اندھیری راہ کا مسافر

وہ مشرقی پاکستان کے شھر ڈھاکہ میں پیدا ہوا جب اس کے والدین نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کی تو وہ ایک چھوٹا مگر بڑے خواب دیکھنے والا معصوم سا بچہ تھا۔
وقت پر لگا کر اڑتا گیا وہ معصوم بچہ اب نوجوان ہوچکا تھا تعلیم کی طرف اس کی کوئی خاص رغبت نہیں تھی لیکن اسکا دماغ تکنیکی صلاحیتوں سے مالامال تھا
بچپن میں بھی وہ کھلونوں میں آلٹریشن کر کے ان کو کچھ کا کچھ بنا دیا کرتا تھا
وہ اپنی فیملی سے بےپناہ محبت اور ان کا خیال رکھنے والا نوجوان تھا
چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انجوائے کرتا تھا
بہت مشکل سا انسان تھا وہ مگر اچھی تعلیم و تربیت اگر میسر آجاتی تو ہیرا ثابت ہوتا
مگر کوئی تھا ہی نہیں جو اس ہیرے کو تراشتا
وقت کے ناخداوں کے ہتھے چڑھ گیا وہ ہیرے جیسا جوان
اور پھر وہ غیر تراشیدہ ہیرا ایک دن ہیرو بن گیا
مگر ایک ایسا ہیرو جو چند لوگوں کیلیے تو یقینا ہیرو تھا مگر درحقیقت معاشرے کے لئیے وہ ایک ولن تھا
اسکو خود نہیں پتہ تھا وہ کیا کر رہا ہے؟
محض ایک شخص کی خاطر وہ اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال چکا تھا
وہ بھلا چکا تھا کہ وہ کون ہے کیوں ہے مقصد حیات کیا ہے
وہ بس خوش کن ومتاثر کن نسلی تعصب پر مبنی نعروں سے متاثر ہو کر سراب کے پیچھے چل پڑا تھا
وہ معاشرے کا ٹھکرایا ہوا نوجوان،معاشی بدحالی میں پل کر جوان ہوا تھا
اس جیسے نہ جانے کتنے جوان ان فریب ذدہ نعروں سے متاثر ہو کر اپنی قسمتیں اک شخص کے ہاتھوں میں دے کر اپنے مستقبل کو برباد کر بیٹھے تھے
اس کے شب وروز بس احکامات کی تعمیل میں گزرتے تھے
وہ کچھ کر گزرنا چاہتا تھا
کچھ کر گذرنے کے لئے اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے
تو اس نے بھی اپنے شعبے یعنی مسلح جد وجہد میں "جس کو وہ حقوق کی جنگ سمجھتا تھا"
خاص مہارت حاصل کر لی
وہ کوئی سا بھی اسلحہ منٹوں میں کھول کر دوبارہ اصل حالت میں لا سکتا تھا
گاڑی بھگانے، موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئےاسلحہ چلانے سے لیکر نشانہ بازی تک اسکا ثانی نہ تھا اس بات کے معترف سارے قریبی ساتھی اور اس کے تنظیمی سرپرست خود تھے۔
ابتدا میں پولیس اور تھانے سے اسے بھی ڈر لگتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل سے پولیس کا خوف نکل گیا اور اسےپولیس کے ساتھ آنکھ مچولی میں مزہ آنے لگا
بس اسی سرشاری اور مصروفیت میں اسکے شب روز گذر رہے تھے گھر واے اور عزیز و اقارب بےخبر تھے نہیں جانتے تھے وہ کہاں جاتا ہے کہاں غائب رہتا ہے کسی کے پاس یہ سب جاننے کی نا فرصت تھی اور نا ہی ضرورت
کب پڑوسی دشمن ملک کی سرحد عبور کر کے ٹریننگ کیمپس تک جا پہینچا
کب وہاں سے واپس آکر قریبی ندی میں اپنے ہی بنائے گئےفائرنگ رینج میں دوسرے نوجوانوں کو ٹریننگ دینا اور نشانہ بازی کی مشقیں کروانا شروع کر دئیں
کہا ناں وہ وقت سے آگے نکل چکا تھا
شائد واپسی کا راستہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے ہی بند کر دیا تھا
وہ کھلنڈرا سا نوجوان خاندان سے دور ہوتا چلا گیا
اورویسے بھی اس کے تراشیدہ بت کی خواہش بھی یہی تھی کہ اس کے سوا سب کو بھلا دیا جائے، عزیز و اقارب دوست احباب سب بےمعنیٰ ہو چکے تھے والدین اور بھائی بہن اسکے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے لہذا وہ مستشنیٰ
حتیٰ کے مذہب کو بھی "اس شخص" کی محبت کے آڑے نا آنے دینے کا عہد کر چکا تھا جب ہی تو بہت خاص تھا وہ ۔۔۔۔۔۔
جد وجہد اگر غیر مسلحہ اور عدم تشدد پر مبنی ہوتی تو کبھی بھی اتنی سرعت سے کامیابی کی سیڑھیاں طے نہیں کیا جاسکتا تھا اسی لئے ابتدا میں جو لوگ ساتھ چلے تھے وہ ساتھ چھوڑنے لگے راستے الگ بنائے جانے لگے
یہ بات ہرگز گوارہ نا تھی لہذا جو جنگ حقوق کے نام پر دوسری قومیتیوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اب اپنےہی ہم ذبانوں کے ساتھ چوک اور چوراہوں میں شروع ہوگئی
دونوں طرف کا نقصان اپنا ہی نقصان تھا
کچھ لوگ صرف مال و متاع کی لالچ میں تنظیم کے ساتھ تھے انہوں خوب مال بنایا
سربراہ سمیت بہت سے لوگ ملک چھوڑ گئے
مگر اس سمیت بہت سے لوگ جو دل سے اس تحریک کے ساتھ تھے جن کا نا تو ان کو کوئی لالچ تھا نا انکے ذاتی مقاصد تھے وہ تو حکم کے غلام تھے حکم پاکستان سے ملے یا باہر سے ان کی ذندگیوں میں کوئی فرق نا پڑا۔۔۔۔
البتہ اب خطرہ بڑھ گیا تھا کیونکہ دشمن اب اپنے ہی تھے
اب چھپنے چھپانے کا سلسلہ شروع ہوا
وہ اپنےایک ساتھی سمیت ملک سے باہر بھی نکل گیا مگر دوسری پارٹی کے بچھائے جال میں پھنس کر وطن واپس آگیا
یہ اس جنجال سے نکلنے کا واحد راستہ تھا جو بند ہو گیا
اب حالات دن با دن مشکل ہوتے جارہے تھے پولیس اور ادارے تنظیم کے ان کارکنان کو سونگھتے پھر رہے تھے جو کبھی دہشت کی علامت تھے
اب تو پولیس اور اداروں کو بحت سے منحرف لڑکوں کا ساتھ میسر تھا جو انکے خفیہ ٹھکانوں سے واقف تھے
ایک دوست نے اس موقعے پر اسےجہنم سےنکلنے کا مشورہ دیا
مگر وہ ڈرتا تھا کہ اس کےاسطرح سے نکل جانے کی سزا اس کے گھر والوں کو نا دے دی جائے۔۔۔
اسی بات نے اس کے ارادوں کو اور پختہ کردیا
اپنے پرائے سب اسکو قابو کرنا چاہتے تھے حالات بہت خراب ہو چکے تھے
قدرت نے اسے ایک موقع اور دیا
اب اس کے پاس دو راستے تھے اسلحہ پھینک کر گرفتاری دے دیتا یا اپنی نام نہاد مسلحہ جدوجہد جاری رکھتا
اس بار وہ پھر غلطی کر گیا اس نے مسلحہ جدوجہد کا راستہ اپنایا
اوربالآخروہ گھڑی بھی آگئی جب وہ گرفتار ہوا
میں سوچتا ہوں کیا اس گھڑی اس کو احساس ہوا ہوگا کہ وہ غلطی پر تھا۔۔۔۔۔
ہاں شائد
لیکن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی بےخوفی کے ساتھ موت کو شکست دینے والا اس با بازی ہار گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نامعلوم وجود جس کے حوالے سے خبریں جنم لیتی تھیں خود خبر بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہیرا جس سے بہت سی کرنیں پھوٹ سکتی تھیں محض ایک پتھر ثابت ہوا جو بالآخر پیوست خاک ہوا۔۔۔۔۔

 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 41 Articles with 56341 views "I write to discover what I know.".. View More