وجوبِ زیارتِ روضۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم-2

تو حقیقت واضح ہونے کے بعد بھی صرف ضد میں کسی بات کونہ ماننا صحیح نہیں ہوتاہے ،اب یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور ائمہ ومحدثین کے نزدیک کسی طرح بھی حجت کے قابل نہیں ہے ۔اس کے بعد صاحب کتاب کی درج کی ہوئی ان تمام روایات کو بیان کیے دیتے ہیں کہ جس میں زیارت قبر انور کے وجوب کو صاحب کتاب نے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔
(۲2) اخبرنا ابو سعید بن ابی عمرو،ناابو عبداللہ الصفار ،نا ابوبکر بن ابی الدنیا، حدثنی سعید بن عثمان جرجانی ،نامحمد بن اسماعیل بن ابی فدیک ، ناابو المثنی سلیمان بن یزید الکعبی ،عن انس بن مالک قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من زارنی بالمدینۃ مستحباً کنت لہ شھیدا و شفیعا یوم القیامۃ''
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری زیارت کی غرض سے مدینہ منورہ کا قصد کیا تو میں اس کا گواہ اور قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا ۔''(بیہقی شعب الایمان ٣:٤٩٠،سبکی شفاء السقام فی زیارت خیر الانام ص٢٨، جرجانی التاریخ١:٢٢٠،٤٣٣،عسقلانی تلخیص الحبیر٢:٢٦٨،الدر المنثور ا:٢٣٧،شوکانی نیل الاوطار ٥:١٧٩)
اس روایت کے حوالے سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں جو ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں ابن السکن نے اسے صحیح قرار دیا ہے انہوں نے اپنی کتاب الصحاح ماثورة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ میں اس کتاب میں نقل کردہ روایات بلاجماع ائمہ حدیث کے نزدیک صحیح قرار دیا ہے ۔
اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ کون سے ائمہ حدیث ہے جنھوں نے ابن السکن کی کتاب کی تمام روایات کو صحیح کہا ہے کیونکہ ہم ذیل میں اس روایت کے حوالے سے کبار محدثین کرام کے اقوال نقل کر رہے ہیں ۔خ
اس روایت میں ایک راوی سلیمان بن یزیدضعیف ہے اور اس روایت کی اور اس راوی کی بابت محدثین کرام نے کیا کلام کیا ہے وہ ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے تمام طرق اپنی کتاب'' تلخیص الحبیر'' میں جمع کر کے فرمایا ہے کہ :
''طرق ھذا الحدیث کلہا ضعیفۃ''
''اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں ۔''(تلخیص الحبیر جلد ٢ص٢٦٧)
امام سیوطی رحمہ اللہ نے'' اللانی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ'' فی میں نقل کیا ہے۔
(جلد ٢ ص ١٠٩ کتاب الحج)
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ''الفواعد المجموعۃ فی الاحادیث موضوعۃ ''میں نقل کیا ہے ۔( ص ١١٧ کتاب الحج رقم ٣٥)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" انہ موضوع لا اصل لہ"یہ روایت موضوع ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔'' ( الفواعد المجوعہ فی الاحادیث موضوعہ ص ١١٧ کتاب الحج رقم ٣٥)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انہ موضوع لا اصل لہ ( الفواعد المجوعہ فی الاحادیث موضوعہ ص ١١٧ کتاب الحج رقم ٣٥)یہ روایت موضو ع ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔''
امام دارقطنی فرماتے ہیں :سیلمان بن زید ضعیف ہے ۔ (تلخیص الحبیر جلد ٢ص ٢٦٧)
ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا یجوز الاحتجاج بہ '' اس سے احتجاج اخذ کرنا درست نہیں ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد ٢ ص١٧٧ترجمة ٣٨٧٥)
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : منکر الحدیث لیس بقوی ۔ "منکر الحدیث ہے اور قوی نہیں ہے (الجرح التعدیل جلد ٤ ص ٢٤١ترجمة ٥٧٦٥)
اس سے ملتی ایک اور روایت اسی سند سے نقل ہوئی ہے جو درج ذیل ہے:
اخبرنا ابو عبداللہ الحافظ ،ناعلی بن عیسی ،نا احمد بن عبدوس بن حمدویہ الصفار النیسابوری،نا ایوب بن الحسن ،نا محمد بن اسماعیل بن ابی فدک ،نا سلیمان بن یزیدالکعبی عن انس بن مالک قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومن مات فی الحد الحرمین بعثہ الہ من الامنین یوم القیامۃ ومن زارنی محستباً الی مدینۃ کان فی جواری یوم القیامۃ۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو دو حرمین (مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرا تو وہ قیامت کے دن ایمان والوں میں اٹھے گااور جس نے میری زیارت کی غرض سے مدینہ منورہ کا قصد کیا تو وہ قیامت کے دن میراپڑوسی ہوگا۔'' (بیہقی شعب الایمان ٤:٣٩٠)

اس روایت میں بھی سلیمان بن یزید ہے جو ضعیف ہے اور اس کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ،اور اسی سلسلے کی تیسری روایت مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے ۔
''اخبرنا ابو عبداللہ الحافظ ،اخبرنی علی بن عمر الحافظ،نا احمد بن حمدالحافظ،حدثنی داؤد بن یحیٰی ،نا احمد بن الحسن الترمذی ،نا عبدالملک بن ابراہیم الجدی ،ناشعبۃ عن سوار بن میمون،نا ھارون بن قذعۃ عن رجل من ال الخطاب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من زارنی متعمدا کان فی جواری یوم القیامۃ ومن سکن المدینۃ و صبر علی بلائھا کنت لہ شھیدا و شفیعا یوم القیامۃومن مات فی الحد الحرمین بعثہ الہ من الامنین یوم القیامۃ''
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میراپڑوسی ہوگا اورجس نے مدینہ میںرہ کر مصیبتوں پر صبر کیا میں اس کاگواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گاجو دو حرمین (مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرا تو وہ قیامت کے دن ایمان والوں میں اٹھے گا۔''
امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان اعتدال میں نقل کیا ہے کہ امام بخار ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' لایتابع علیہ ''اس کی کوئی متابعت نہیںہے ، محدثین نے ھارون بن قذعۃکوضعیف کہاہے ''۔(میزان اعتدال جلد ٢ ص ٢٦٢)
(١) امام العقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولروایۃ فی ھذا لینۃ''اس روایت میں (ھارون بن قذعۃ)ہے جو لین ہے ''۔اور یہ محدثین کی اصطلاح ہے کہ جس سے وہ راوی کے ضعف کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔( الضعفاء العقیلی جلد ٤ ص ١٤٧٧ترجمہ١٩٧٧)
(٢) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الازدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ''ھارون ابو قذعۃ یروی عن رجل ال حاطب المراسیل۔ قلتُ فتعن انہ الذی اراد الازادی و قد ضعفہ ایضا یقوب بن شیبۃ ''
'' حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الازدی فرماتے ہیں کہ ھارون ابو قزعۃ ال حاطب کے شخص سے مراسل روایت کرتا تھا اور ابن حجر فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ الازدی نے جو طعن کیا ہے اس سے ان کا ارادہ اس کے ضعف کی جانب ہے اور اسی طرح یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے ''۔(لسان المیزا ن جلد ٧ ص ٢٣٨)
اس کے علاوہ اس روایت میں ال حاطب کا ایک شخص موجود ہے اور یہ کون ہے اس کا کوئی علم نہیں ہے اور یہ راوی مجھول ہے اس وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اصول حدیث میں ضبط اور اتقان راوی کی بنیا دی شرائط ہیں اور اس روایت میں روای کے بارے میں اس کا کوئی حال موجود نہیں ہے حال تو دور کی بات ہے یہ تک معلوم نہیں ہے کہ راوی کون ہے یہ دو علتیں اس روایت میں موجود ہے ایک یہ کہ اس کا ایک راوی ھارون بن قذعۃ ضعیف ہے اور دوسرے اس کا ایک دوسرا راوی مجھول ہے جس کی وجہ سے بھی روایت محدثین کے نزدیک ضیعف کہلاتی ہے ، اور اسی مفہوم کی ایک اور روایت ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں ۔
''اخبرنا ابوبکربن فورک،ناعبداللہ بن جعفر،نا یونس بن حبیب نا، ابوداؤد نا ،(سوار) بن میمون ابو الجراح العبدی ،حدثنی رجل من ال عمر ،عن عمر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من زار قبر او قال من زارنی کنت لہ شھیدا و شفیعا ومن مات الحرمین بعث من الامنین یوم القیامۃ ''
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری قبرکی زیارت کی میں اس کا گواہ اور شفاعت کروں گا اورجو دو حرمین (مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرا تو وہ قیامت کے دن ایمان والوں میں اٹھے گا۔''
یہ روایت سنن الکبری للبیہقی اور شعب الایمان میں نقل ہوئی ہے اور اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام بہقی سنن الکبری میں فرماتے ہیں کہ'' ھذا اسناد مجھول'' اس کی اسناد مجھول ہے یہ بھی ضعیف حدیث کی قسم ہے کہ جب راوی کا حال معلوم نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔دیکھئے :(امام سخاوی رحمہ اللہ کی فتح المغیث)
اس مفہوم کی ایک اور روایت نقل ہوئی ہے ہم اسے بیان کیے دیتے ہیں ۔
''اخبرنا ابوعبداللہ ،نا ابوعبداللہ اصفاراملاء ،نا محمد بن موسی البصری،نا عبدالملک بن قریب،نا محمد بن مروان عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من عبد یسلم علیَّ عند قبری الاو کل اللہ بہ ملک یبلغنی و کفی امر آخر تہ و دنیاہ کنت لہ شھیدا و شفیعا یوم القیامۃ''
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے میری قبر پر آکر مجھ پر سلام بھیجا اللہ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے کہ وہ یہ سلام مجھ تک پہنچا دے اورجو یہ عمل کرے گا تو یہ اس کے لئے دنیا اور آخرت میں کافی ہوگا اور میں روزِ قیامت اس کا گواہ اور اسکی شفاعت کروں گا''۔ (شعب الایمان۔ایضاً)
اس روایت کا ایک راوی محمد بن مروان ضعیف ہے اور اس کی بابت محدثین فرماتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
'' متھم بالکذب'' "اس پر جھوٹ کا الزام ہے '' (تقریب التھذیب جلد٢ص٥٥١ترجمة٦٥٣٦)
ابن حاتم فرماتے ہیں :
متروک الحدیث '' "وہ متروک الحدیث(من گھڑت روایت بیان )کرنے والا ہے ''۔(تھذیب التھذیب جلد٤ ص ٤١٢)
ابن معین فرماتے ہیں : "لیس بثقۃ'' "وہ ثقہ نہیں ہے ۔'' (ایضاً )
یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں : ضعیف غیر ثقۃ ''وہ ضعیف ہے ثقہ نہیں ہے۔''(ایضاً)
محمد بن صالح فرماتے ہیں :
کان ضعیفا وکان یضع ''وہ ضعیف ہے اور حدیث گھڑنے والا ہے ''۔(ایضاً)
اس روایت میں الاعمش ہے مدلس ہے اور صیغہ عن سے روایت کر رہا اس لئے بھی یہ روایت قابل قبول نہیں ہے اور محدثین کرام نے الاعمش کی تدلیس پر کڑی تنقید کی ہے ۔
امام نووی شرح مسلم میں نقل کرتے ہیں کہ:
'' والاعمش مدلس والمدلس اذا قال عن لا یحتج بہ الا اذا ثبت سماعہ من جھۃ اخری''( شرح صحیح مسلم جلد1۱ ص7۷۲2 تحت ح۱۰۹109)
'' اور الاعمش مدلس ہے اور مدلس روای جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر اگر وہ کسی دوسری (صحیح )سند سے ثابت ہو''۔
(١) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ الاعمش پانچوئے درجے کا مدلس ہے ۔(تقریب تھذیب جلد۱1 ص2۲۲۹29 )
(٢) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں الاعمش کا ابو صالح سے سمع ثابت نہیں ہے۔(تھذیب التھذیب جلد۶3 ص50۵۰۹6-۵۰۶)
(٣) سفیان فرماتے ہیں الاعمش کو ابو صالح سے سمع نہیں ہے ۔ ( الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم جلد 1۱ص۱۰۴4کتاب المقدمہ)
(٤) ابن القطان فرماتے ہیں یہ لازمی نہیں ہے کہ اگر روای ثقات ہوں تو روایت صحیح ہو گی جیسا کہ الاعمش ہے مدلس روای ہے۔( التلخیص الحبیر جلد۳3ص4۴۸8)
یہاں ابن القطان نے یہ بات واضح کر دی کے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر روای کو ثقہ کہا جائے تو روایت صحیح ہو گی اور انھوں نے اس کی تردید کے لئے الاعمش ہی کی مثال پیش کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الاعمش کی تدلس پر محدثین نے کڑی جرح کی ہے اسی لئے الاعمش کی وجہ سے بھی یہ روایت بھی قابل قبول نہیں ہے۔
یہ روایت بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے اور کسی طرح حجت کے قابل نہیں ہے اور اب ہم اسی مفہوم کی آخری روایت بھی درج کررہے ہیںاور اس کی علت بھی بیان کریں گے
''حدثنا عبدان بن احمد ثنا عبداللہ بن محمدالعبادی البصری ثنا مسلم بن سالم الجھنی حدثنی عبیداللہ بن عمر ، عن نافع عن سالم عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من جاء نی زائر لا یعملہ حاجة الا زیارة کان حقا علی ان اکون لہ شفیعا یوم القیامۃ'' (المعجم الکبیر رقم139)
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوصرف میری زیارت کی غرض سے (مدینہ منورہ)آیا تو مجھ پر اس کا یہ حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروںاوراس کا گواہ بنوں۔''
اس روایت میں ایک راوی مسلم بن سالم ضعیف ہے اور اس کی بابت محدثین نے کلام کیا ہے ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ضعیف ( تقریب تھذیب جلد٢ص٥٨١ترجمة ٧٩٠٠)
امام ابوداؤد فرماتے ہیں: لیس بثقہ (وہ ثقہ نہیں ہے )(ایضاً)
امام ہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
'' مسلمۃ بن سالم وھو ضعیف'' (مجمع الزوائد کتاب الحج جلد ر٢رقم٥٨٤١ )( ٢/٤)
'' اس روایت میں مسلم بن سالم ہے اور وہ ضعیف ہے ۔''
ان روایا ت کو بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کاضعف کس قدر شدید ہے اور کسی طرح بھی یہ روایت محدثین کے نذدیک قابل قبول نہیں ہیں اور کسی طرح بھی حجت کے قابل نہیں ہیں اب اس بارے میں ایک اور روایت آپ کے سامنے بیان کررہے ہیں اور اس کے تمام طرق بھی آپ کے سامنے بیان کریں گے اوران میں ضعف کس قدر شدید ہے اس کا اندازہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں
(۳3)من حج فزار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی''
'' جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی وہ اس کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔''(طبرانی المعجم ١٢:٣١٠،اوسط،٤:٢٢٣،بہقی سنن الکبری ،٥:٢٤٦،شعب الایمان ،٣:٤٨٩)

اس روایت کو مختلف احادیث کی کتب میں نقل کیا گیا ہے اگر ہم ان کتب میں روایت کو دیکھیں تو ان ائمہ حدیث نے بھی اپنی کتب میں ان احادیث کو نقل کر کے ان پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اور اس کے روایوں کو ضعیف کہا ہے پہلے ہم اس روایت کی سند کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد محدثین کی اس روایت پر جرح نقل کرتے ہیں یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ چند الفاظ کی کم وبیش کے ساتھ نقل ہوئی ہے :
''حدثناالحسین بن اسحاق التستری ثناابو الربیع الزھرانی ثنا حفص بن ابی داؤد عن لیث عن مجاھد عن ابن عمرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حج فزار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی ''(المعجم الکبیر رقم1۱۳۴۹۷3497)
(١) امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو شعب الایمان اور سنن الکبری میں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں اس کا ایک راوی حفص بن ابی داؤد ضعیف ہے۔(شعب الایمان ٣:٤٨٩رقم٤١٥٤، السنن الکبری للبیہقی کتاب الحج رقم ١٠٢٧٩)
(٢) امام دارقطنی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا حفص بن ابی داؤد ضعیف ہے ۔(سنن دارقطنی ٢/٤۔ شعب الایمان 489۴۸۹/۳ 3، رقم 41۴۱۵۴54)
اوراب یہ دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام نے حفص بن ابی داؤد کے بارے میں کیا فرمایا ہے ۔
(١) امام دارمی اورابن معین: لیس بثقۃ (تھذیب التھذیب جلد ٢ ص٣٦٦۔٣٦٥) ( تمام اقوال اسی حوالے کے تحت درج ہیں )
(٢) ابن المدینی فرماتے ہیں ضعیف الحدیث۔
(٣) امام بخاری فرماتے ہیں اس سے روایت نہ لو۔
(٤) امام مسلم فرماتے ہیں متروک ہے ۔
(٥) امام نسائی فرماتے ہیں متروک الحدیث ۔
(٦) ابوزرعہ فرماتے ہیں ضیعف الحدیث ۔
(٧) ابن خراش متروک الحدیث وہ حدیث گھڑا کرتا تھا ۔
(٨) امام ابن حاتم فرماتے ہیں متروک الحدیث ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں فرماتے ہیں: '' اوردلہ البخاری فی '' الضعفاء '' حدیثہ عن لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن ابی عمر فی الزیارۃ"
''حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ امام بخاری اس سے (حفص بن ابی داؤد ) لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن ابن عمر کی سند سے زیارت کے مطالق تمام روایات کو اپنی کتاب الضعفاء میں نقل کیا ہے۔ (تھذیب التھذیب جلد ٢ ص ٣٦٦۔٣٦٥)
اس روایت میں لیث بن سلیم ہے جو ضعیف ہے اور جس پر محدثین کرام کا کلام ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں ۔
(١)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :صدوق اختلط جدا و لم یتمیز حدثہ فترک' "سچا تھا مگر اسے اخلاط ہوگیا تھا اور حدیث میں تمیز نہیں کرتا تھا اس لئے اس کی روایت چھوڑدو۔ ( تقریب التھذیب جلد ٢ ص ٤١٧)
(٢) ابو زرعہ فرماتے ہیں : لیث لین الحدیث لا تعوم بہ الحجة عن ا ھل العلم بالحدیث"لیث لین الحدیث ہے اور اہل علم کی جماعت نے اس سے حدیث سے حجت نہیں لی ہے ''۔ ( تمام اقوال اسی حوالے کے تحت درج ہیں ) (تھذیب التھذیب جلد ٦ ص ٦١٣)
(٣) ابن معین فرماتے ہیں : منکر الحدیث
(٤) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: مضطرب الحدیث (یہ روایت میں گڑبڑ کیا کرتا تھا)
(٥)ابن قطان فرماتے ہیں : لا یحدث عنہ ( اس سے حدیث نہ بیان کی جائے )
(٦) ابن سعد فرماتے ہیں : کان رجلا صالحا عابدا و کان ضعیفا فیالحدیث (وہ نیک اور عابد تھا مگر حدیث میں ضعیف تھا )
نوٹ :(کسی راوی کا عبد ہونا اور نیک ہونا اس کے ثقہ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے اس کے اور بھی بہت سارے معیارات ہیں تفصیل کے لئے الشیخ محمد حسین میمن کی کتاب اصول مبادی پر تحقیقی نظر مع دفاع اصول محدثین)
یہ اس روایت کا پہلا طرق ہے جس میں دو راوی ضعیف ہیں اور جس کی وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں ہے ا ور اس کے بعد ہم اس روایت کے دوسرے طرق کے بارے میں کلام کرتے ہیں ۔
اس روایت کو ایک دوسرے طرق سے بھی بیان کیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے اس سے ماقبل بیان کیا ہے کہ یہ روایت تین اسناد سے نقل ہوئی ہے اب ہم اس کی دوسری سند کو نقل کر تے ہیں اور اس کے بعد محدثین کرام کی اس روایت کے راویوں پر جرح نقل کریں گے ۔
حدثنا احمد بن رشدین ثنا علی بن الحسن بن ھارون الانصاری قال حدثنی اللیث بن بنت اللیث بن ابی سلیم قال حدثنی جدتی عائشہ بن یونس امراۃ عن لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن ابن عمر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من زار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی۔(المعجم الاوسط جلد ١رقم٢٨٧)
اس روایت کی اس سند محدثین کرام نے کیا کلام کیا ہے اس کو ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں ۔
(١) اس روایت کی سند میں ایک راوی احمد بن رشدین ہے جس پر محدثین کرام نے ضعیف کا حکم لگایا ہے ۔
(۲) ابن معین فرماتے ہیں لیس بشئی (تھذیب التھذیب جلد ٣ ص ١٠٣) ( تمام اقوال اسی حوالے کے تحت درج ہیں )
(۳)ابو حاتم فرماتے ہیں : منکر الحدیث ویحدث بالمناکیر عن الثقات ضعیف الحدیث ( منکر الحدیث ہے اور وہ ثقہ راویوں سے منسوب کرکے روایات بیان کرتا ہے )
(۴) جوزقانی فرماتے ہیں : مناکیرہ کثیعۃ ( اس نے کثیر منکر روایات بیان کی ہیں ۔)
(۵)امام نسائی فرماتے ہیں :ضعیف الحدیث لایکتب حدیثہ ( اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی)
(۶ )ابن سعد فرماتے ہیں : کان ضعیفاً(وہ ضعیف ہے )
(۷) امام دار قطنی فرماتے ہیں : ضعیف الحدیث
(۸) امام ابوداؤد فرماتے ہیں : ضعیف الحدیث
یہ اس روایت کے پہلے راوی کا حال ہے اس کے بعد اس کے ایک اور راوی علی بن الحسن بن ھارون انصاری کا حال ہمیں نہیں ملا جیسا کہ مجم الاوسط کے محقق نے بھی اسی بات کو بیان کیا ہے ۔
اس روایت میں اللیث بنت ابی سلیم مجھول ہے اور عائشہ بنت یونس بھی مجھول ہے اور اس بات کو اما م ہیثمی نے بیان کیا ہے کہ''عائشۃ بنت یونس و لم اجد من ترجمھا''''عائشہ بن یونس کا حال میں نے نہیں پایا۔''(مجمع الزوائد٢/٤) اور یہی بات امام طبرانی نے اپنی اوسط میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہی ہے کہ :
''لا یروی ھذین الحدیثین عن لیث الا بھذا الاسناد تفردبھما ۔ان دونوں روایات کو صرف لیث کے طریقے روایت کیا یہ دونوں (لیث بنت سلیم اور عائشہ بنت یونس ) اس روایت میں منفرد ہیں ۔ ( المجعم الاوسط جلد ١ ص ٩٥رقم ٢٨٨۔٢٨٧)''
امام طبرانی کی اس قول سے مراد یہی ہے کہ ان دونوں راویوں کو اس روایت کے علاوہ اور کسی بھی روایت میں پایا نہیں گیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں مجھول راوی ہیں ۔یہ روایت بھی کسی طرح حجت کے قابل نہیں ہوسکتی ہے اس کی تو تمام سند ہی علتوں سے بھری ہوئی ہے اوریہ بات بھی یاد رہے کہ اس میں لیث بن ابی سلیم بھی موجود ہے وہ بھی ضعیف راوی ہے جس کا تذکرہ ہم نے پہلی روایت کے حوالے سے کیا تھا۔
اب اس روایت کی تیسری سند کو ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں اور اس کے بعد اس کی علت بھی واضح کریں گے ۔
یہ روایت ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ:
''حدثنا ،ابوعبیدوالقاضی ابو عبداللہ وابن مخلدقالوا، نامحمد الوالید البسری ، نا وکیع ،نا خالد بن ابی خالد و ابو عون، عن الشعبی والاسود بن میمون عن ھارون بن قذعۃ ،عن رجل آل حاطب عن حاطب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من زار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی ومن مات بآصحد الحرمین بعث من الامنین یوم القیامۃ ''
'' جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی وہ اس کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو دو حرموں (مکۃالمکرمہ اور مدینۃ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرا وہ قیامت کے دن ایمان والوںمیں اٹھایا جائے گا''۔ (دار قطنی جلد٢ص٢٧٧)
اس روایت کے بارے میں امام ذہبی نے میزان اعتدال میں نقل کیا ہے کہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ '' لایتابع علیہ '' ''اسکی کوئی متابعت نہیںہے ۔(میزان اعتدال جلد ٢ ص ٢٦٢) ھارون بن قذعۃ کو محدثین کرام نے ضیعف کہا ہے۔
(١) امام العقیلی فرماتے ہیں :ولروایۃ فی ھذا لینۃ( الضعفاء العقیلی جلد٤ ص ١٤٧٧ترجمہ١٩٧٧) ''اس روایت میں (ھارون بن قذعۃ)ہے جو لین ہے اور یہ محدثین کی اصطلاح ہے کہ جس سے وہ راوی کے ضعف کی جانب اشارہ کرتے ہیں ،اورحافظ ابن حجر کے حوالے سے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ یہ روای ضعیف ہے۔ اور اس روایت میں وکیع نامی روای کی ابو عون سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔( ارواء الغلیل جلد ٤ ص ٣٣٥رقم ١١٢٧) اور اس روایت میں ال حاطب کا کون شخص ہے اس کا کوئی پتا نہیں ہے تو یہ اس میں ایک اور علت ہے کہ اس کاایک راوی مجھول ہے اس لئے یہ روایت بھی تین علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
یہ تمام علتیںان روایات میں موجود ہیں اس کی پہلی سند میں لیث ضعیف ہے اور حفص بن ابی داؤد متروک الحدیث ہے اور دوسرا طرق متروک الحدیث اور مجھول راویوں سے بھرا ہے جس کی وجہ سے دوسری سند بھی شدید ضعیف ہے اور اس کی تیسری سند میں ایک راوی ضعیف اوردو مجھول ہیں اور یہ سند بھی ضعیف ہے یہ روایت تمام طرق سے ضعیف ہے اور بعض میں شدید ضعف ہے ۔اور کسی طرح بھی حجت کے قابل نہیں ہے جبکہ اس روایت کا متن بھی حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ٹکراتا محسوس ہوتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان کی زیارت کرنے والے صحابہ کرام تھے اور اس روایت میں بتایا جارہا ہے کہ میری قبر کی زیارت کرنے والا ایسا ہے جس نے میری حیات مبارکہ میں میری زیارت کی گویا کہ وہ صحابہ کرام کے برابر ہو گیا اور یہ بات ایک صحیح روایت کے خلاف ہے کہ:'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میری صحابہ کے برابر نہیں ہوسکتے اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ) میں خرچ کرو گے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ہے (بخاری کتاب الفضائل )اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی موضوع ہے اور اس کا متن بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قطعی فرمان سے ٹکراتا ہے ۔
اب ہم اس سلسلے کی آخری روایت کی جانب چلتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا فرمایا ہے کہ ہرچند کہ اس روایت کے بعض رواة مجروح ہیں مگر دیگر احادیث معناً اس کی تصدیق کرتی ہیں جس کی وجہ سے فضائل کے باب میں یہ روایت قبولیت کے درجے پر پہنچ جاتی ہے ذیل میں ہم اس روایت کو بھی بیا ن کریں گے اور فضائل کے بارے میں روایت کو بیان کرنے کے موقف کو بھی واضح کریں گے۔
وقال ابن عدی :حدثنا علی بن اسحاق، حدثنا محمدبن النعمان بن شبل حدثنی جدی ،حدثنی مالک، عن نافع،عن ابن عمر من حج ولم یزرنی فقد جفانی''
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو یقیناً اس نے مجھ سے جفا کی''۔
اس روایت کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی الموضوعات میں نقل کیا ہے ۔(ص٦٠٠)
امام صغانی رحمہ اللہ نے اپنی الموضوعات للصغانی میں نقل کیا ہے ۔(ص٥٢)
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے ۔(الفوائد المجموعۃ لشوکانی ص٣٢٦)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں اس روایت کو موضوع کہا ہے۔ (میزان الاعتدال جلد ٤ص٢٤٤ترجمة٩٥٩١)
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے۔
(الموضوعات ابن جوزی جلد ٢ ص ١٢٨ باب ان المدینہ فتحت بالقرآن)
امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب ذیل الاحادیث الموضوعۃ میں نقل کیا ہے۔
(الفوائد المجموعة للشوکانی ص٣٢٦) یہ کتاب موضوع اور ضعیف روایات کا مجموعہ ہے۔
امام الدارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ''الطعن فی ھذا الحدیث من محمد بن محمد النعمان''
'' اس روایت میں محمد بن محمد نعمان ہے جو روایت کا عیب تصور کیا جاتا ہے ۔''
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" یاتی النعمان عن الثقات بالطامات''
''نعمان ثقات روایوں کی طرف منسوب کر کے متن میں بگاڑ پیدا کیا کرتا تھا۔''
امام الزرکشی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوعات میں نقل کیا ہے ۔(سلسلہ احادیث ضعیفہ البانی رقم ٤٧)
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے '' الضعفاء '' میں فرماتے ہیں : ''النعمان بن شبل البصری کان متھما''
"نعمان بن شبل متھم ہے۔(ضعفاء الرجال جلد ٨ص ٢٤٨ ترجمة١٩٥٦)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:واما محمد بن محمد فلم یدرک مالکً'' محمد بن محمد نے مالک کو نہیں پایا ہے ''۔(لسان میزان جلد ٦ص ٢٨٧ ترجمة ٨٠٢٩)
امام عجلونی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب کشف الخفاء میں نقل کیا ہے۔ ( جلد ٢ ص ٢١٧ رقم ٢٤٥٨) کشف الخفاء میںامام عجلونی رحمہ اللہ نے ان روایا ت کو جمع کیا ہے جو موضوع اور ضعیف ہیں ۔
اس روایت کو محدثین کرام نے فقط موضوعات میں جگہ دی ہے جس کو قائیلین وجوب زیارت فضائل کے باب میں قبولیت کے درجے تک پہنچا رہے ہیں اب ہم ان کے اس موقف کی وضاحت کیے دیتے ہیں کہ ائمہ محدثین نے فضائل کے باب میں کن شرائط کے ساتھ روایات کو قبول کیا ہے جس پر عمل کیا جاسکتا ہے اور یہ روایت ان شرائط پر پوری ہی نہیں اترتی ہے ۔
ضعیف احادیث پر عمل کے سلسلے میں اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ فضائل اعمال میں ان پر عمل کریں تو اس کے لئے کئی شرائط ہیں ذیل میں ہم اسے مختصر بیان کیے دیتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔
(١) اس روایت میں راوی کا ضعف شدید نہ ہویعنی کذاب ،دجال، متھم بالکذب وغیرہ نہ ہو۔
(٢) وہ حدیث کسی معمول بہ اورثابت شدہ اصل کے ضمن میں آتی ہو ۔
(٣) عمل کرتے ہوئے اس کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کی نیت سے عمل کیا جائے یعنی اسکی فضیلت کو سنت نہ سمجھے۔
(٤) کسی صحیح حدیث کے معارض نہ ہو۔(تفصیل کے لئے دیکھئے الکفایۃ فی علم الروایہ فتح المغیث الاحکام فی اصول احکام)
تاہم امت کے کبار محقق علماء اور محدثین کا مؤقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر نہ تو احکام میں عمل جائز ہے اور نہ ہی فضائل اعمال میں ان عظیم المرتبت اہل علم میں امام یحییٰ بن معین ،امام بخاری ، امام مسلم، امام ابن العربی امام ابن حزم امام ابوسامہ مقدسی، امام ابن تیمیہ، امام شاطبی ،علامہ شوکانی اور خطیب بغدادی قابل ذکر ہیں ۔ ( دیکھئے ضیعف حدیث کی معرفت،از غاری عزیر ص ١٤٨)
یہ وہ شرائط ہیں جو ایک ضعیف حدیث کو فضائل کے باب میں قبولیت تک پہنچاتی ہیں مگر یہ روایت ان شرائط کو چھو کر بھی نہیں گزرتی ہے قبولیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ روایت کا ضعف شدید نہ ہو مگر یہ روایت تو ضعیف نہیں ہے بلکہ موضوع ہے اس لیے یہ پہلی شرط پر ہی پوری نہیں اترتی ہے اور اس کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ وہ حدیث کسی معمول کے عمل اور ایسی حدیث کے ضمن میں ہو جو صحیح سند سے ثابت ہو اور یہ روایت صحیح تو دورکی بات کسی ایسی سند سے بھی نقل نہیں ہوئی ہے جسکا ضعف معمولی ہوبلکہ یہ روایت موضوع(من گھڑت) ہے اور اسلئے یہ روایت دوسری شرط پر بھی پوری نہیں اترتی ہے جب یہ روایت دونوں شرائط پوری نہیں کرتی ہے تو تیسری اور چوتھی شرط کا امکان ازخود ختم ہو جاتا ہے مگر جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا ہے کہ فضائل کے باب میں قبولیت کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اور کسی ضعیف حدیث پر فضائل کے باب میں عمل کر نے کے پر کبار محققین و محدثین کا مؤقف یہی رہا ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے اور ہم نے ان محققین و محدثین میں سے چند کے نام آ پ کے سامنے پیش کر دیئے ہیں جن میں امام بخاری اور امام مسلم بڑی اہمیت کے حامل ہیں ان محققین نے فضائل کے باب میں بھی روایت بیان کرنے سے منع کیا ہے اور یہی قول رائج ہے کہ ضیعف روایات پر فضائل میں بھی عمل نہ کیا جائے چنانچہ جو اس کے جواز کے قائل ہیں انھوں نے بھی اس کے لئے ایسی کڑی شرائط رکھی ہے جیسا ہم نے اوپر بیان کی ہیں جس کی وجہ سے مشکل ہے کہ کوئی روایت ان شرائط پر پوری اترتی ہو اس لئے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے جیسا کہ تیسری شرط میں بیان ہوا ہے کہ اس پر سنت کا عقیدہ رکھ کر نہیں بلکہ احتیاط کے طور پر عمل کیا جائے ۔
یہ وہ شرائط اور ان کی تفصیل ہے جس کی بنا پر اس روایت کو قبولیت کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے مگر جیسا ہم نے بیان کیا ہے کہ رائج قول یہی ہے کہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل نہ کیا جائے اور کبار محقق و محدثین کا یہی قول ہے مگر یہ روایت توضعیف بھی نہیں ہے بلکہ موضوع ہے ا ور محدثین کرام نے اس روایت کو صرف موضوع میں جگہ دی ہے اور فضائل میں محدثین کرام نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہے کہ معناً دوسری روایات سے اگر روایت کی تصدیق ہوگی تو روایت فضائل میں قبول کر لی جائے گی یہ اصول صاحب کتاب نے کہاں سے اخذ کیا ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں یا یہ ان کی کم علمی کی ایک اور علامت ہے جیسا کہ وہ اوپر بھی کشف الخفاء کا حوالے دے کر ظاہر کر چکے ہیں ایسی کوئی شرط محدثین کرام نے نہیں بیان کی ہے چنانچہ اس روایت کو محدثین کرام نے موضوع قرار دیا ہے اور یہ روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔
امام سبکی کی کتاب (شفاء) کا بڑا مفصل اور تحقیق پر مبنی جواب ان روایات کے حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے شاگرد عبدالھادی نے اپنی کتاب صارم المنکی میں دیا ہے ۔یہ وہ تمام روایات ہیں جو وجوب زیارت روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کی جاتی ہیں ان روایات کے تمام طرق ہم نے بیان کر دیئے ہیں اور ان کے روایوں کا حال بھی آپ کے سامنے بیان کر دیا ہے ان روایات کا حال ہے کہ کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر محدثین کرام نے یہ فرمایا ہو یہ روایت ان روایات کی تصدیق کرتی ہے اور اس روایت کو حسن کا درجہ مل جاتا ہے کسی ایک محدث نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے کہ اس کے تمام طرق جمع کیے جائیں تو یہ روایت حسن درجے کو پہنچ جا تی ہے حالانکہ امام سبکی صرف وجبت لہ شفاعتی اس روایت کو حسن درجے کی فرمارہے اور اس روایت کے تمام طرق کا حال ہم نے بیان کر دیا ہے جو اس قابل بھی نہیں کہ اسے حسن کہا جائے جس میں روایوں کا یہ حال ہے کہ منکر الحدیث سے کم نہیں ہیں ایسی روایت کس اصول کے تحت حسن ہے یہ ہمارے علم کی پہنچ سے باہر ہے اور کون سے اصولوں سے حسن درجے تک پہنچتی ہے جبکہ ہم نے اس بارے میں محدثین کے اصول اوپربیان کر دیئے ہیں اس روایت کو محدثین کرام نے ضعیف کہا اور بعض نے موضوع کا حکم بھی لگایا ہے تو ہم کس کی بات کا اعتبار کریں اس کا جو بے دلیل دی جارہی ہے یا اس بات کا جس پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ وجوب زیارت کے بارے میں تمام روایات ضعیف ہیں اور بعض کا ضعف بعض سے انتہائی شدید ہے یہ تمام حقائق ہم نے آپ کے سامنے پیش کر دیئے ۔ اب ہم اسی حوالے سے اہل علم کا موقف بھی آپ کے سامنے بیان کیے دیتے ہیں ۔
وجوب زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم کا موقف:
علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ:
ابن ھمام فرماتے ہیں : ہمارے مشائخ نے کہا کہ زیارت روضہ اطہر علی صاحبھا الصلاة السلام بلند درجہ مستحب عمل ہے ۔(ابن ھمام فتح القدر ٣:١٧٩)
ابن قدامہ رحمہ اللہ:
ابن قدامہ فرماتے ہیں : حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور اور آپ کے دونوں صحابہ کرام کی مبارک قبروں کی زیارت مستحب ہے۔(المغنی٣:٢٩٧)
شیخ الااسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس امر (یعنی وجو ب زیارت) میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ واجب نہیں ہے ،بلکہ یہ مستحب (بہت اچھا )عمل ہے۔ (قاعدہ الجلیةص٥٧)
نوٹ:(حج پر جاکر مدینے میں چالیس نمازیں پڑھنے کا ثبوت بھی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے)
کلام آخر: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کس مسلمان کے دل میں نہیں ہوگی یہ ایک مستحب عمل ہے مگر اس کو بعض ضعیف روایات کے بنا پر واجب قراردینا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کو محبت و عقیدت ہے اور اسی بنا پر وہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرحاضری دیتے ہیں اور صحابہ کرام تابعین و ائمہ محدثین بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کی بنا پر ہی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے تھے اور ان کے نذدیک یہ ایک مستحب عمل ہی کے طور پر رائج ہے اللہ ہم سب کو حج کی سعادت اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے ۔(آمین)

نوٹ: حج پر جاکر مدینے میں چالیس رکعت پڑھنے کا ثبوت کسی صحیح حدیث ثابت نہیں ۔
وما علینا الا البلاغ
یہ مضمون ادارہ تحفظ حدیث کی ویب سائٹ سے منتقل کیا گیا ہے۔
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 87479 views A simple and religious man.. View More