جامعہ نوریہ شام پور اتر دیناج پور بنگال انڈیا : ایک تعارف

سہ ماہی پیغام مصطفی اتر دیناج پور میں مدارس اسلامیہ کے تعارف کے لیے ایک کالم ’’آئینۂ مدارس‘‘کے نام سے خاص ہے، جس میں مدارس اہل سنت کا تعارف پیش کرکے ان کی دینی وعلمی خدمات اجاگر کیے جاتے ہیں، بحمدہ تعالی اب تک اس کالم میں دس مداراس اسلامیہ کا تعارف شائع ہو چکاہے۔ جامعہ نوریہ شام پور اتر دیناج پور کا ایک اہم دینی وتعلیمی ادارہ ہے، جس کے معائنے کے لیے ہمارے رسالے کے سرپرست خلیفۂ مفتی اعظم ہند حضرت مفتی عبد الغفور رضوی قبلہ دام ظلہ العالی اور معاون مدیر حضرت مولانا عسجد رضاقادری کا دورکنی گروپ جامعہ نوریہ پہنچاکہ لیس الخبرکالمعاینۃ[خبرمعاینہ کی طرح نہیں ہوسکتی ]کے مصداق ان حضرات نے اپنی آنکھوں سے ادار ے کو دیکھا، اس کے تعلیمی نظام ونصاب کا جائزہ لیا، دعوتی، تبلیغی اور تعمیری سر گرمیوں سے واقفیت حاصل کی ۔ اسی جائزہ اور معائنہ کی روشنی میں جامعہ نوریہ شام پور کا یہ مختصرتعارف قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ محمد ساجدرضا مصباحی

جامعہ نوریہ شام پور اتر دیناج پور بنگال انڈیا کی عظیم الشان مرکزی عمارت

ریاست بنگال کا قدیم ضلع مغربی دیناج پور جو، اب دوحصوں میں تقسیم کے بعد اتر دیناج پور اور دکھن دیناج پور کے نام سے موسوم ہے، اس کی مشرقی سرحد پوری کی پوری پہلے کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔تقسیم ہند کے وقت یہاں کے اکثر اہل ثروت مسلمان بنگلہ دیش منتقل ہو گئے، اورجو حضرات یہاں رہ گئے وہ زیادہ تر کھیتوں میں کام کر نے والے مزدور یا چھوٹے کاشتکار ہیں اور بالعموم اردو ہندی سے نا آشنا، اس لیے علم دین سے بھی دورہیں۔ ایک زمانے تک اس علاقے کا حال یہ رہا کہ جو بھی انھیں بنام دین آواز دیتا، اس کی طرف یہ بے چارے دوڑ پڑتے۔ اسی بے بسی اورسادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کرغیر مقلدین نے ہر طرف اپنا جال بچھانا شروع کیا، سعودی ریال کی طاقت انھیں غذا فراہم کرتی رہی۔ اس معاملے میں دیوبندیوں کی تبلیغی جماعت بھی کسی طرح ان سے پیچھے نہیں رہی۔
۱۹۹۴ءمیں اتر دیناج پور کے مرکزی مقام راے گنج سے قریب ،ایک گاؤں بالیر پور میں عقیقہ کی ایک تقریب میں سلام وقیام کو لے کر ایک سنی عالم مولانا نعیم الدین مرشد آبادی اور دیو بندی علما کے مابین جھڑپ ہو ئی اور بات مناظرہ تک جاپہنچی۔ نتیجتاً جون۱۹۹۴ء کی۱۲؍تاریخ کو ہندوستان کے معروف مناظر اور محقق ومصنف،مناظر اہل سنت، فقیہ النفس حضرت مفتی محمد مطیع الرحمن مضطرؔ رضوی دام ظلہ العالی اور دیوبندی عالم مولانا طاہر گیاوی کے درمیان تقریبا آٹھ گھنٹے تک مناظرہ ہوا، جس میں طاہر گیاوی کو کھلی شکست ہوئی۔ وہ پہلے وضو، پھر استنجا، پھر لیٹرین کے بہانے مناظرہ کے اسٹیج سے بھاگ کھڑے ہوئے، اور ہزار بلانے کے باوجود واپس نہیں ہوئے، جسے تقریبا ڈیڑھ لاکھ کے مجمع عام نے سرکی آنکھوں سے دیکھا، جس کی رودادآڈیو کیسٹ سے بلفظہ نقل ہوکر ’’رودادمناظرہ ٔبالیر پور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔
مناظرہ میں فتح مبین حاصل کر نے کے بعد حضرت مفتی صاحب قبلہ نے اس علاقے میں ایک تعلیمی ادارے کے قیام کی خواہش کا اظہار فر مایا،بالیر پور سے تین کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ شام پور کے مسلمانوں نے نہ صرف آپ کی خواہش کا احترم کیا، بلکہ آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تقریبا دو ایکڑ زمین بھی مدرسے کی تعمیر کے لیے وقف کی۔اس موقوفہ زمین پر ۱۹۹۵ء میں مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی نے اپنے مربی ومرشد، جانشین اعلیٰ حضرت، تاج دار اہل سنت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی اور اپنے دادا پیر جانشین صاحب البرکات، نورالعارفین حضور سید شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہم الرحمۃوالرضوان کی یاد گار کے طور پر جامعہ نوریہ کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔اس ادارے نے دو دہائی کی مدت میں تعلیم وتعلم اور دعوت وتبلیغ کے اہم مرکز کی شکل اختیار کرلی ،بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ ادارہ مناظر اہل سنت دام ظلہ کی قیادت وسرپرستی میں مسلسل ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔تعمیری اور تعلیمی دونوں اعتبارسے اس ادارے نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے، اس میں کو ئی شک نہیں کہ جامعہ نوریہ شام پور اس علاقے میں اہل سنت کا مرکز ہے، عوام کی تمام تر دینی وعلمی ضرورتیں اس ادارے سے پوری ہوتی ہیں۔
جامعہ نوریہ شام پور کے بانی وسرپرست، فقیہ النفس حضرت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر ؔرضوی صاحب قبلہ کی ذات اسلامیان ہندکے لیے عظیم نعمت ہے، خاص طورسے سیمانچل اور اتر دیناج پور کے اہل سنت وجماعت کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، قومی وبین الاقوامی سطح پر آپ کا علمی مقام ومرتبہ کسی سے پوشیدہ نہیں،اہل علم کے نزدیک مختلف فیہ مسائل میں آپ کا قول، قول فیصل ہوا کرتا ہے، فقہی بصیرت، علمی گیرائی وگہرائی،فکر وتدبر، دور اندیشی اور دانائی وبینائی میں آپ اپنے اقران ومعاصرین میں ہمیشہ فائق رہے ہیں،آپ کوتاج دار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند کاخوشہ چیں اور معتمد ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ، تقریباًنصف صدی سے امام اہل سنت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت کے لیے سرگرم ہیں،سنیت کا فروغ اور باطل فرقوں کی سرکوبی ہمیشہ آپ کا محبوب مشغلہ رہا، آپ نے ہمیشہ زمینی سطح پر سنیت کے استحکام کے لیے کام کیا، رضویات کے مشکل مقامات کی عقدہ کشائی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ جہاں بھی رہے،علم وفضل کی بزمیں سجائیں،صحراؤں کو لالہ زار بنایا،آبادیوں کو فکررضا کی خوشبوؤں سے معطر کردیا، ہر محاذ پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی کے افکار ونظر یات کے پاسبان ونگہبان رہے۔
آپ جامعہ نوریہ شام پور کی تعمیر وترقی کے لیے دودہائی سے زائد عرصے سے کوشاں ہیں، آپ کے صاحب زادۂ گرامی حضرت مولانا احمررضوی زید شرفہ بھی درس نظامی کی تکمیل کے بعد اسی ادارے سے وابستہ ہیں اور اس کے فروغ و ارتقا کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ ادارے میں اس وقت متعدد شعبے سر گرم عمل ہیں، مقامی وبیرونی طلبہ کی کثیرتعداد یہاں زیور علم سے آراستہ ہورہی ہے، اساتذہ اعلام کا ایک مضبوط قافلہ ہے، تعمیری کام بھی مسلسل جاری ہے۔ ذیل کی سطروں میں ہم جامعہ نوریہ کی تعلیمی وتعمیری سر گرمیوں کا ایک جائزہ پیش کررہے ہیں۔
جامعہ نوریہ کا تعلیمی نظام ونصاب:
اس وقت جامعہ نوریہ شام پور میں عا لمیت یعنی درجۂ سادسہ تک کی معیاری تعلیم دی جاتی ہے، جامعہ اشرفیہ مبارک کا نصاب تعلیم جزوی ترمیم کے ساتھ نافذ ہے،نصاب میں اردو،عربی،فارسی زبان کے ساتھ، انگلش، ہندی اور بنگلہ زبان کو خاص طور سے شامل رکھا گیا ہے، ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کی تعداد150؍ہے، جب کہ تقریباً اتنے ہی مقامی طلبہ بھی ہیں جو روزانہ تعلیم حاصل کر نے جامعہ آتے ہیں 11؍اساتذہ کرام ان طلبہ کی تعلیم وتربیت اور نگرانی پر مامور ہیں۔
شعبۂ ناظرہ وحفظ وقرا ء ت:
جامعہ نوریہ کے شعبۂ حفظ میں لگ بھگ 50؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں، دواساتذۂ کرام ان کی تعلیم وتر بیت کے لیے شب وروز محنت کرتے ہیں، اس شعبے کے طلبہ کو حدر کے ساتھ حفظ کی تعلیم دی جاتی ہے، اب تک متعدد حفاظ کرام اس شعبے سے فارغ ہو چکے ہیں۔ ناظرہ کے طلبہ بھی کثیر تعداد میں جامعہ آتے ہیں، جن پر خصوصی توجہ مبذول کر کے بہتر تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
جامعہ نوریہ دارالبنات:
جامعہ نوریہ شام پور کے زیر اہتمام بچیوں کی عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے دارالبنات کا قیام بھی عمل میں آیا ہے، جس کے تحت اس وقت ایک سو پچاس بچیاں ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کررہی ہیں، دارالبنات میں بھی عا لمیت تک کی تعلیم ہو تی ہے۔ 07؍ معلمات ان کی تعلیم وتربیت پر مامور ہیں، یہ معلمات بھی ہاسٹل میں رہتی ہیں اور صبح وشام بچیوں کی تربیت اور نگرانی پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔
قومی کونسل براے فروغ اردوزبان کے تحت کمپیوٹر کورس:
جامعہ نوریہ میں زیر تعلیم طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم سے آشنا کرنے کے لیےNC P UL کا تعلیمی سینٹر بھی قائم ہے، جس کے تحت طلبہ کو کمپیوٹر کے مختلف کورس کرائے جاتے ہیں، اور اسناد ومارکشیٹ دی جاتی ہے۔ قومی کونسل براے فروغ اردو زبا ن مرکزی حکومت ہند کے زیر انتظام چلنے والا ادارہ ہے، جس کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں سینٹر زقائم کیے گئے ہیں، اس ادارے کی اسانید مختلف ملازمتوں میں بھی کام آتی ہیں۔
جامعہ نوریہ کی عمارتیں:
جامعہ نوریہ کا گلستان علم وفضل تقریبا ساڑھے تین ایکڑ زمین پر پھیلا ہواہے، جامعہ کا دارالاقامہ جس کے 11؍کمرے طلبہ کے قیام کے لیے مختص ہیں،اسی عمارت کی دوسری منزل پر دارالحفظ ہے۔دوسری درس گاہ بلڈنگ ہے جس کے10؍کمروں میں درس گاہیں لگتی ہیں۔ جامعہ نوریہ کے صدر دوارزے سے متصل عمارت کے اگلے حصے میں آفس ہے، جب کہ اس کا پچھلا حصہ فیملی کوارٹر کے طور پر استعمال ہو تا ہے۔
جامعہ نوریہ کے دارالبنات میں تین کمرے معلمات کے قیام کے لیے خاص ہیں، اوردوبڑے ہال ہیں جن میں دو سو طالبات کے قیام کی گنجائش ہے، ان ہالوں میں چار پائیاں لگی ہیں، جن میں بچیاں رہتی ہیں۔اس عمارت میں ایک بڑا ہال بھی ہے جو درس گاہ اور نماز گاہ کے طورپر استعمال ہو تا ہے۔
نوری جامع مسجد متعلقہ جامعہ نوریہ:
جامعہ نوریہ سے متعلق ایک عظیم الشان دومنزلہ نوری جامع مسجد ہے، جس میں طلبہ واساتذہ کے علاوہ مقامی لوگ بھی نماز پنج گانہ اور جمعہ اداکرتے ہیں۔جامعہ نوریہ شام پور دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی قابل ذکر خدمات انجام دے رہا ہے، قرب وجوار کے قریات میں طلبہ کی ٹیمیں ہر ہفتے جایا کرتی ہیں، لوگوں سے ملاقات کرکے انھیں دین سے قریب کر نے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
جامعہ نوریہ کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں سے علما ومشائخ کو مدعو کر کے عام مسلمانوں کو ان سے مستفید ومستنیر ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے،جانشین مفتی اعظم،تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضاخاں ازہری رحمۃ اللہ علیہ، رفیق ملت حضرت سید شاہ نجیب حیدر صاحب قبلہ مارہرہ شریف، حضرت مولانا عبد الستار ہمدانی گجرات ، حضرت مولانا عبید اللہ خان اعظمی ، عزیز ملت حضرت مولاناعبدالحفیظ صاحب،سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور،حضرت مولاناعبدالمبین نعمانی صاحب ،چریاکوٹ اورحضرت علامہ محمدہاشم صاحب مرادآبادی ، وغیرہ کی تشریف آوری ہو چکی ہے۔ان حضرات نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جن تاثرات کوسپردقرطاس فرمایاہے ،ان میں سے چندکے کچھ اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
علما ومشائخ کے تاثرات:
تاج الشریعہ حضرت ازہری میاں علیہ الرحمہ:
مفتی صاحب[ محمدمطیع الرحمٰن صاحب رضوی بانی جامعہ]میرے جدامجد سیدی وسندی وذخری لیومی وغدی حضور مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ عناکے چہیتے شاگردوخلیفہ ہیں۔انہوں نے اس علاقہ میں یہ ادارہ[بنام جامعہ نوریہ] قائم کرکے دین کی عظیم خدمت انجام دینے کے ساتھ اپنے پیر اورداداپیر نوری میاں سیدنا ابوالحسین احمدنوری مارہروی نوراللہ مرقدہ سے اپنی عقیدت کابھی ثبوت دیاہے ۔ ۔۔۔۔
عزیز ملت حضرت مولاعبدالحفیظ صاحب سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور :
’’نوری کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ملا ،اس کوردہ علاقے میں اتنے شاندار ادرہ کی زیارت سے بے حد متاثر ہوا ۔یہ سب حضرت مفتی صاحب قبلہ کے ایثار و قربانی کا نتیجہ ہے اور اس قومی و ملی درد کے احساسات کی تعمیر ہے جو بار گاہ امام اہل سنت اعلی حضرت و مرشد بر حق علیہم الرحمہ کی بار گاہ سے حاصل ہوا ۔رب تعالی نظر بد سے محفوظ رکھے آمین!
چوں کہ یہ علاقہ کوردہ ہے، غریب مسلمانوں کی آبادی ہے ،ایسی صورت میں غیور و مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ حضرت مفتی صاحب قبلہ کے توسط سے جامعہ نوریہ کا بھر پور تعاون کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔۔۔۔۔
حضرت مولاناعبدالمبین صاحب نعمانی،چریاکورٹ:
حضرت مفتی صاحب نے بنگال کے اس نہایت کوردہ علاقے میں علم دین کے فروغ کے لیے یہ ادارہ قائم کر کے اہل سنت و جماعت پر بڑا کرم کیا ہے،اسے پوری جاں کاہی سے بام عروج پر پہنچانے میں مشغول ہیں، طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے ۔زمین وسیع و عریض ہے ،جس پر تعمیر کی اشد ضرورت ہے ،فی الحال دوسری منزل پر عمارت کا کام چل رہا ہے۔حضرت مفتی صاحب مدت فیوضھم نے عصر حاضر کے شدید تقاضوں کی طرف دیکھتے ہوئے بچیوں کی تعلیم کا بھی علاحدہ سے معقول بندو بست کیا ہے، اس کے لیے ایک عمارت مختص ہے جس پر توسیع بہت ضروری ہے ۔تفسیر و حدیث اور فقہ و فتاوی نیز دیگر علوم و فنون پر کتابوں کی بہت کمی ہے، اہل خیر حضرات توجہ دیں تو یہ کام آسان ہو کر جامعہ کو مزید ترقی حاصل ہو۔۔۔۔۔۔
حضرت علامہ محمدہاشم صاحب،جامعہ نعیمیہ مرادآباد:
ایک وسیع وعریض سر زمین پر ادرہ کی تاریخی اور مثالی شاندار عمارت ا ور کثیر تعدا د میں طلبہ و طالبات کے قیام و طعام کے ساتھ تعلیم وتربیت کا قابل افتخار انتظام و اہتمام دیکھ کر حیرت و مسرت کے ملے جلے تاثرات قلب پر منتقش ہو گئے، اس علاقہ میں اس شان کا عظیم ادارہ بانی ادارہ محسن قوم و ملت ،افتخار اہل سنت ،مناظر اعظم ہند ،حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن صاحب رضوی کے اخلاص و ایثار کی علامت کے ساتھ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس کا قیام آپ کی کرامت سے کم نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب کبھی کوئی مؤرخ اس دیار کی تاریخ رقم کرے گا تو تعلیمی دنیا میں اس کی اس تاریخ میں حضرت مفتی صاحب قبلہ کا اسم گرامی سر فہرست ہوگا ،ورنہ اس کے بغیر اس کی یہ کاوش ادھوری اور نا مکمل تصور کی جائے گی۔۔۔۔۔
یہ ادارہ خالص عوامی تعاون سے چلتا ہے، سارے اخراجات اہل خیر کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں، تعمیر ی کام جاری ہے، مستقبل کے کئی بڑے اہم منصوبے سرمایے کی قلت کی وجہ سے زیر التوا ہیں، خاص طور سے چند رہائشی کمرے، دارالمطالعہ، دائننگ ہال ومطبخ اور اساتذہ کے فیملی کواٹر س کی سخت ضرورت ہے۔ ہم سہ ماہی پیغام مصطفیٰ کی پوری ٹیم کی جانب سے اہل خیر سے گزارش کرتے ہیں کہ جامعہ نوریہ شام پور کا پوری فیاضی کے ساتھ تعاون کریں اور اس علمی گلشن کو سرسبز وشاداب رکھنے میں اہم کردار ادا کریں۔ایڈیٹر۔
جامعہ سے رابطے کا پتہ نیچے درج ہے:
مولانا احمررضوی
ناظم اعلی جامعہ نوریہ شام پور، پوسٹ ایٹال،تھانہ رائے گنج، ضلع اتر دیناج پور ،بنگال

 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 94772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.