آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے انتخابات برائے سال 2021-22ء

آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے انتخابات برائے سال 2021-22ء
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ادیبوں، شاعروں، دانشوروں،مصوروں،فنکاروں کی آماجگاہ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی علمی، ادبی، ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک معروف مرکز اور ایک معتبر ادارے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہونے والی عالمی اردو کانفرنسیں ادیبوں اور دانشوروں کو ایسی ادبی توانائی فراہم کررہی ہیں جس کا احساس وہ سال بھر محسوس کرتے ہیں۔ بعض بعض ادبی شخصیات جو ان کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے اور اب اس دنیا میں نہیں، کانفرنسوں نے انہیں امر کردیا ہے۔چند نام ذہن میں آرہے ہیں جیسے انتظار حسین،بجیا،ڈاکٹر آصف فرخی، ڈاکٹر طاہرتونسوی جنہیں ان کانفرنسوں میں دیکھا اور وہ ب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ آرٹس کونسل کے انتظامی امور کی نگرانی کے لیے ایک مجلس ِ منتظمہ تشکیل پاتی ہے جس کا انتخاب ہر دوسال بعد کیا جاتا ہے۔دسمبر2020کونسل کے انتخابات کا سال ہے اور 20دسمبر کو انتخابات کا شیڈول اعلان ہوچکاہے۔ کمشنر کراچی کی نگرانی میں کونسل تشکیل پاتی ہے، وہ انتخابات کا اعلان کرتے ہیں، جنرل باڈی میٹنگ بھی کمشنر کراچی کے صدارت میں ہوتی ہے۔ اتفاق ہے کہ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے کونسل کے انتخابات کا اعلان کردیا،وہ کمشنر کراچی ہونے کے ساتھ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے،اسی دوران سندھ حکومت نے انہیں دونوں عہدوں سے فارغ کردیا۔ نئے کمشنر کراچی تعینات کیے جا چکے۔ جنر ل باڈی کا اجلاس جس میں اپنا دورانیہ مکمل کرنے والی منتظمہ دو سالہ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق جنرل باڈی کا اجلاس کونسل کے صدر کی ہی صدارت میں منعقد ہوا جس میں منتظمہ کی جانب سے اپنی دو سال کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ کارکردگی پر اطمینان اور اخراجات کی منظور دے دی گئی۔ دی بھی جانی چاہیے تھے اس لیے کہ اخراجات کرنے والے بھی وہی، اخراجات کی منظوری دینے والے بھی وہی۔ یعنی کی قبلہ محمد احمد شاہ صاحب نے دو سالوں میں جو کچھ کیا اجلاس میں اسے سراہا گیا، تعریف و توصیف بھی ہوئی۔دوسرے مرحلے کے لیے کونسل کے انتخابات 2022-2021کے لیے دو پینل میدان میں ہیں۔دونوں پینلوں کے امیدواروں کی حتمی فہرست کونسل کے چیف الیکشن کمشنر کیمپ آفس سے جاری کردی گئی۔ امیدواروں کی فہرستوں کے مطابق اس بار بھی دو پینل مدِ مقابل ہیں ایک ”احمد شاہ اعجاز فاروقی پینل“ اور دوسرا ”دی آرٹس فورم پینل“۔دونون پینلوں کے امیدوار کراچی کی معروف ادبی و ثقافتی شخصیات ہیں۔ ان شخصیات کے نام درج ذیل ہیں:
احمد شاہ اعجاز فاروقی پینل
محمد احمد شاہ۔ صدر، اعجاز فاروقی۔ سیکریٹری، حسینہ معین۔نائب صدر، سید اسجد حسین بخاری۔ جوائینٹ سیکریٹری، ڈاکٹر ہمامیر۔خازن۔ جب کہ گورننگ باڈی کی 12نشستوں کے لیے ڈاکٹر امبر ین حسیب عنبر، نصرت حارث، محمد اقبال لطیف، سید سعادت علی جعفری، کاشف گرامی، محمد ایوب شیخ، نور الہدیٰ شاہ، طلعت حسین، منور سعید، ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد، قدسیہ اکبر، محمد بشیر خان سدوزئی شامل ہیں۔
دی آرٹس فورم پینل
نجم الدین شیخ۔صدر، مبشر میر۔ سیکریٹری، کرنل (ر) مختیار بٹ۔ نائب صدر، قندیل جعفری۔ جوائنٹ سیکریٹری اور سید ابن الحسن۔ خازن کے امیدوارہیں۔ گورننگ باڈ ی کے لیے نسیم انجم، سید عبدا لباسط، ڈاکٹر جاوید منظر، ڈاکٹر عین الرضا، تحسیم الحق حقی، یاسمین چوہدری، آصف مسعود، سید تسنیم احمد شاہ، منصور زبیری، نعیم طاہر، واحد بخش لاشاری، عظیم حیدر سید شامل ہیں۔
انتخابات
مَیں آرٹس کونسل آف پاکستان کا رکن نہیں، لیکن کئی سالوں سے کونسل کے پروگراموں خاص طور پر ادبی کانفرنسوں میں ایک سامع کی حیثیت سے شرکت کرتا رہا ہوں۔ ممبر بننے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ کونسل کی رکنیت کے لیے سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ممبر شپ کے لیے سفارش کا قائل نہیں۔ تیسری وابستگی ہر سال منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس ہے جس میں مَیں کئی سالوں سے شرکت کررہا ہوں۔کئی کانفرنسوں کے بارے میں کالم بھی لکھتا رہا ہوں۔ یعنی کہ میراجو مقصد تھا وہ بغیر ممبر بنے پورا ہورہا تھا اس لیے اس جانب توجہ بھی نہیں دی۔ کانفرنسوں میں شرکت سے کئی ادبی فائدے ہوئے،،متعدد کالم کانفرنسوں میں شرکت کی وجہ سے ہی تحریر کیے، ادبی شخصیات سے ملاقات یا انہیں دیکھ لینے کی سعادت ملی۔سابقہ سال یعنی 12ویں عالمی اردو کانفرنس میں مَیں نے بھر پور شرکت کی تھی بلکہ اس کانفرنس کی کہا نی بعنوان ”بارہویں عالمی اردو کانفرنس 2019ء“ کے عنوان سے قلم بند کی جو میرے کالموں کے مجموعے ”کالم نگری“ میں شامل ہے۔ اس سے قبل بھی میں ایسا کرتا رہا ہوں۔ رواں سال یعنی دسمبر2020ء کی کانفرنس میں شرکت کووڈ19کی وجہ سے نہیں ہوسکی۔ اس لیے کہ فروری سے احتیاط اور خود کو قرنطین کیا ہوا تھا، بہت ہی ضروری ہو تا ہے تو کہیں چلا جاتا ہوں بصورت دیگر نہ کسی کا مہمان بنتا ہوں، نہ ہی کسی کو دعوت دیتا ہوں۔ موت کا وقت مقرر ہے اس پر مکمل یقین لیکن احتیاط اپنی جگہ ضروری ہے۔ عمر کے جس حصے میں ہوں وہ مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں مجمع میں جاؤں، احباب سے ملاقاتیں کروں، چاہے ایس او پیز پر عمل ہی کیوں نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے رواں سال کی کانفرنس کے مختلف سیشنز ویڈیو لنک پر ہی دیکھتا رہا، اسی بنیاد پراس پر بھی کالم تحریر کیا جس کا عنوان ہے”اردو کی13ویں عالمی کانفرنس تشنگی کا احساس لیے اختتام کو پہنچی“ یہ کالم ہماری ویب، ہم سب، ہم سماج، سلسلہ ادبی فورم اور دیگر ویب سائٹس پر موجودہے۔ اس کالم میں چند باتوں کی جانب توجہ مبزول کرائی تھی وہ یہاں نقل کررہا ہوں
”خیال یہی تھا کہ کوڈ19کے باعث انتظامیہ کانفرنس کو آگے بڑھا دے گی۔ لیکن منتظمہ ’کورونا‘کوخاطر میں نہ لائی اور اردو کی13ویں عالمی کانفرنس طے شدہ دنوں (3دسمبر تا6دسمبر)منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس فیصلہ پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی۔آرٹس کونسل کے روح رواں محمداحمد شاہ صاحب ان کاعہدہ کچھ بھی ہو لیکن وہ گزشتہ کئی سالوں سے کونسل کا بوجھ کامیابی سے اٹھائے ہوئے ہیں۔ افتتاحی اجلاس میں ان کا فرمانا تھا کہ ”وہ 13سال قبل شروع ہونے والی روایت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے“۔ روایات زندہ رہیں اچھی بات ہے لیکن روایت پھر روایت ہوتی ہے، برقرار رہیں تو مناسب اگر نامساعد حالات اور خوف کی فضاء کی وجہ سے برقرار نہ بھی رہیں تو کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ کانفرنس سے جڑی بعض روایات بھی ہیں جونامساعد حالات کے باوجود قائم رہیں تو اچھا ہوگا۔ ایس او پیز پر سختی سے عمل ہوا،یہ بھی اچھی بات رہی،سرکار کی چاہت ہو تو تمام پابندیاں ہوا ہوجاتی ہیں۔ کانفرنس میں بشمول بھارت کئی ممالک سے اردو کے متوالوں کی ویڈیو لنک پر شرکت نظر آئی، باہر سے آنے والوں نے بہادری کا ثبوت دیا، وہ قابل ستائش ہے، ہم جیسے شہر کراچی کے باسی ہونے کے باجود بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ہم کانفرنس میں شرکت کی سابقہ روایت کوبرقرار رکھیں، بس حسرت بھری اور للچائی ہوئی نظروں سے آرٹس کونسل کے فیس بک پیج پر پروگرام دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے رہے اگر زندگی رہی تو آئندہ اپنے اس عمل کو ضرور جاری رکھیں گے“۔
سابقہ سال کی کانفرنس میں جو کالم لکھا تھا اس سے ایک اقتباس یہاں شامل کررہاہوں، کچھ باتیں واضح ہوجائیں گی۔ ”عالمی ادبی کانفرنس کیونکہ گزشتہ 12 سالوں سے تواتر کے ساتھ منعقد ہو رہی ہیں، موجودہ کانفرنس12ویں کانفرنس ہے۔ ایک بات یہ بھی کہ کانفرنسوں کے منتظمین بھی وہ ہی چلے آرہے ہیں، چنانچہ ہر نئی کانفرنس کے انعقاد پر سابقہ کانفرنسوں کا تجربہ ان کے سامنے ہوتا ہے، جو کمی یا کوتاہی رہ جاتی ہے وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کانفرنس کے تمام لوازمات وقت کے ساتھ بہتر ہونے چاہیے لیکن پھر بھی اتنا بڑا ایونٹ ہوتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔مثال کے طور پر منتظمین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس پروگرام میں عوام الناس کی تعداد زیادہ شریک ہوگی، چنانچہ حال کی نشستیں اور حتیٰ کہ سیڑھیوں اور اسٹیج کے سامنے نیچے فرش پر لوگوں کے بیٹھ جانے کے بعد کسی کے اندر آنے کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ منتظمین نے حال سے باہر جو جگہ ہے اس میں اسکرین لگوا دی تاکہ جو لوگ آڈیٹوریم میں نہ آسکیں وہ باہراسکرین پر وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکیں جو اندر حال میں ہورہا ہے۔ اسی طرح ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیشن کا احتمام بھی ہوا، یہ بھی کانفرنس کی ضرورت تھی، لیکن نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ تمام سیشنز میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ کسی ایک پروگرام میں ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ کانفرنس کا اختتامی پروگرام تقسیم ایوارڈ سے قبل انور مقصود کا پروگرام ہوتا ہے، انور مقصود کو دیکھنے اور سننے کے لیے سہ پہر سے ہی جاکر سیٹ پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا تھا، ہم اسی گمان میں تھے اور آخری دن چار بچے سے جو سیٹھ پر قبضہ کیا، جب وقت آیا انور مقصود کے پروگرام کا تو اعلان کردیا گیا کہ یہ پروگرام باہر کھلی فضا میں ہوگا، چنانچہ ہمیں مجبوراً باہر جانا پڑا جہاں بیٹھنا تو دور کی بات اسکرین پر انور مقصود کو دیکھنا مشکل ہوگیا۔ مائک بھی صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے۔ کچھ اس بار انور مقصود بھی کچھ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، خوف زدہ لگ رہے تھے، انہوں نے غالب کے ساتھ اپنی گفتگو کو موضوع بنایا، سابقہ سال جون ایلیا کاخط ان کے نام موضوع تھا وہ زیادہ دلچسپ رہا۔ خیر ہم نے تو انور مقصود کو سنا اور واپسی کی راہ لی“۔اسی میں ایک تنقید بھی کی گئی تھی ممکن ہے اس بار وہ غلطی نہ دھرائی گئی ہو”اس بار احمد شاہ صاحب کو افتتاحی اجلاس کے لیے کوئی میزبانی کے لیے صاف اردو بولنے والا میزبان نہیں ملایا کوئی حکمت آڑے آگئی۔ ڈاکٹر ہما میر، ڈاکٹر ہما بقائی، ادبی کمیٹی کی چیرئ پرسن ڈاکٹرامبرین حسیب عنبر، راشد نور، عارف باحلیم، اقبال خورشید یایا رضوان صدیقی بہت اچھے میزبان اور صاف ستھری اردو میں میزبانی کرتے ہیں۔ دیگر زبانیں بولنے والوں سے قطعناً اختلاف نہیں، وہ بھی اچھی اردو بولتے ہیں،لیکن افتتاحی سیشن کا تقاضہ تھا کہ میزبان کا خاص کردار ہوتا ہے اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے تھا، اس کانفرنس کی پوری دنیا میں دھوم ہوتی ہے، پہلا تاثر ہی اچھا نہ جائے تو سوچ تو پیدا ہوتی ہے کہ اس میں کیامصلحت ہے، کس کی خوشی عزیز ہے، کسے خوش کرنا مقصود ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی باتوں پر بھی آئندہ توجہ دی جائے گی“۔
الیکشن پر چند باتوں پر کالم کا اختتام کروں گا، کئی سالوں سے کونسل کے انتخابات کے بارے میں سنتا اور اخبارات میں پڑھتا چلا آرہا ہوں۔جب بھی انتخابات ہوئے محمداحمد شاہ پینل کامیاب ہوتا چلا آرہا ہے، سابقہ سالوں میں کونسل میں سیاسی جماعتوں نے بھی قسمت آزمائی، تاجروں نے بھی حصہ لیا لیکن نہ معلوم احمد شاہ کے پاس کونسی ایسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ان کا پینل ہر الیکشن میں فاتح رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بعض جگہ پر مستقل ایک جیسے چہرے دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا جاتی ہے۔ آرٹس کونسل کوئی تجارتی ادارہ نہیں ہے اس میں سب ہی کو موقع ملنا چاہیے ادب کی خدمت کرنے کا۔ 20 دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں احمد شاہ پینل کا مقابلہ ایک دوسرا پینل کر رہا ہے۔ اسی دوران مجھے اویس ادیب انصاری کی ایک ویڈ موصول ہوئی جس میں اویس انصاری صاحب نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے انتخابات اور محمد احمد شاہ کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔اویس ادیب انصاری صاحب ادیب ہیں اور بہت ہی نفیس انسان ہیں، ان کی بیگم صاحبہ بھی ادیبہ ہیں، دونوں ادب کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔مجھے نہیں شک کہ اویس انصاری صاحب غلط بیانی کریں گے۔ احمد شاہ صاحب کو ان کی باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ ادیبوں کے مابین اختلافات قطعناً مناسب نہیں۔ اویس انصاری صاحب نے آرٹس کونسل کے سابق روح رواں جناب یاور مہدی صاحب سے ایک مکالمہ کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔ یاور مہدی صاحب نے بھی آرٹس کونسل کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ان کی قابل قدر کاوشیں ہیں۔ انہوں نے بھی بہت سی باتوں کی جانب توجہ دلائی ہے۔ یہ دنیا فانی ہے، کونسل ایک قومی ادارہ ہے۔ اسے باقی رہنا ہے آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوں گی۔ دل بڑا کریں، سب کو ساتھ لے کر چلنے والی روش اختیار کریں۔ چند احباب کو میں ہی گزشتہ دس سالوں سے آپ کے دائیں بائیں دیکھ رہا ہوں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو صرف کانفرس کے دنوں میں اور جو الیکشن کا سال ہوتاہے تب ہی ان کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ ان دنوں وہ آپ کے آگے پیچھے نظر آرہے ہیں، مانا ان کا بڑا نام ہے، بہت کام ہے ان کی جھولی میں۔ لیکن کچھ اور بھی ہیں زمانہ میں اُن کے سوا۔ دونوں پینل اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، دونوں ہی کامیاب ہونے کی سعی کر رہے ہیں۔ ایک ویڈیو جناب احمد شاہ صاحب کی بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ اپنے پینل کے لیے احباب کی توجہ مرکوذ کراتے نظر آرہے ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان تمام ہی ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، لکھاریوں اور ثقافت کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والوں کا ادارہ ہے۔ اس پر سب کا برابرکا حق ہے۔ عہدہ کچھ نہیں ہوتا ہے اصل انسان کا کام ہوتا ہے جو اسے اس کی زندگی میں بلند مرتبہ عطا کرتا ہے اور اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اسے زندہ رکھتا ہے۔ ایسے بے شمار نام لکھے جاسکتے ہیں جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے زمانہ ہوگیا لیکن ان کے کام نے انہیں آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ انتخابات کے لیے نیک تمنائیں۔کونسل کے اراکین جن کو مناسب سمجھتے ہیں ان کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں۔
(14دسمبر 2020ء(
) [email protected]
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285798 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More