امت مسلمہ کے مسائل کا حل، سیرت طیبہ کی روشنی میں

یہ حقیقت ہے کہ ہماری ناکامی کی واحد وجہ نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے دوری ہے۔ یہ وہ اسوہ حسنہ ہے جسے اپنا کر عرب کے چرواہے پوری دنیا کے حکمران بنے اور انصاف و خوش حالی کے وہ دریا بہائے کہ دنیا مثال لانے سے قاصر ہے۔ ذیل کی تحریر میں موجودہ دور میں پائے جانے والے مسائل کا حل سیرت طیبہ کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔


قاسم علی شاہ فرماتے ہیں: ’’اگر تم کامیاب انسان بننا چاہتے ہو تو کامیاب لوگوں کی داستانیں پڑھو، پھر ان کی اچھی عادات کو اپنا لو، تم بھی کامیاب انسان کہلاؤ گے۔‘‘ نبی کریم حضرت محمد ﷺ دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی سیرت طیبہ اور حالاتِ زندگی کو عملًا ناقابلِ عمل سمجھا جانے لگا ہے۔ زبان سے دعوی اور خطیبانہ جملے چیزے دیگری ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ عملی طور پر ملت اسلامیہ نے نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پس پشت ڈال رکھا ہے جس کی وجہ سے اسے پانچ بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
۱: آپس کے اختلافات اور وحدت کا فقدان
۲: علم سے دوری اور جہالت
۳:مغرب کی تہذیبی یلغار
۴: اخلاقی گراوٹ اور
۵:اقتصادی مسائل

سیرت طیبہ ہمیں دورِ جدید کے ان تمام مسائل کا حل بتاتی ہے۔بدقسمتی سے ہمیں اس سلسلے میں بھی دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

نمبر۱: ہمیں سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ نبوی ﷺ آج سے چودہ سو سال قبل کی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جنہیں دور حاضر میں اپنانا گویا پتھر کے دور میں لوٹنے کے مترادف ہے۔حالاں کہ یہ ایک ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی پتیاں تروتازہ ہیں ، جس کی خوش بو ہر دور میں اہلِ زمانہ کو معطر کرتی رہی ہے۔

نمبر۲: جو لوگ سیرت رسول ﷺ کو ہر دور میں قابل عمل سمجھتے ہیں، ان کے پاس ابلاغ و ذریعہ ابلاغ کا فقدان ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی اور گلوبل ولیج کی دنیا میں جب اسے پرانے لفافے میں پیش کرتے ہیں توکچھ لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیتے ہیں۔ حالاں کہ اصول ہے کہ اگر جاذبِ نظر اور جدید پیکنگ میں خراب مال پیش کیا جائے تو وہ بھی پرکشش بن جاتا ہے چہ جائیکہ سیرت طیبہ جیسی بے بدل چیز… جسے دو تین سو سال قبل کے پس منظروالے حالات کے ضمن میں پیش کیا جاتا ہے۔ اُس دور کے مفکرین نے اپنے زمانے کے مطابق حالات کا حل سیرت کی روشنی میں پیش کیا تو ہم دو تین صدیاں بعد کے حالات میں بھی وہی حل پیش کرنے پر بضد ہیں۔ بدلتے زمانے کے ساتھ اس کے نئے چیلنجز اور ان کا حل پیش کرنا اکابرین امت پر فرض ہوتا ہے۔ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے بعد قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کیا، اس کی مختلف قرأتوں کو ختم کر کے ایک ہی قرأت رائج کی۔ اسی طرح تابعین کرام نے قسم قسم کی فقہوں کے بجائے اپنے اپنے علاقوں کے مسائل کے حساب سے صرف چار فقہوں میں دین کو محدود کر دیا وغیرہ وغیرہ۔جبکہ آج ہم چند بنیادی مسائل کا حل طے نہیں کر سکے۔ ہم دنیا کو اپنا موقف سمجھانے سے قاصر ہیں۔ مثلا بینکنگ حلال ہے یا حرام؟ جہاد اور دہشت گردی میں کیا فرق ہے؟ خود کش حملے مطلقا حرام ہیں یا کسی ضرورت کی بنیاد پر جائز بھی ہو سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ

ذیل میں ان مسائل کا جائزہ سیرت طیبہ کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے جو آج مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہو رہے ہیں۔
۱: آپس کے اختلافات اور وحدانیت کا فقدان:
کسی عمارت کو گرانے کے لیے سب سے پہلے اسے توڑا پھوڑا جاتا ہے۔ جب اس کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں تو وہ عمارت دھڑام سے زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ بعینہ اسی طرح اسلام کی عمارت کو توڑنے کے لیے اہل اسلام میں پھوٹ ڈالی جاتی ہے۔ جب ان کے دل آپس میں متنفر ہو جاتے ہیں تو بڑے آرام سے ان کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ اندلس میںیہی طریقہ اپنا کر وہاں سے اسلام کا صفایا کر دیا گیا۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے ، جس کا بعض بعض سے تقویت حاصل کرتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے اگر کسی ایک حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ نیز فرمایا ’’اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘

۲:علم سے دوری اور جہالت:
دور حاضر کا ایک المیہ امت مسلمہ کی علم سے دوری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین و دنیا کے علوم کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا اور بدر کے قیدیوں کو رہائی کے بدلے دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا حکم فرمایا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے خود نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا کہ ’’اے پیغمبر فرما دیجیے ، اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ کاش! اگر دورِ حاضر میں ہم سیرت طیبہ کے اسی پہلو پر عمل کر لیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہو جائیں۔

۳: مغربی تہذیب کی یلغار:
غلامی کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ انسان احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کے ہر عمل کو ’’پرفیکٹ‘‘ اور قابل عمل سمجھتا اور اپنی ذات سے جڑی ہر نشانی کو دقیانوسیت شمار کرتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اڑھائی سو سالہ غلامی کے بعد اپنے پیغمبر ﷺ کی ہر سنت کو فرسودہ سمجھ کر چھوڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب اپنے انگریز آقاؤں کی ہر ادا پر مر مٹنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔ لباس، بول چال، رہن سہن، کھانا پینا غرض اُن کے ہر عمل کو ’’کاپی‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھٹی جینز پہننے اور ہونٹوں میں سگریٹ دبا لینے کو ترقی اور معاشرے کا سٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں کفار کی مشابہت سے منع فرمایا تھا۔ یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے۔ مقصد اللہ کی بارگاہ میں شکر ہوتا تھا ، جس نے انہیں اس دن فرعون سے نجات دی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا، لیکن ساتھ میں یہ بھی فرما دیا کہ اس کے ساتھ ایک مزید روزے کا اضافہ کرو تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو جائے۔ اسی طرح فرمایا ’’جو قوم جس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے، اس کا شمار انہی میں ہوتا ہے۔‘‘ آپ ﷺ کے دور میں بڑی بڑی سلطنتیں روم و ایران موجود تھیں، لیکن آپ نے ان میں سے کسی کے طور طریقے کو اختیار نہیں فرمایا۔ جہاں آپ نے سادگی کا درس دیا وہیں اچھے کپڑے پہننے اور صفائی ستھرائی اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا۔ لیکن شاہانہ طور طریقوں اور کر و فر سے برات کا اظہار کیا۔

۴: اخلاقی بگاڑ:
زوال پذیر قوموں کی ایک نشانی ان میں اخلاق کا بگاڑ ہوتی ہے۔ سچائی، ایمان داری، حق پرستی، شرم و حیا، حسن سلوک، ایثار کیشی اور ایفائے عہد آہستہ آہستہ رخصت ہوجاتے ہیں۔ اپنے رب پر ایمان کی شمع ہواؤں کی زد میں ہوتی ہے، جسے ایک چھوٹا سا جھونکا بھی اڑا لے جاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ تمام چیزیں امت مسلمہ کی پہچان تھیں۔ لیکن آج یہ صفات چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ اسوہ رسول اکرم ﷺ ہمیں ان پر عمل کی چیخ چیخ کر دعوت دے رہا ہے۔نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتاہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا ’’جو بندہ حق پر ہوتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دے، میں جنت کے عین وسط میں اس کے لیے ایک محل کا ضامن بنتا ہوں۔‘‘ حیا کے بارے میں فرمایا ’’جب تجھ میں حیا رخصت ہو جائے تو جو جی چاہے کر ۔‘‘ یعنی حیا انسان کو بہت سے ناجائز امور سے باز رکھتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں ماضی کی گرد میں دھندلا چکی ہیں۔

۵: اقتصادی مسائل:
امت مسلمہ کا ایک اہم ترین مسئلہ ’’غربت‘‘ ہے۔ غور کیا جائے تو یہ مسئلہ امت کا اپنا پیدا کر دہ ہے۔ اگر سیرت طیبہ کی روشنی میں محض زکوۃ ، صدقات، خمس اور عشر کا درست استعمال کر لیا جائے تو شاید پوری دنیا میں کوئی گھرانہ بھوکا نہ سوئے۔ اللہ تعالی نے ایک چیز صدقہ دینے پردنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا دینے کا وعدہ کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ وہ شخص مومن نہیں، جو خود تو پیٹ بھر ے، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔‘‘ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے شہروں کی آبادی بڑھانے کی بجائے نئے شہر بسانے کا مشورہ دیا۔ بازار میں آنے جانے، کاروبار کرنے ، لین دین ، تجارت اور ملازمت کے اصول بتا دیے ہیں۔ اگر ان تمام پر آج بھی عمل کر لیا جائے تو یہ اسی طرح مفید ہیں، جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل تھے۔ اس کے لیے محض تجربہ شرط ہے۔ ورنہ ایمان تو ہر مومن کا ہے ہی… کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی کو اپنے عمل میں لائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
٭٭٭

 

عبدالصبور شاکر
About the Author: عبدالصبور شاکر Read More Articles by عبدالصبور شاکر: 53 Articles with 90358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.