ماضی اور حال میں مطابقت

پرانےوقتوں کی بات ہے کسی ریاست پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔رعایا کو یہ باورکرایا جاتا کہ بادشاہ کے بغیر ان کا وجود خطرے میں ہے،جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔بادشاہ کا تخت اسی پالیسی کے سہارے قائم و دائم تھا۔اصولاًرعایا کےامن وامان اور سلامتی کی ذمہ داری سپہ سالار پہ تھی ۔ جو تلوار اور لشکر کے زور پر میدان جنگ میں ان کے حق کے لیے جستجو کرتا۔اسی طرح آج اہل ِوطن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ فوج کے بغیر وہ کچھ نہیں ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کی عمارت بہت سے اداروں پر استوار ہوتی ہے اور فوج انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔باقی اداروں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سارا کرٰیڈٹ فوج کی جھولی میں ڈالنا انصاف نہیں۔

آئینی لحاظ سے وزیراعظم ملک کا سربراہ ہےمگر فوج کے ہاتھوں پامال ہوتا رہا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔آزادی کے وقت سے لے کر آج تک ملک میں آمریت رہی ہے یا زیب برقع آمریت۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہاتھی جھنڈ میں گھومتے ہیں اس لیے ان کے آگے کھڑا ہونا مشکل ہے۔ لہذا شیر، چیتا اور لومڑی سب ان کی مرضی سے اقتدار میں آتے ہیں۔چیتا اقتدار میں آنے سے پہلے ہاتھیوں کی منہ زوری کے خلاف تھا۔ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ گھی کس بھاؤ بکتا ہے۔سو نا چاہتے بھی اس نے ہاتھیوں سے ہاتھ ملایا اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

جیسا کہ شیربھی ہاتھیوں کے گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہے ۔ آج کل ملکی خزانہ لوٹنے کا جرم ثابت ہونے کے بعد چیخ و پکار کر رہا ہے اور سچ بول رہا ہے تاکہ دباؤ بڑھا کے سزا سے بچ جائے۔لومڑی حسبِ سابق سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے منظر کا مزا لے رہی ہے اور اپنے وقت کی منتظر ہے۔ہاتھیوں نے مفادات کی خاطر اس کے کالے کرتوت پہ پردہ ڈالے رکھا۔ان سب کی نا اہلیوں کی وجہ سے آج ہاتھی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مختلف شعبوں میں فائز ہے۔

ہمیں ایک قوم بن کے اس مسئلے کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہاتھیوں کے ہاتھوں اپنے حقوق کی پامالی روکنے کےلیے مل کر کوشش کرنا ہوگی۔آئین کو روبرو رکھتے ہوئے بادشاہت یا اقتدار کو قائم کرنا ہوگا۔ یہی وہ آخری راستہ ہے جس سے ہم ترقی کر سکتے ہیں۔
 

Usama Hussain
About the Author: Usama Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.