کنفیوشس اور لاؤزے

چین میں 1046 ق م سے 256 ق م تک ژو (Zhou) خاندان کی حکمرانی رہی۔ ژو خاندان کا دور چین کی تاریخ کا ایک بہترین باب ہے۔اس دور میں چین نے بے پناہ ترقی کی ۔علم پروری کے لحاظ سے اسے سو فلاسفروں کا دور کہا جاتا ہے۔مشہور فلسفی کنفیوشس اور لاؤزے اسی دور میں ہوئے۔ ان فلسفیوں نے حکمرانوں کو آداب حکمرانی سکھائے۔ مختلف ادوار میں ہر مذ ہب کے لوگوں نے چین میں اپنے مذہب کے حوالے سے جگہ بنانے کی کوشش کی مگر سوائے بدھ مت کے ، کوئی مذہب بھی اپنے لئے معقول جگہ نہ بنا سکا۔بدھ مت چین سے ہی جاپان کوریا اور دیگر ممالک میں پھیلا۔ چین کے لوگ بنیادی طور پر اپنی نامور شخصیتوں کی پوجا کرتے اور ان کے افکار پر عمل کرتے ہیں۔ چنانچہ کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم کی شکل میں انکے نامور فلاسفروں کنفیوشس اور لاؤزے کے افکار ہی چینیوں کے نزدیک مذہب کا درجہ رکھتے ہیں۔

کنفیوشس کا جس کا عہد 551 ق م سے 479 ق م ہے ،چین کی تاریخ کا اہم ترین فرد شمار ہوتا ہے۔ اپنی تعلیمات میں اس نے ایک منظم معاشرے میں فرد کے سماجی مقام پر بات کی ۔ اس کے نزدیک رن (Ren) ایک انسانی جذبہ ہے جو انسان کو نیکی پر مائل کرتا ہے اور اس جذبے کو حاصل کرنے کا راستہ لی (Li) ہے جو بہترین سماجی اور معاشرتی معیار ہے جس معیار پر پہنچنے کے لئے آپ کو ایک موزوں کردار (Yi) پورے شعور سے اپنانا ہوتا ہے۔فرد کی صحیح تربیت ہی ایک پر امن اور منظم معاشرے کے لئے ضروری ہے۔ معاشرے کی جانب ایک اعلیٰ رویہ نہ تو تعمیلی ہوتا ہے اور نہ ہی باغیانہ بلکہ (YI) کے مطابق ہوتا ہے۔ کنفیوشس کے نزدیک Ren) ) کے مطابق حکومت، حکمرانی کرنے کا اعلیٰ ترین طریقہ ہے۔ حکمران اپنے معاشرے کا مثالی نمونہ ہوتا ہے۔سیاسی میدان میں ناکامی پرکنفیوشس نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ درس و تدریس میں صرف کیا۔ اس کی تحریریں کنفیوشس کلاسکس کے نام سے مشہور ہیں۔کنفیوشس کہتا ہے،’’اگر تم سیاسی قوت کے بل بوتے پر لوگوں کی قیادت کرو گے ۔ قانون اور سزا کے خوف کے ساتھ ان پر حکومت کرو گے تو وہ بظاہر قانون کی خلاف ورزی سے گریز تو کریں گے مگر ان میں شرم و حیا کا احساس نہیں ہو گا۔لیکن اگر آپ کی قیادت اخلاقی قدروں پر استوار ہو گی تو لوگ شرم بھی کریں گے اور خود بخود نیکی کے کام کریں گے‘‘۔ کنفیوشس نے چین کو بیوروکریسی اور سرکاری عہدیداروں کے لئے ایک اخلاقی لائحہ عمل دیا جس کی بنا پر چین وہ پہلا ملک ہے جس نے اخلاقی قدروں کی حامل ، بہترین اور تعلیم یافتہ کرپشن فری بیوروکریسی کو فروغ دیا۔

لاؤزے604 ق م میں پیدا ہوا۔ اس کی وفات کے بارے بہت سی کہانیاں ہیں۔ کچھ روایات کے مطابق لاؤزے ایک لافانی انسان تھا اور کبھی نہیں مرے گا۔ وہ زندہ ہے اور کسی وقت بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔کچھ روایات کہتی ہیں کہ لاؤزے ریاست سے ناراض ہو گیا اور اس نے چین کو چھوڑ کر مغرب کی طرف ہجرت کر لی۔ سرحد کے محافظوں نے پہچان کر اسے روک لیااور اسے اپنی حکمت سے آگاہ کرنے کا کہا۔ اس سے اگلے چند ہفتوں میں لاؤزے نے ایک چھوٹی سی کتاب (Tao te ching) کا مسودہ محافظوں کے حوالے کیا اور ایک سانڈ پر سوار ہو کر مغرب کی طرف روانہ ہو گیااس کے بعد اس کی کوئی خبر نہ آئی۔ لاؤزے کی وہ تصویر اور مجسمے جن میں اسے سانڈ پر سوار دکھایا گیا ہے آج بھی چین میں بہت مشہور اور مقبول ہیں۔بعض دیگر روایات کے مطابق وہ 531 ق م میں چین ہی میں فوت ہوا اور وہیں دفن ہوا۔ (Tao te ching) راستہ اور اس کی قوت، لاؤزے کی وہ کتاب ہے جس کے حوالے سے اس کی تعلیمات کو تاؤ ازم کے نام سے منسوب کیا گیا۔لاؤزے کہتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز ایک مخصوص راستے پر چل رہی ہے۔ جس کی قطعی تعریف ممکن نہیں ۔غیر قطعی طور پر اسے تاؤ یعنی راستہ کہتے ہیں۔ مسائل اور مصیبت پر قابو پانے کا سب سے موثر اور بہتر راستہ لڑائی جھگڑا اور مزاحمت نہ کرنا ہے ۔ یہ ہتھیار پھینکنا یا اطاعت کرنا نہیں بلکہ کم مدافعت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ضبط اور اختیار کا استعمال کرنا ہے۔ لاؤزے کے مطابق زندگی نرمی اور لچک ہے ،موت سختی اور بے لچک ہے۔لاؤزے نے (Art of War) کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے کہا تھا کہ جنگ کرنے کے سلسلے میں کبھی جلدی نہیں کرنی چائیے بلکہ دشمن کے عزائم، حکمت عملی اور اسکی طاقت کا پورا تجزیہ کرتے ہوئے جنگ نہ کرنے کو طوالت دی جائے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر اپنی حکمت عملی طے کی جائے۔چین آج بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

پاکستان اپنی تہتر(73) سالہ تاریخ کے پہلے پچپن (55) سال دانش کے معاملے میں بہت بانجھ رہا۔ لیکن مشرف کے ابتدائی دور سے جب کہ ایک آمر نے پریس کو آزادی دی، ایسی آزادی جس سے ہمارے جمہوری حکمران ہمیشہ خائف رہتے ہیں تو ہمارے ہاں دانش نے جنم لیا۔ یہ دانش لاثانی ہے اس نے ہزاروں دانش وروں کو جنم دیا۔ ہمارے نئے جنم لینے والے دانش ور ، کالم نگار ہیں، تجزیہ نگار ہیں، اینکر ہیں اور بہت کچھ ہیں ،ان کا کمال یہ ہے کہ چاہے کسی مضمون کی ابجد سے بھی نہ واقف ہوں مگر اس کے بارے اظہار خیال بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ان کی وابستگیاں بھی یکتا ہیں۔ کوئی لفافے سے جڑا ہے، کوئی ذاتی مفاد کے چکر میں ہوتا ہے۔ کوئی کسی کا پروردہ ہے،کچھ ایسے ہیں کہ ان میں حب علی جیسی کوئی چیز نہیں لیکن بعض معاویہ میں وہ ہر حد عبور کرنا جانتا ہے۔بہت ایسے ہیں جو کسی بھی چیز کے بارے اس کے حق اور اس کے مخالف دونوں طرح بولنا جانتے ہیں فقط انہیں ہوا کا رخ پتہ چل جائے۔یہ کنفیوشس اور لاؤزے کی طرح قوم کو رہنمائی تو نہیں دے سکتے کیونکہ ان کا مقام تاریخ کا کوڑا دان ہے مگر بات کرتے خود کو کنفیوشس اور لاؤزے کے ہم پلہ سمجھتے ہیں آج پوری قوم ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کاش کچھ ایسے لوگ بھی اس قوم کو مل جائیں کہ جنہیں قوم کا درد ہو اور وہ ان چینی دانشوروں کی طرح حق بات کہنے کی جرات رکھتے ہوں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447350 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More