کورونا وباء اور خون کا عطیہ

وطن ِ عزیز میں لاکھوں ایسی زندگیاں ہے جو خون کے عطیات کی منتظر ہیں، یہ معصوم کلیاں، پیروجوان آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے عطیہ خون ملے اور اُن کے زرد چہرے کِھل اُٹھیں ان کی اکھڑی سانسیں بحال ہوسکیں، مگر ابتری کی یہ حالت پہلے کبھی نہ دیکھی، بدترین زلزلہ اور سیلاب کے دِنوں میں بھی خون کے ضرورت مند اتنے مجبور لاچار نہیں ہوئے، جتنے اِن تلخ ایام میں دیکھے گئے۔یوں تو خون کی بیماری میں مبتلا بچوں کی دیکھ بھال کئی ادارے، تنظیمیں کرتی ہیں مگر ہلالِ احمر پاکستان کے زیر اہتمام شہر شہر خون کے عطیات کی فراہمی میں حصہ سب سے زیادہ ہے روزانہ 50 کے قریب مستحقین اور حادثات کے زخمیوں کو خون کی فراہمی ریجنل بلڈ ڈونر سنٹر اسلام آباد یقینی بناتا ہے یہ عمل اُس وقت سہل ہوتا تھا جب جگہ جگہ، عوامی مقامات، تعلیمی ادارے کارپوریٹ اداروں میں خون کے عطیات جمع کرنے کیلئے کیمپس لگائے جاتے ، ان پرُ اَمن اور سکون بخش ایام میں انفرادی طور پر خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد بھی نمایاں ہوتی۔ طلب و رسد کا نظام قدرے تسلسل سے جاری تھا اُمید آس بندھی رہتی اور ہلالِ احمر کو آخری سہارا سمجھا جاتا، یہ سب کچھ کورونا وباء نے اُلٹ پلٹ دیا۔ لاک ڈاؤن اور وباء کے خوف نے جہاں گھروں میں رہنا محفوظ قرار دیا وہاں اِن ہی گھروں میں دوسرے کے عطیہ خون کے منتظر بھی بے یارومددگار ہوگئے، اگرچہ احتیاطی تدابیر سے حادثات، جھگڑوں، مارکٹائی کے واقعات قدرے کم ہوگئے، ہسپتالوں میں غیرضروری رَش بھی تھم گیا، آپریشن جو ناگزیر نہ تھے وہ بھی روک دیئے گئے۔ اِس طرح کورونا متاثرہ افراد کیلئے ہسپتالوں میں گنجائش بنائی گئی ، صورتحال ان کیلئے خطرناک تھی اور ہے جو مستقل بنیادوں پر خون کے عطیات کے سہاروں پر ہیں۔ انفرادی طور پر بھی کورونا کے خوف سے آگے آنے سے کترائے، ہلالِ احمر کی شہر شہر آگاہی مہم جاری ہے ۔قلت خون کے باعث کئی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں بالخصوص تھلیسیمیا کے شکار بچوں کی صورتحال ناقابل ِ بیان ہے۔ جب 50 کے قریب یونٹ خون یومیہ فراہم کرنے والا ہلالِ احمر نصف تعدادپر پہنچ آئے تو باقی اداروں کی صورتحال کیسی ہوگئی؟ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ خون عطیہ کرنے کیلئے آگے بڑھیں جہاں راشن پانی کی فراہمی ضروری ہے وہاں ایک بیمار کو ایک مستحق کو ایک انسانی جان کو خون کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ عطیہ خون کارِ خیر ہے اِس عطیہ کے فائدے ہی فائدے ہیں۔ یہ عطیہ جہاں کسی دوسرے کی جان بچاتا ہے وہاں ڈونر کو بھی خون کے مختلف ٹیسٹ کے ذریعے بیماریوں سے آگاہی دیتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کوئی پوشیدہ بیماری ہے یا اِس کا خدشہ ہے تو یہ خون کے ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے۔یہ تمام ٹیسٹ آپ کے عطیہ کی بدولت بغیر کسی فیس کے ہوجاتے ہیں عطیہ خون کے فوائد کی بات کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر تندرست انسان ہر چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتا ہے۔ آپ کا عطیہ کردہ خون تین انسانی جانیں بچاتا ہے آپ کے عطیہ کردہ خون کی بدولت آپکی صحت اچھی ہوجاتی ہے نیا خون بنتا ہے جو رنگت نکھارتا ہے۔نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ طبّی مشاہدہ میں آیا ہے کہ جو صحت مند افراد ہر چوتھے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ کولیسٹرول لیول نارمل رکھنے کیلئے ہر چاہ ماہ بعد خون عطیہ کیجئے، خون کا عطیہ بے شمار دوائیوں کے استعمال سے بھی نجات دِلاتا ہے۔ کورونا وباء کے باعث خون عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر آپ گھر بیٹھے خون عطیہ کرنا چاہئیں تو بھی اِس کی بہترین سہولت میسر ہے۔ اِس سلسلے میں ہلالِ احمر کے ریجنل بلڈ ڈونر سنٹر واقع سیکٹر H-8 فون نمبر051-9250412 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ کورونا وباء کے باعث برلب ِ سڑک کسی مارکیٹ میں مرکز میں، کسی تعلیمی ادارے کے کورویڈور میں یا کسی کارپوریٹ ادارے کے توسط سے کیمپس کا انعقاد ممکن نہیں رہا ایسے حالات میں خون کے عطیات کے سہارے زندہ رہنے والوں بارے سوچئے۔ خون کے مرض میں مبتلا پھولوں کو مرجھانے سے بچائیے۔ضرورت مندوں کو کون خون عطیہ کرے گا یہ فرض ہم سب کا ہے ،یقین کامل ہے کہ یہ مریض، یہ پھول ہمارے اپنے ہیں اِس لیے انفرادی طور پر خون عطیہ کرنے کو اپنا فرض سمجھئے، نیکی میں دیر کیسی، آپ کے 15 منٹ کسی کونئی زندگی دے سکتے ہیں، حالات خواہ کتنے ہی بدتر نہ ہوں ہمیں اُن زندگیوں کا خیال رکھنا ہوگا جن کو ہمارے معاشی اور جسمانی عطیات کی ضرورت ہے۔ رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات دینے والوں کی شرح بڑھا کر ہم اِس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔ ہلال ِاحمر 96 فیصد خون اپنے ڈونرز سے اکٹھا کرتا ہے۔ کسی انسان کو خون کا عطیہ دینا اِسے نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ آئیے سسکتے، مرجھائے پھولوں کو عطیہ خون کے ذریعے نئی زندگی دیں۔آگے بڑھیں تاخیر نہ کریں۔امریکہ میں ہر سال 90 لاکھ افراد اپنا خون عطیہ کرتے ہیں، یہ تصور مغرب میں پختہ یقین بن چکا ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان پہلے سے زیادہ صحت مند ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق انسانی جان بچانا بہت بڑی سعادت ہے جو خون کا عطیہ کرنے والوں کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ اِس بارے فکر کی ضرورت ہے کہ امریکہ میں 90 لاکھ افراد خون عطیہ کرسکتے ہیں تو 22 کروڑ کی آبادی میں جہاں جوانوں کی تعداد 70 فیصد سے زائد ہو تو خون دینے کی شرح صرف 2 فیصد ہو تو شعور و آگاہی کی دولت بانٹنا بھی کارِ ثواب ہے۔ ہلال ِاحمرکے باقاعدہ ڈونرز عطیہ خون دینے کا فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔ 82برس کے جنرل (ر) مصطفی کمال اکبر ہم سب کیلئے رول ماڈل ہیں، رواں ماہ کی تین تاریخ کو وہ خون کاعطیہ دینے آتے ہیں اور اِن کا عزم حوصلہ دیدنی ہوتا ہے۔ وہ اب تک 159 بار اپنا خون عطیہ کرچکے ہیں دیگر باقاعدہ ڈونرز کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ خون کے عطیات کی شرح بڑھائی جائے اور عوام الناس کو اِس عطیہ کی جانب راغب کیا جائے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.