ناموس رسالت کا پروانہ غازی علم الدین شہید

علم الدین 4دسمبر 1908ء کو لاہور کے محلہ چابک سواراں میں میاں طالع مند کے گھر پیدا ہوئے ۔ خاندانی پیشہ چونکہ فرنیچرسازی تھا اس لیے علم الدین بھی جوان ہوکر اسی پیشے سے وابستہ ہوگئے ۔1928ء کو یہ خاندان لاہور سے ہجرت کرکے کوہاٹ جا بسا ،جہاں بنوں بازار کوہاٹ میں وہ اپنے آبائی پیشے سے وابستہ ہوگئے۔اس دوران "پرتاب "میگزین کے مدیر مہاشہ کرشن نے ایک کتاب"رنگیلا رسول" کے نام سے لکھی ۔مصنف کتاب نے مسلمانوں کے عتاب سے بچنے کے لیے کتاب ایک فرضی نام ،پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا بطور مصنف کتاب چھاپ دیا۔تاہم اس کتاب پر ناشرکی حیثیت سے راج پال ،ہسپتال روڈ لاہور کا نام لکھا گیا تھا ۔جس سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ یہ منحوس اور نفرت انگیز کتاب کہاں سے شائع ہوئی ہے ۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کے لیے انتظامیہ کو درخواست دی ۔انکار پر مسلمانوں کی جانب سے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کرادیا گیا ۔مجسٹریٹ نے ناشرکتاب کو چھ ماہ قید کی سزا سنادی، جسے بعد ازاں ہائی کورٹ کے جج جسٹس دلیپ سنگھ نے ناشر کتاب کو رہاکرنے کا حکم جاری کردیا ۔جن مسلمانوں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا انہیں جیل میں بند کردیا گیا۔اس کے بعد مسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا فیصلہ کرلیا۔کوہاٹ سے ایک مسلم نوجوان غازی عبدالعزیزلاہور پہنچا ،اس وقت راج پال اپنی دوکان پر موجود نہیں تھا اس کی جگہ ایک اور ہندودوکان پر بیٹھا تھا جس کا عبدالعزیز نے ایک ہی وار میں کام تمام کردیا ۔پولیس نے اسے گرفتارکرلیا اور عدالت کی جانب سے عبدالعزیز کو چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ اس واقعے کے بعد راج پال خوفزدہ رہنے لگا کچھ عرصہ کے لیے وہ لاہور چھوڑ کرکسی اور شہر میں جا بسا ،وہ یہ سمجھ کر چند ماہ بعد واپس لاہور اپنی دوکان پر آ بیٹھا کہ مسلمان اس واقعے کو بھول چکے ہونگے اس طرح اس نے دوبارہ کاروبار شروع کردیا ۔علم الدین 6اپریل 1929ء کو کوہاٹ سے لاہور پہنچا اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انارکلی نزد مزار قطب الدین ایبک آیا اور للکار کر کہا راج پال اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اپنی کتاب کو تلف کردو اور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آ جاؤ۔راج پال خاموش رہا ۔علم الدین نے چاقو نکالا اورچاقو کے ایسے وار کیے کہ راج پال وہیں ڈھیر ہوگیا۔انارکلی پولیس اسٹیشن میں دوکان کے دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ کی گواہی میں قتل کی ایف آئی آر درج کرکے علم الدین کو گرفتارکرلیاگیا ۔اس واقعے سے شہر لاہور میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کرکے ہندو مسلم فسادات پر قابوپانے کی کوشش کی ۔قتل کا یہ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔ انہوں نے ملزم پرفرد جرم عائد کرکے اس کا بیان لیا اور مقدمے کو سیشن کورٹ کے سپرد کردیا۔مسلمان وکیل سلیم بار ایٹ لاکی جانب سے علم الدین کے حق میں معقول دلائل پیش کیے گئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا فرد جرم عائد کرکے 22مئی 1929ء کو علم الدین کو پھانسی کا حکم سنا دیا۔مسلمانوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی ۔ وکالت کے لیے قائداعظم محمد علی جناح ممبئی سے لاہور تشریف لائے ۔15جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرکے سیشن کورٹ کا فیصلہ بحال رکھا ۔اس عدالتی فیصلے پر علم الدین نے " شکرالحمد ﷲ " کہہ اپنی خوشی کا اظہار کیا اورکہا میں تختہ دار پر چڑھ کر رسول کریم ﷺ پر اپنی حقیر جان کو قربان کرنا باعث اعزاز تصور کرتا ہوں۔امن وامان کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ نے 4اکتوبر 1929ء کو علم الدین کو میانوالی جیل منتقل کردیا ۔ پھانسی سے پہلے مجسٹریٹ نے آپ کی آخری خواہش پوچھی تو علم الدین نے کہا دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے،شکرانے کے نفل پڑھنے کے بعدوہ خود چل کر پھانسی گھاٹ پہنچے ۔اس طرح 31اکتوبر 1929ء بروز جمعرات کو پھانسی دے دی گئی۔ شہید کی نعش کو لاہور لانے کی بجائے متعصب انتظامیہ نے جیل میں ہی گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیا۔4نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد( جس میں سرمحمد شفیع ،میاں عبدالعزیز ،مولانا ظفر علی خاں ، سرفضل حسین ،خلیفہ شجاع الدین ، میاں امیرالدین ،سرڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے)گورنر پنجاب سے ملا ۔گورنر پنجاب سخت شرائط پر نعش کی واپسی پر آمادہ ہوئے ۔جس کے بعد مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مرزا مہد ی حسن مجسٹریٹ کی قیادت میں 13نومبر کو میانوالی پہنچا ، علم الدین شہید کی نعش کو گڑھے سے نکالا جس سے بدبو کی بجائے خوشبو آرہی تھی ۔نعش کو پہلے ڈپٹی کمشنر کے بنگلے پر لایا گیا جہاں سے شہید کی میت کو بذریعہ ٹرین 15نومبر 1929ء کو لاہور چھاؤنی کے سٹیشن پر لایا گیا ۔شہید کی یہ نعش محکمہ جیل نے سرمحمد شفیع اور علامہ محمد اقبال کے سپرد کی ۔غازی علم الدین شہید کے جنازے میں ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ سے زائدافراد شریک ہوئے ۔نماز جنازہ خطیب جامع مسجد وزیرخاں قاری محمد شمس الدین نے پڑھائی ۔علامہ ڈاکٹرمحمد ا قبال اور مولانا دیدار شاہ نے اپنے ہاتھوں سے میت کو لحد میں اتارا۔لوگوں نے اتنے پھول نچھاور کیے کہ شہید کی میت پھولوں سے ڈھک گئی ۔بعدازاں غازی علم الدین شہید کو قبرستان میانی صاحب میں دفن کردیا گیا۔یہ تو صرف ایک واقعہ ہے لیکن جہاں بھی کسی نے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جسارت کی ،امت مسلمہ کا کوئی نہ کوئی فرزند اس گستاخ کی گردن مارنے کے لیے پہنچ جاتا ہے ۔اب فرانس کے صدر اور ان بدبختوں کے سر قلم کرنے کی باری ہے جنہوں نے نبی رحمت اللعالمین کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات کی ۔اﷲ نے چاہاتو یہ کام بھی بہت جلد انجام پا جائے گا۔ان شاء اﷲ

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 666839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.