شہرِ اقتدار کا شاعر فرخؔ ضیاء اور اس کا مجموعہ کلا م ’میں اب بھی مُسکراتا ہوں‘

شہرِ اقتدار کا شاعر فرخؔ ضیاء اور اس کا مجموعہ کلا م ’میں اب بھی مُسکراتا ہوں‘
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
فرخ ضیاء مشتاق کا شہر اقتدار کے شاعروں اور ادیبوں میں منفرد و معتبر مقام ہے۔وہ ایک شاعرو ادیب خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرخ ضیاء کی جو ننھیال ہے وہ میری دودھیال ہے۔ ان کے والد حافظ ضیاء احمد مشتاق صاحبِ دیوان شاعر تھے ان کا مجموعہ کلام ”گردابِ تمنا“شائع ہوچکاہے۔ ان کی زندگی کا آخری شعر فرخ ضیاء نے اپنے شعری مجموعے میں نقل کیا ہے اور اس شعر پر ایک غزل بھی کہی، شعر کچھ اس طرح ہے۔
تلخی ئ عمر رواں کون سنے گا آخر
کیوں نہ پھر دوست بنالوں درو دیوار کو میں
فرخ ضیاء کے نانا خلیل احمد صمدانی کا مجموعہ کلام ”گلزار خلیل“ ان کے شاعر بیٹے تابشؔ صمدانی نے مرتب کیا تھا جوراجستھان کے شہر بیکانیر سے شائع ہوا تھا۔ فرخ ضیاء کے پر نانا جو میرے پرداداہیں جناب شیخ محمد ابرہیم آزادؔ کا نعتیہ دیوان 1932ء میں آگرہ سے ”ثنائے محبوب خالق: دیوانِ آزاد“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 2005ء میں کراچی سے منطر عام پر آچکا ہے۔جناب آزاد ؔ معروف شاعر جناب بیخود دہلوی کے شاگرد تھے۔ بیخود نے آزاد ؔ کے بارے میں یہ قطعہ کہا جو دیوان آزاد میں درج ہے۔
نام آزادؔ وضع کے پابند
میرے شاگرد و میرے عاشقِ زار
ہیں یہ مداح سیرتَ نبوی
اور مداح ان کا بیخودؔ زار
فرخ ضیاء کی والدہ بھی شاعری کا بھر پور ذوق رکھتی تھیں۔ تابشؔ صمدانی جو فرخ ضیاء کے ماموں تھے ملتان شہر کے نامور اور معتبر شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ’۔ ان میں برگ ثنا‘،عقیدت کے پھول، ’نذرِ سعید‘، ’منقبت کے پھول‘ اور مرحبہ سیدی شامل ہیں۔تابش صمدانی میرے والد کے حقیقی چچا زاد بھائی ہیں۔ اب ان کے صاحبزادے رہبر صمدانی اور سرور صمدانی ملتان کے معروف شعراء میں سے ہیں۔ دوسری جانب فرخ ضیاء کے چھوٹے بھائی اطہر ضیاء مشتاق کاشعری مجموعہ ’حیرتوں کی جستجو‘کے عنوان سے منظر عا م پر آچکا ہے۔ ان کے بھائی انور ضیاء اور تبسم ضیاء مشتاق شاعری کا ذوق رکھتے ہیں۔آزاد ؔ صاحب جو میرے بھی پردادا ہیں ان پر مَیں نے ایک کتاب2013 ء میں بعنوان ”شیخ محمد ابراہیم آزادؔ: شخصیت و شاعری“ مرتب کی تھی۔ جناب خلیل صمدانی پر ایک مضمون اور تابش ؔصمدانی پر ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں۔ تابش ؔ صمدانی مرحوم سے خاندانی تعلق، رشتہ کے علاوہ قلبی تعلق تھا۔انہیں منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا ایک شعر دیکھئے۔
ہونہ کیوں ناز ہمیں آزا د ؔ‘ خلیل ؔ و تابشؔ پر
کہ ایک ہی چمن کے یہ درخشندہ ستارے ہیں
فرخ ضیاء کے والد حافظ ضیاء مشتاق صاحب اسلام آباد کے آباد ہونے سے پہلے کراچی کے مکین تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ فرخ کی والدہ میرے والد کی چچازاد بہن ہیں، ان کا نام طیبہ خاتون تھا لیکن ہم انہیں ان کے گھر کے نام”چٹی پھوپھی“ کہا کرتے تھے۔ جب کے حافظ ضیاء صاحب کو ’پھوپھا صاحب‘کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔فرخ ضیاء کی والدہ ہمارے والد صاحب سے بہت انسیت اورشفقت کیا کرتیں تھیں، انہیں ’انیس بھائی‘کہہ کر مخاطب کیا کرتیں۔ سرخ سفید،بہت پر خلوص، ہنستا مسکراتا چہرہ، دونوں بہت ہی شفقت اور محبت سے ملا کرتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ فرخ ضیاء کا شعری مجموعہ پیچھے رہ گیا اور مجھے ان کے والدین کا اپنے گھر آنا اور ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ،لہک لہک کر شفقت بھرے لہجے میں باتیں کرنا سب کچھ نظروں میں گھوم گیا۔ اللہ پاک دونوں کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ یہ بات میں ساٹھ کی دیہائی کی کررہا ہوں۔اسلام آباد کے قیام کا آغاز ایوب خان صاحب نے 1960 میں کردیا تھا، قیام پاکستان کے بیس سال بعد 14اگست1967کو دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ فرخ کے والد فارن آفس میں ملازم تھے وہ بھی کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ چٹی پھو پھی کی ایک بہن طاہرہ خاتون کی شادی حافظ ضیاء صاحب کے چھوٹے بھائی رضاء احمد مشتاق صاحب سے ہوئی تھیں، انہیں ہم ان کے گھریلو نام ’بے بی پھوپھی‘کہا کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں بہنیں (چٹی پھوپھی اور بے بی پھوپھی) اسی طرح حافظ ضیاء صاحب اورجناب رضاء احمد مشتاق دونوں خاندانوں سے جب تک وہ کراچی میں رہے ہمارے بہت خوشگوار اور محبت آمیز تعلقات رہے۔ فرخ ضیاء نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ اعلیٰ شعری ذوق رکھتی تھیں بلکہ نعتیہ اشعار بھی کہتی تھیں۔ بے شک ایسا ہوگا اس لیے کہ اس پورے گھرانے کی تربیت ادبی اور شعری ماحول میں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے شہر بیکانیر کی آزاد منزل شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی سرپرستی میں ادبی و شعری محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اس زمانے کے شعرا ء جیسے امتیاز اشعراء سید وحید الدین احمد بیخوؔد دہلوی، محمد عبد اللہ بیدلؔ، محمد عبد اللہ المعروف بہ امیر دولھا صوفیؔ، محمد یوسف راسخ، حکیم ممتاز ناصری سبزواری، نثار احمد نثار، عابد حسین آغائی اکبرآبادی، حسن احمد حسنؔ، جناب خلیل صمدانی خلیلؔ، تابشؔ صمدانی اور دیگر پائے کے شعرا آزاد منزل میں منعقدہونے والی ادبی و شعری محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اس ادبی ماحول میں پرورش پانے والے شعر ی ذوق سے کیسے محروم رہ سکتے تھے۔آزاد صاحب سے ادبی، شعری ذوق اور نعتِ رسول مقبول ﷺ سے عشق خاندان میں منتقل ہوتا ہوا موجودہ نسل تک اللہ کے فضل و کرم سے پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ میں فخریہ کہتا ہوں کہ میرا خاندان جو خاندان باری بخش، خاندان حسین پور بھی کہلاتا ہے میں علمی، ادبی و شعری ذوق اور نعت ِ رسول مقبول ﷺ کہنے کو اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہیں۔ خاندان کے بے شمار احباب صاحب دیوان شاعرہیں، مصنفین و مولفین، مدیر و مرتب ہونے کے ساتھ ان کا شمار ملک کے معروف شخصیات میں ہوتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ جو نعت گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بیکانیر ہائی کورٹ کے چیف جج اور معروف وکیل بھی تھے، جناب خلیل صمدانی،پروفیسر محمد محصی، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر اعجاز حسن، ڈاکٹر الطاف حسن (اردو ڈائجسٹ)، تابش صمدانی و دیگر معروف احباب ہمارے خاندان کا عظیم سرمایا ہیں۔
میرا موضوع فرخ ضیاء مشتاق کا مجموعہ کلام ”میں اب بھی مُسکراتا ہوں“ ہے۔ بہت کوشش کے باوجود بات خاندانی میراث شعر و ادب کی جانب چلی گئی اور خاصی طویل بھی ہوگئی۔بنیادی بات جو شاعر موصوف کی یہی ہے کہ انہیں سخن فہمی وراثت میں ملی۔ جس کی ننھیال اور دودھیال میں شعر و سخن کی صدائیں عام ہوں، صاحب دیوان اور بے دیوان شاعرموجود ہوں اس فضاء سے کیسے دور رہا جاسکتا تھا۔ یہی تو اس خاندان کی میراث ہے، یہی تو ہمارا فخر ہے۔ فرخ ہرگز ہرگز حادثاتی شاعر نہیں، نہ ہی کسی شاعر سے متاثر ہوکر شاعر بنے وہ ایک خاندانی شاعر ہیں۔ انہیں تو شعر و سخن خاندانی میراث کے طور پر ملا۔ تابشؔ صمدانی نے اپنے بارے میں یہ شعر کہا تھا۔ یہ بات فرخ ضیاء پر بھی صادر آتی ہے۔
وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات
کتنا خوش نصیب مدحت سرا ہے تابشؔ
شاعر بہت حساس ہوتا ہے، وہ خوشی،غمی، دکھ تکلیف کا اظہار اپنے کلام میں کرتا ہے۔ فرخ کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ انہوں نے زندگی سے جڑی ہر بات کو اپنے اشعار کا موضوع بنایا۔ انہوں نے مجموعے کے تعارف میں لکھا ہے کہ ان کی شریک سفر کافی عرصہ سے صاحبِ فراش ہیں۔اس بات کا ذکر انہوں نے اپنی گفتگو میں بھی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ، عاجلہ، عطا فرمائے۔ ا ن کی ایک غزل جس میں مجموعے کا عنوان بھی منتخب کیا گیا ہے ان کے احساسات کی بھرپور غمازی کرتی ہے
غموں پر غم اُٹھاتا ہوں میں اب بھی مسکراتا ہوں
ہراِک آنسو چھپاتا ہوں میں اب بھی مسکراتا ہوں
مقدر کی سیاہی پر ستاروں سے ہو کیوں شکوہ
دیے اپنے جلاتا ہوں میں اب بھی مسکراتا ہوں
مجھے دکھ دینے والوں کو یہ دکھ ہی کھا گیا فرخؔ
میں اب بھی مسکراتا ہوں میں اب بھی مسکراتا ہوں
فرخ ضیاء غزل کے شاعر ہیں اور غزل شاعری کی مقبول ترین صنف ہے۔بقول پروفیسر انور جمال ’غزل، شاعری کا ایسا پیکرِ حسن ہے جس میں پانچ یا زیادہ اشعار ہوتے ہیں۔ رمز، ایمائیت، سوزو گداز، موسیقیت اور ایجاز اس کے کیفیتی (باطنی) خواص ہیں۔ وارداتِ حسن عشق، کرب ِ ذات، غمِ دوراں کا تذکرہ اس کے موضوعات ہیں۔ یہ بھی کہ اردو میں غزل وہ واحد صنفِ سخن ہے جس غمِ جاناں، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے‘۔ ’میں اب بھی مُسکراتا ہوں‘ کے شاعر فرخؔ ضیاء کی غزل میں غمِ جاناں بھی ہے، غمِ ذات بھی اور غمِ دوراں کی بھینی بھینی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
خار کو پھول کہوں پھول کہوں خار کو میں
کیوں یہ ضد ہے کہ لگالو گلے اغیار کو میں
اے مرے ضبط کے دامن یہ تجھے کیا معلوم
آنکھ میں روک لیے کتنے ہی دریا میں نے
پیش نظر مجموعہ گو غزلیات پر مبنی ہے یقینا فرخؔ ضیاء نے شاعری کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہوگی۔ حمدباری تعالیٰ و نعتِ رسول مقبول، منقبت، قطعہ، نظم بھی کہیں ہوں گی لیکن پیش نظر مجموعہ صرف شاعر کی103غزلیات کا مجموعہ ہے۔ اچھا ہوتا اگر آغاز حمد اور نعت رسول مقبول ﷺ سے کیا جاتا۔ فرخ ضیاء کی غزل میں کشش ہے، ثبوت ہے، دلائل ہیں اور معتبرہے، وہ اثبات کے شاعرہیں۔ فرخ نے اپنے والد کے انتقال کے بعد اسی رات چار مصرے کہے، یہی ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز تھا۔
خاندان پر غم کا بادل پہلے بھی چھایا تو تھا
مادرِ مشفق کی رحلت سے خلا آیا تو تھا
ماں کی ممتا گو نہ تھی پر آپ کا سایہ تو تھا
آپ کے دامن میں درماں درد کا پایا تو تھا
فرخ ضیاء کو نئی نسل کا نمائندہ شاعر کہنا غلط نہ ہوگا۔ وہ پختہ لہجہ لیے ہوئے ہیں، جدت، تغیر، تبدیلی اور روایت کا ادراک ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری میں حالی ؔ نے لکھا ہے کہ شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا ہے وہی شاعر بنتا ہے‘۔ فرخ ضیاء کی شاعر میں شاعری کا مادہ بدرجہ اتم موجود دکھائی دیتا ہے۔ ریاضت اور مشق نے فرخؔ کی شاعری میں نکھار پیدا کردیا ہے۔ وہ شاعری کے معیارات پر پورا ترتے ہیں۔ان کے شعری مجموعے میں شامل ان کی غزلوں سے واضح ہے کہ فرخ شعر کی اہمیت سے آگاہ ہیں، الفاظ و معنی سے خوب واقف ہیں، وہ کسی بھی بات کو معنی خیز انداز سے شعر کے پیرائے میں ڈھالنے کی مہارت رکھتے ہیں۔حساسیت دیکھئے ان کے ایک شعر میں ؎
مجھ سا تنہا بھی کوئی کیا ہوگا
اپنے سائے سے جدا بیٹھا ہوں
فرخ ضیاء سچائی اور حقیقت کے شاعر ہیں،ان کی شاعری میں رکھاؤ اور نظم و ضبط اور محاسنِ کلام کا معیارصاف پڑھا جاسکتا ہے۔ وہ
صرف ایک کہنا مشق شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے اشعار میں انسان، معاشرہ، زندگی جیسے موضوعات پر کثرت سے اشعار ملتے ہیں۔انہوں نے اپنے بہن بھائیوں میں بڑے ہونے کی بات کس خوبصورت انداز سے کی۔
گر مجھے چاٹ گئی فکر کی دیمک تو کیا
یہ تو ہونا تھا کہ میں سب سے بڑ ا تھا گھر میں
فرخ ضیاء کے کلام میں سادگی ہے، خلوص ہے اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے،انہوں نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ساری صلاحیت شعر کی ظاہری حُسن و خوبی سے مزین کرنے میں صرف کی ہے۔دیکھئے یہ فرخ کا یہ اشعار۔
جب سفر کا ارادہ میں نے کیا
ایک دیوار بن گیا رستہ
خشک دریاؤں کو موجوں کی روانی لکھنا
آنکھ کے دشت میں بہتا ہوا پانی لکھنا
مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فرخ ضیاء کی شاعری اور ان کا اسلوب سادہ ہے،در حقیقت وہ سچائی کے شاعر ہیں، ان کے کلام میں رکھ رکھاؤ اور نظم و ضبط اور محاسن کلام کامعیار عیاں ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ اردو زبان سے عشق اور چاہت رکھتے ہیں جو ان کی شاعری سے عیاں ہے، ان کے ہاں حسن ہے، درد ہے، میٹھاس ہے،، سوز گداز، درد، شگفتگی و ترنم، خلوص، سادگی صداقت نمایاں ہے۔
اس قدر ٹوٹ رہا ہوں میں تھکن سے اب تو
سر پہ جیسے ہو اُٹھائی ہوئی دنیا میں نے
فرخؔ ضیاء کا یہ کی غزل کا یہ شعر دیکھئے جس سے درد و الم، سوز وگداز نمایاں ہے۔
کاندھوں پہ یہ معصوم جنازے ذرا گن لو
نوچے ہیں جو ماؤں کے کلیجے ذرا گن لو
آخر میں فرخ ضیاء کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اختتام ایک قطعہ پر کرتا ہوں۔
میں اب بھی مُسکراتا ہوں‘ مجموعہ خوب ہے
فرخ ضیاء کی شاعری کا مجموعہ بھی خوب ہے
شعر و سخن کافیض ہوا جاری اجداد کا میرے
فرخ ؔ کے ہرایک شعرکا حسن بھی خوب ہے
(28نومبر 2020ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281240 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More