تعلیم سے محروم بچے

پھر ایک رپورٹ آئی ہے، پڑھ کر پریشانی بڑھتی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ شرمندگی اس سے بھی زیادہ ۔ یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیابھر کے پرائمری سکولوں سے باہر بچوں کی کل تعداد 6کروڑ 74لاکھ 83ہزار ہے ، پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، پہلا نمبر نائجیریا کا ہے۔ اس لحاظ سے جنوبی ایشیا میں پاکستان کا پہلانمبرہے ، دنیا بھر کے ان بچوں میں ہر نواں بچہ پاکستانی ہے، ان پاکستانی بچوں کی کل تعدادتقریباً 72لاکھ 61ہزار ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داخلوں میں اضافے کا رجحان فروغ پذیرنہیں ہے، اگر سکولوں سے باہر بچو ں میں کمی کی یہی رفتار رہی تو 2015ءمیں یہ تعداد صرف 58لاکھ تک آسکے گی۔رپورٹ میں محرومی کی ایک خاص وجہ غربت بتائی گئی ہے۔

بچوں کی تعلیم سے محرومی کی اہم ترین وجہ غربت ہی ہوگی، کہ غریب والدین اپنے بچے کو کسی ورکشاپ یا ہوٹل میں ’چھوٹا ‘ بنوانے پر ترجیح دیتے ہیں کہ بچہ خود پرخرچ کروانے کی بجائے چند ٹکے گھر لائے تاکہ ان کے والدین کا ہاتھ بٹایا جائے۔ پاکستانی معاشرہ میں وہ کونسا ادارہ ہے ، جہاں چائلڈ لیبر کا رجحان نہیں، جس جگہ پہنچ جائیں ’ اوئے چھوٹے ‘ کے الفاظ آپ کی سماعتوں سے ضرور ٹکرائیں گے۔کتنے ہی بچے ایسے ہیں ، جو عین اس وقت بھی آپ کو کوڑے کے ڈھیروں سے کاغذ چنتے نظر آئیں گے ،جب بہت سے معصوم ، خوبصورت اور اجلے بچے بیگ اٹھائے سکولوں کو جارہے ہوتے ہیں، اگر ان غریبوں کا بھی کوئی آسرا یا رہنما ہوتا تو یہ بھی دیکھنے میں ویسے ہی نفیس اور پیارے لگتے۔

خطرناک اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ہم گراوٹ اور زوال کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، دنیا میں کتنے ہی ملک ایسے ہیں ، غربت اور پسماندگی نے جن کو اپنے بے رحم پنجوںمیں جکڑ رکھا ہے ، جہاں نہ سمندر ہیں نہ دریا، جہاں نہ سرسبز پہاڑ ہیں نہ سونا اگلتے کھیت، نہ ذخائر سے بھری کانیں ہیں اور نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہر افراد۔(نہ وہاں کو ئی ایٹمی طاقت ہے اور نہ ایٹمی سائنسدان)صحراؤں میں نہ سایہ ہے نہ سڑکیں، نہ یونیورسٹیاں اور نہ ہسپتال۔ غربت ،بیماریاں اورجہالت ہی ان کا مقدر ہے، ننگ دھڑنگ بچے ، پسلیاں ایسی نمایاں کہ آپ گن لیں، پیٹ بڑھے ہوئے، آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی، پتلی گردن ، بڑاسر، یہ ہے غریب افریقی ممالک کا معاشرہ۔ افسوس کہ ہم ان سے بھی پیچھے ہیں، ہم سری لنکا ، بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔

اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ تعلیم ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے، نعرے جتنے بھی ہوں ، دعوے جو بھی ہوں، عمل بتاتا ہے کہ حکمرانوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں، تعلیم پر خرچ ہونے والے بجٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم سے حکمرانوں کو کتنی دلچسپی ہے۔وفاقی حکومت کی تو بات ہی کچھ اور ہے کہ وہ لوگ صرف حکومت کررہے ہیں، انہیں کوئی غرض نہیں کہ ملک کدھر جا رہا ہے، قوم کس حال میں ہے، مہنگائی کس منزل کو پہنچ چکی ہے، بدامنی اور خارجہ پالیسی کا کون ذمہ دار ہے، ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیںاور وہ جو بھی ہیں حکمران نہایت یکسوئی سے اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں اور نہایت دیانت داری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایک طرف پنجاب حکومت کہ داخلوں کے سلسلے میں مہم پر مہم چلاتی رہی، عوامی نمائندے بچوں کے داخلہ فارم پر کرنے کی تقریب کا افتتاح کرتے رہے، مگر زمینی حقائق مختلف ہیں، سرکاری سکولوںمیں بچے داخل نہیں ہوتے ، اساتذہ کرام جعلی حاضری کے ذریعے بچوں کے داخلے ظاہر کرتے ہیں، خود خادم اعلیٰ پنجاب کے بقول کہ ہمارے سرکاری سکولوں میں نہ دروازے ہیں، نہ ٹیچر ، نہ واش روم ہیںنہ کمرے ،دوسری طرف دانش سکول، کہ جن میں ایک بچے پر سولہ ہزار روپے خرچہ، دنیا کی تمام سہولتوں سے آراستہ اور تیسری طرف ان معصوم بچوں ک کا مستقبل کہ جو سکول نہیں جاسکے، جن کا مقدر سنوارنے میں حکومت اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہی۔اگر حکمران اعتدال پر چلیں تو اتنا بڑا تضاد نہ رہے اور تمام بچوں کا سکول جانا ممکن ہوسکے ، پاکستان اور پاکستانی اس بڑی شرمندگی سے بچ جائیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430650 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.