پروفیسرسراج الدین قاضی کی تصنیف ’مکاتیب مولانا ابو لکلام آزاد پر ایک نظر‘

پروفیسرسراج الدین قاضی کی تصنیف ’مکاتیب مولانا ابو لکلام آزاد پر ایک نظر‘
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمدصمدانی
پروفیسر سراج الدین قاضی صاحب سے میر ے مراسم کے کئی پرت ہیں،گورنمنٹ کالج فار مین ناظم آباد کے ساتھی، اساتذہ ایسو سی ایشن ’سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسو سی ایشن (سپلا)،کے ساتھی،ہم مزاج،ہم خیال و ہم سوچ۔ایک اور اہم تعلق قاضی صاحب سے ہندوستان کا شہر ’بیکانیر‘ راجستھان ہے، یعنی ہم راجستھانی بھی ہیں۔ چند دن ہوئے، دروازہ پر دستک ہوئی، معلوم ہوا کہ قاضی صاحب تشریف لائے ہیں۔ ہم دونوں کو کالج سے ریٹائر ہوئے کافی عرصہ ہوچکا، انہیں زیادہ مجھے کچھ کم،کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوگیا، حالانکہ ان کے اور میرے گھر کا فاصلہ واکنگ ڈسٹنس پر ہے، بس وقت کے ساتھ ساتھ مصروفیات کی نوعیت بدلتی ہیں، بعض مجبوریاں ایسی آجاتی ہیں کہ میل ملاقات کو ثانوی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ قاضی صاحب کو بہت عرصہ بعد دیکھا تھا، خوشی ہوئی۔ گزری باتوں اور کالج کے حوالے سے واقعات کا زیر بحث آجانا لازمی تھا۔ انہوں نے پلاسٹک کے تھیلے سے ایک کتاب نکالی اور میری جانب بڑھائی، میں سمجھ گیا کہ کوئی نئی تصنیف آئی ہے،واقعی یہ ان کی نئی کتاب تھی ”مکاتیبِ مولانا ابو لکلام آزاد پر ایک نظر“ٹائیٹل پر مولانا کی تصویر اور بیک ٹائیٹل پر قاضی صاحب جلوہ افروز ہیں،ساتھ قاضی صاحب کا مختصر تعارف بھی ہے۔تعارف پر ایک نظر ڈالی، تفصیل اس لیے نہیں پڑھی کہ میں تو از خود قاضی صاحب کا بھر پور تعارف کے ساتھ ان کا ایک خاکہ بعنوان ”پروفیسر سراج الدین قاضی“ تحریر کرچکا ہوں۔ اس خاکہ کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ جب ہم دونوں گورنمنٹ کالج فار مین ناظم آباد میں تھے تو اکثر قاضی صاحب فارغ وقت میں میرے پاس آبیٹھتے اور ہر موضوع کے ساتھ ساتھ نجی زندگی بھی زیر بحث آجایا کرتی،مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی زندگی میں نشیب و فرازآچکے ہیں، علمی وادبی اور اساتذہ برادری سے ہمدردی اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، پر خلوص انسان ہیں، قارئین کو ان کا خاکہ پسند آئے گا۔ میں نے قاضی صاحب سے کہا کہ وہ کسی دن مجھے خاص طور پر وقت دیں تاکہ میں ان سے مکالمہ کروں جس کی بنیاد پر ان کی شخصیت اور اس میں چھپی معلومات کو قرطاس پر منتقل کر سکوں۔ مختصر یہ کہ قاضی صاحب نے وقت دیا، گفتگو ہوئی جسے ہم نے قرطاس پر منتقل کیااور وہ مضمون یا خاکہ کالج کے میگزین ”راویت“ 2004ء میں شائع ہوا تھا۔
قاضی صاحب اردو کے استاد ہیں، ان کی تمام تر تعلیم حیدر آباد میں ہی ہوئی،مجھ سے ایک تعلق حیدر آباد کی سرزمین بھی ہے، وہ وہاں کے مکین رہے ہمارا قصور صرف اتنا کہ ہم بارات لے کر ان کے شہر گئے اور اپنی زندگی کو بدل کر آگئے۔ قاضی صاحب کاوہ تعارف لکھنے پر اکتفا کروں گا جو اس کتاب کے بیک پر درج ہے لکھا ہے”سیماب صفت سراج قاضی نے نئی منزلوں کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے عملی زندگی کا اصل آغاز حیدر آباد کے مختلف اسکولوں میں مدرس اور صدر مدرس کے طور پر کیا، پھر جب وقت کی نگاہ اٹھی تو اکتوبر 1972 میں گورنمنٹ کالج فار مین ناظم آبادکراچی میں اپنے خوبصورت انداز و احساس کے ساتھ بہ طور لیکچرر اردو جلوہ افروز ہوئے، کراچی کے اس معروف و منفرد ادارے میں علم کے دریا بہانے اور بے شمار نئے چراغ جلانے کے بعد 17فروری2003ء میں ایسو ایٹ پروفیسر کی پر وقار حیثیت میں سبکدوش ہوئے۔درس و تدریس ہو یا اساتذہ کی فلاح و بہبود، آپ نے تمام ہی شعبوں میں متعدد سنگ میل ترتیب دیے ہیں۔ ہمہ وقت مصروف کار رہنا آپ کی دل نواز، پُر بہار اور ملنسار شخصیت کا سب روشن بہلو ہے، آپ نے تمام تر تدریسی اور دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قلم سے رشتہ ہمیشہ استوار رکھا ہے۔ آپ کی تصانیف میں ’تذکرہئ احباب حیدر آباد سندھ‘، سید ریاض احسن (حیات، خدمات و واقعات)، اور اب’مکاتیب ابو لکلام آزاد پر ایک نظر‘خصوصی اہمیت کی حامل ہیں“۔
پیش نظر تصنیف پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب قاضی صاحب کا ایم اے اردو کے لیے لکھاجانے والا وہ مقالہ تھا جو انہوں نے نصابی ضرورت کے پیش نظر لکھا تھا، انہوں نے مولانا کے خطوط ”غبار خاطر“ پر ہی اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔ اب انہوں نے اسے کتابی صورت میں مرتب و شائع کر کے قارئین کو مولانا ابو لکلام آزاد کے مکاتیب کے حوالے سے روشناس کراکے ایک بڑی علمی خدمت کی ہے۔ مولانا ابو لکلام آزادکی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں، وہ برصغیر پاک و ہند کی نامور علمی، ادبی اور سیاسی شخصیت کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب ’آزاد کی کہانی خود ا ن کی زبانی‘ ہے، دوسرا باب’مکاتیب آزاد پر ایک عمومی نظر‘، تیسرا ’آزاد اپنے خطوط کے آئینے میں‘، چوتھا ’داستانِ بے ستون و کوہ کنُ، پانچواں باب ’مکتوب ا لیہ کی شخصیت‘، چھٹاباب ’مکاتیبِ آزاد میں علمی، ادبی اور سیاسی رجحانات اور آخری باب مولانا کی طرز تحریر کا احاطہ کرتا ہے۔ مجموعی طور پر مصنف نے تحقیقی نقطہ نظر سے مولانا آزاد کی مکتوب نگاری کی من جملہ پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔
قاضی صاحب کی اس تصنیف کے چند اور خوش کن پہلوبھی ہیں۔ کتاب کا فلیپ آفتاب احسن عزمی کا تحریر کردہ ہے۔ احسن عزمی کی خوبصورت تصویر اور فلیپ دیکھ کرطبیعت شاداں و فرحاں ہوئی اس لیے کہ آفتاب احسن سے بچپن کا تعلق، ایک علاقے اورایک ہی محلے میں پلے بڑھے، بچپن اور جوانی ایک ہی جگہ گزری، خوش مزاج، خوش وضع، خوش قطع، خوش طرز، خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ خوش خطی میں مہارت رکھتے ہیں۔گویاعمدہ خطاط بھی ہیں۔ قاضی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ”پروفیسر سراج الدین قاضی بلا شبہ سعیئ لاحاصل کی مستند ضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بھر پور، متحرک اور مثالی زندگی میں یقین محکم، عمل پیہم کے درو بام با لا ستعجاب جگمگا رہے ہیں۔ آپ اجلی اقدار اور بلند آہنگ و متاثر کن فکر و شعور کے شارح و امین ہیں۔ طویل عرصہ تک درس و تدریس سے جذباتی وابستگی، شائستگی اور دل بستگی ہی ان کی شناخت و کائنات ہے“۔ آفتاب احسن نے جو کچھ قاضی صاحب کے بارے میں لکھا میں ان احساسات اور جذبات سو فیصد درست سمجھتا ہوں۔ فلیپ سے آگے بڑھا تو دیکھا کہ کتاب کا مقدمہ بھی میرے عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج کے ساتھی پروفیسر ڈاکٹر حسن محمد خان صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ جو بعد میں سندھ ٹیچر زفاؤنڈیشن کے ایم ڈی بھی رہے۔ ڈاکٹر حسن محمد خاں صاحب نے اپنے مقدمہ میں مولانا آزاد کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ لکھتے ہیں مولانا ابو اکلام آزاد کا پورا نام محی الدین احمد تھا، مگر مشہور ابو اکلام آزاد کے نام سے ہوئے، 1888ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کی رسم بسم اللہ ہوئی، بعد ہ‘ وہ ہندوستان چلے آئے“۔ ڈاکٹر صاحب نے مولانا کے بارے میں بعض معتبر اکابرین کی رائے بھی نقل کی جو مولانا کی علمیت اور قابلیت کے معترف تھے۔ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر۔
جب سے دیکھی ابوالا کلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزانہ رہا
مولانا محمد علی جوہر کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ ”میں نے لیڈری ابواکلام کی نثر اور اقبال کی شاعری سے سیکھی“۔ ڈاکٹرحسن محمد خان صاحب نے قاضی سراج صاحب اور ان کی تصنیف کے بارے میں لکھا ہے کہ ”قاضی سراج مولانا آزاد کی زندگی اور ان کے اصولوں سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔میں نے ان کی زندگی میں مولانا آزاد کی کئی صفات کا عکس دیکھا ہے۔ مثلاً یہ قول کہ سچے اور دُھن کے پکے اور وفا شعار ہیں جس سے ناطہ جوڑ لیا۔ جوڑلیا (خود کبھی نہیں توڑتے) عزم اور ارادے کے اتنے پختہ کہ جو سوچ لیا، اب آندھی آئے یا طوفان وہ ارادہ کبھی نہیں بدلتے غالباً یہی چند قدرے مشترک ہیں جنہوں نے ان کو مولنا آزاد جیسے بااصول، پر عزم، سچے اور وفاشعار جیسے شخص پر لکھنے پر متحرک کیا“۔اس عمر میں تصنیف و تالیف اور اشاعت کے کام کرنا بڑی ہمت اور حوصلے کی بات ہے، اللہ پاک انہیں ہمت اور طاقت عطا فرمائے آمین۔ 20نومبر 2020ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285755 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More