ جمع کرے گا کیونکہ ایک سال کے 51 ہفتے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا کا سب سے بڑا بیکاری اس دن کو بڑی آسانی سے منا سکتا ہے تو پھر آپ کیوں نہیں مناسکتے ہیں۔ وہ چھوٹا سا بچہ جو اپنی ماں کے گود میں دودھ پیہ رہا ہو اس پر دن میں سو یا دوسو ہم خرچ کرتے ہیں۔ 365 دنوں میں ہم ایک بار کسی غریب کو سو یا دوسو نہیں دے سکتے ہیں اگر ایک دودھ پیتا ہوا بچہ دن میں دو سو روپے خرچ کرسکتا ہے تو وہ شخص جو بغیر اے سی کے سو نہیں سکتا ہے ۔ذرا سوچئے وہ دن میں کتنا خرچ کرتا ہے اگر وہ ہر دن میں ایک ہزار سے تین ہزار خرچ کرتا ہے تو سال میں ایک بار دو ہزار کسی غریب کے اکاؤنٹ میں ڈال نہیں سکتا؟؟ اگر آپ یہ سوچ رہےہیں کہ ایک سال میں کتنا پیسہ غریبوں کے لیے جمع ہوسکتا ہے؟ تو آپ اپنی سٹی یا گاؤں کو مثال کے طور لیجے ۔ مثال کے طور پر آپ کے علاقے کی آبادی ایک لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے ہر شخص ایک سو روپیے جمع کرتا ہے۔ تو ایک لاکھ کتنے بنتے ہیں اس طرح آپ کے علاقے میں ایک سال میں ایک کروڑ جمع ہوتا ہے ان لاکھ لوگوں پر مشتمل آبادی میں کوہی ایسی بھی شخص آپ کو نہیں ملے گا جو سو روپے جمع نہیں کرسکتا ہے ۔ایک لاکھ میں بیس ہزار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سال میں ایک بار دس سے پندرہ ہزار غریبوں کو دےسکتاہے۔ اور بیس ہزار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سال میں دو ہزار سے تین ہزار جمع کر سکتےہیں اور بیس ہزار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہزار سے پانچ سو روپے جمع کر سکتےہیں۔ اور چالیس ہزار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سو سے دوسو روپے جمع کر سکتےہیں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ سب لوگ پیسے نہیں دیگے توآپ غلط نہیں ہو ۔لیکن مجھے یقین ہے کہ پچاس سے ستر فیصد لوگ ضرور دینگے اگر ان رقموں کا اہویرج نکالا جائے جو اوپر ذکر ہیں تو ان رقموں کا اہویرج ایک ہزار ہوگا۔ اب آپ پچاس ہزار کو ایک ہزار پہ ضرب دیں تو چانچ کروڑ بن جائے گےذرا سوچئے ان پانچ کروڑ میں سے چند ایسے لوگوں کو چت کا سایہ ملے گا جو سڑکوں میں زندگی گزاررہے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگوں کوکبھی پڑھنے کا موقع ملے گا جنہونے صرف خواب میں قومی ترانہ پڑھا ہوگا۔ اور چند ایسے لوگوں کی بھوک مٹے گی جنہونے کبھی بھی پیھٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ہوگا۔اگر آپ یہ سوچ رہےہیں کہ میں خیالی باتیں کررہا ہو تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو یہ خیالی باتیں ضرور حقیقت میں بدل جائے گے کیونکہ آپ ساتھ دیں تو سب ساتھ دیں گے اگر آپ ساتھ نہیں دیگے تو آپ بلکل ٹھیک سوچ رہے ہیں میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہو۔ اگر قطرہ قطرہ سے دریا بنتا ہے تو آپ کے سو یا دوسو سے ضرور کسی غریب کو جینے کی امید ملے گی۔
 

Shoaib Ahmed
About the Author: Shoaib Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.