شعیب آفتاب: جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

آج کل آپ کسی بھی قومی اخبار کی ویب سائیٹ پر جائیں تو اس پر ایلن انسٹی ٹیوٹ کا اشتہار نظر آجائے گا۔ یہ طلباء کو نیٹ کے امتحان کی تیاری کروانے والا نامور ادارہ ہے۔ ملک بھر میں اس کی ۲۲ شاخیں ہیں اور عرب دنیا کے چار ممالک میں بھی یہسر گرمِ عمل ہے۔ اس سال پہلے ۱۰۰ طلباء کے اندر ۳۷ کا تعلق ایلن سے ہے اور پہلے دس میں اس کے ۴ ہیں۔ اس ادارے میں داخلہ آسانی سے نہیں ملتا۔ ایسے میں اڈیشہ جیسی پسماندہ ریاست کے غیر معروف شہر راورکیلا کے ایکطالب علم شعیب آفتاب کے دل میں وہاں داخل ہونے کا خیال پیدا ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ اس نےڈی سوزا اسکول سے دسویں جماعت میں 95 فیصد نمبر حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر بننے کا ارادہ کیا اور اس طرح کامیابی کے ایک سہانے سفر کا آغاز ہوگیا ۔علامہ اقبال کا ایک ضرب ا لمثل شعر تقریر و تحریر میں تو کثرت سے استعمال ہوتا ہے لیکن اسے پڑھنا اور سننا جس قدر سہل ہے اس کو عملی جامہ پہنانا اتنا ہی مشکل ہے ۔ شعیب آفتاب نے اس شعر پر عمل کرکے دکھانے کاکارنامہ انجام دے دیا ہے؎
یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

شعیب آفتاب کی تعریف میں اسکول کےپرنسپلنے کہا تھا کہ ’’وہ شروع سے ہی پڑھائی کو بہت سنجیدگی سے لیتا تھا اور بچپن سے ہیڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔‘‘ خواب دیکھنا ایک عام سی بات ہوتی ہے لیکن انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کا حوصلہ سب میں نہیں ہوتا ۔ ویسے بھی شعیب ایک عام سے خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ اس کے والد محمد عباسشیخسڑکیں اور پل تعمیر کرنے والے ایکٹھیکیدار ہیں ۔ایلن انسٹی ٹیوٹ میں داخلے کے بعد آسانی تو یہ تھی کہ وہ رانچی کی شاخ کاانتخاب کرتا کیونکہ راورکیلا سے رانچی کا فاصلہ 168 کلومیٹر ہے یعنی اسے عبور کرنے میں صرف ساڑھے چار گھنٹےلگتے ہیں لیکن شعیب نے ہیڈ آفس کوٹہ میں داخلہ لینا پسند کیا۔ یہ فاصلہ 1401 کلومیٹر کا ہے یعنی اس کے لیے کم از کم 28 گھنٹے درکارہوتے ہیں ۔ بقول شاعر؎
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے

انسان اپنے علاقہ کو چھوڑ کر کسی اجنبی شہر میں جانے کا فیصلہ اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کے اندر ایک محکم یقین ہو یعنی علامہ اقبال نے جہادِ زندگانی کی جو پہلی شاہِ کلید بتائی وہ مرحلہ تو طے ہوگیا اور اسی کے ساتھ عمل پیہم کے سلسلے کا آغاز بھی ہوگیا۔اپنے مقصدکے تئیںشعیب کی سنجید گی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بار راور کیلا سے کوٹہ گیا تو پھر ڈھائی سال تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس دوران وہ کسی تہوار پر بھی گھر نہیں گیا۔ اس لیے کئی مرتبہ اس کے والد کو ملاقات کی غرض سے طویل سفر کی زحمت اٹھانی پڑی۔ والد نے اس سے کہا کہ کچھ روز کے لئے گھر آ جا ئے لیکن اپنی دھن کا پکا شعیب امتحان کی تیاری میں لگا رہا۔ دیگر طلبادیوالی اور عید کی چھٹیوں میں اپنے گھروں کو چلے جاتے لیکن وہ کوٹہ ہی میں رہتا تاکہ پڑھائی میں خلل واقع نہ ہو۔ اس دوران کورونا کی وباء آگئی اور لاک ڈاؤن لگا تو سبھی طلباء اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن وہ وہیں رک کر خوب یکسوئی کے ساتھ تیاری میں لگا رہا۔ لاک ڈاون کی مہلت نے اسےاپنا سبق پھر سے دہرا نے کا موقع عطا کردیا۔ اس کو کہتے ہیں محکم یقین کے ساتھ پیہم عمل ۔ بقول ابو تراب؎
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا

اس معاملے میں تیسرے پہلو یعنی محبت فاتح عالم کا مظاہرہ شعیب آفتاب کے اہل خانہ نے کیا، خاص طور پر چھوٹی بہن اور والدہ سلطانہ نے جو اپنے بیٹے کے ساتھ کرائے پر مکان لے کر کوٹہ منتقل ہوگئیں ۔ اس فیصلے کی وجہ سے یقیناً شعیب کے والد محمد عباس شیخ کو زحمت ہوئی ہوگی لیکن اپنے بیٹے سے محبت نے ان سب کے لیے اس قربانی کو پیش کرنا آسان کردیا اور وہ بھی اس جدوجہد کا حصہ بن گئے اس لیے کامیابی میں برابر کے شریک ہیں ۔ اس سال نیٹ کے امتحان میں تقریباً 14.37 لاکھ سے زائد امیدواروں نےشرکت کی اور ان میں سے شعیب آفتاب اور دہلی کی رہنے والی آکانشا سنگھ نے کل 720 میں سے 720 یعنی صد فیصد نمبر حاصل کرلیے لیکن پہلے نمبر پر تو کسی ایک کو ہی آنا تھا اس لیے ضابطے کے مطابق ان کے حیاتیات اور کیمیا کے نمبر کا موازنہ کیا گیا تووہ مساوی تھے۔ اس کے بعد نیٹ کا قانون عمر کے مقابلے کا تقاضہ کرتا ہے اور زیادہ عمر والے کو اس کا حقدار ٹھہراتا ہے ۔ اس طرح شعیب آفتاب پہلے پر آگئے اور آکانشا دوسرے نمبر پرچلی گئی۔ محشر بدایونی کے مطابق؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

شعیب کی اس کامیابی کے بعد ملک مختلف چینلس نے شعیب کا انٹرویو لیا اس میں اس نےکہاکہ ’’میرے خاندان میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے اس لئے میں یہ کوشش کی‘‘۔ شعیب نے صرف اپنے خاندان کی حد تک سوچا لیکن اسے پتہ نہیں تھا پورے اڈیشہ میں ابھی تھا کسی کو نیٹ کے امتحان میں اول آنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا تھا اور وہ اپنے صوبے میں یہ اعلیٰ مقام حاصل کرنے والا پہلاطالب علم ہے ۔ اس کی عجز و انکسار کا یہ عالم ہے کہ اپنی اس غیر معمولی کا میابی کے بعد بھی وہ کہتا ہے ’’مجھےاول آنےکی امید نہیں تھی، میں نے سوچا تھا کہ ٹاپ کے پچاس اور سو میں میرا نمبر آ سکتا ہے‘‘۔ اپنی ’امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل‘ رکھنے والے لوگ نہ تو کبرو غرور کا شکار ہوتے ہیں اور نہ مایوسی اور بددلی انہیں دھر دبوچتی ہے ۔
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز

انسان کی ساری تیاری مکمل ہوجائے اور جوہر دکھانے کا موقع ٹل جائے تو جھنجھلاہٹ ایک فطری ردعمل ہے جو لاپرواہی کی جانب بھی لے جا سکتا ہے لیکن اس کی بابت شعیب کا کہنا ہے کہ ’’امتحان ملتوی ہونے کی وجہ سے تناؤ ضرور تھا لیکن ہدف واضح تھا کہ پر سکون رہ کر وقت کا پورا استعمال کیا جائے۔‘‘ اسے کہتے ہیں مصیبت کو موقع(آپدا کو اوسر ) میں تبدیل کردینا۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے خلاف ہے اور میڈیا مسلمانوں کی خامیاں اچھالتا بلکہ گھڑتا ہے لیکن اگر کوئی شعیب جیسا کارنامہ انجام دے ڈالے تواسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ شعیب کی کامیابی کا پیغام یہ ہے کہ ملت کے سامنے کوئی چیلنج ناممکن نہیں ہے ۔ اس سے لوہا لینےکےلیے آخری مغل بادشاہ اور مجاہدین آزادی کےا ولین سرداربہادر شاہ ظفر کی نصیحت پر عمل کرنا کافی ہے؎
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237783 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.