اندازِ فکر

قوموں کا عروج و زوال فطرت کے طے شدہ اصولوں کے مطابق عمل پذیر ہوتا ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں ہوتی یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی قوم سعی و عمل کی کھیتیاں آباد کرے اور ا مامتِ دنیا سے سرفراز نہ ہو۔ دنیا کی امامت ہمیشہ انہی قوموں کا مقدر بنتی ہے جو خونِ جگر سے اپنی تقدیر لکھتی ہیں اور انصاف کو اپنے معاشرے میں رو بعمل کرتی ہیں۔کردار کی عظمت سے معاشروں کا قو می مزاج تشکیل پاتا ہے جو قوموں کے عروج و عظمت کی بنیاد بنتا ہے لہذاقومیں ا مانت و دیانت کے زینوں پر پاﺅں رکھ کر قدم بہ قدم راہِ حیات میں اپنے لئے نئی راہیں تراشتی چلی جاتی ہیں ۔فکرو عمل اور صداقت ہی وہ حقیقی جوہر ہے جس سے قومیں تشکیل پاتی ہیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ حاصل کرتی ہیں۔ہر وہ قوم جس میں انصاف و قانون ، برابری اور دیانت کا مادہ مفقود ہو جا تا ہے کبھی بھی ہم عصر اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی زندگی کی دوڑ میں ان سے آگے نکل سکتی ہے۔ہر قوم کےلئے ضروری ہے کہ وہ قومی جذبوں سے سرشار ہو ، احتساب کی کڑی آزمائش پر پوری اترتی ہو اور جواب دہی کی شمشیرِِ برہنہ کی کاٹ سہنے کا مادہ رکھتی ہو ۔ کرپشن لو ٹ کھسوٹ اور اقربا پروری معاشر ے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے لہذا جب تک اس قبیح فعل کے تدارک اور روک تھام کی سوچ کو غالب عنصر کی حیثیت سے کو قومی مزاج میں تسلیم نہیں کیا جاتا ترقی کے سار ے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔دانش کردار کےلئے راستوں کا تعین کرتی ہے اور عمل کی قوت ان راستوں پر کامیابیوں کے پھول کھلاتی ہے لہذا دانش کے بغیر جدید معاشروں کا وجود ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر۔۔ نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر (ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

اگر ہم اقوامِ عالم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں چنداں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ جن قوموں نے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی وہی قومیں ترقی یافتہ اقوام کہلانے کی سزا وار ٹھہریں اور اقوامِ عالم میں عزت و احترام کی حقدار بنیں۔پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے ۴۶ سال گزر چکے ہیں لیکن ہماری حالت آج بھی وہی ہے جو آج سے کئی سال پہلے تھی۔ بار بار کے مارشل لاﺅں اور غیر جمہوری رویوں نے ہمیں وہ ادارے تشکیل نہیں کرنے دئے جو کسی قوم کی ترقی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی اقوام آج ترقی کے قابلِ رشک مقام پر فائز ہیں لیکن ہم آج بھی انگنت مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور ہما را عام شہری گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔ دھشت گردی کی فضا نے پوری ترقی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اقوامِ عالم ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ کہ ہم نے قول و فعل میں تضاد کی روش کو اپنا رکھا ہے۔کرپشن ،لاقانونیت اور ا ستحصال ہمارے معاشرے کے وہ چند بنیادی خصائص ہیں جن پر ہمارے معاشرے کی بنیادیں رکھی ہو ئی ہیں لیکن اس کے باو جود ہم اپنے منفی رویوں کی موجودگی میں یہ توقع رکھتے ہیں کہ دنیا ہماری منشا اور مرضی کے مطا بق چلے ۔اسکی ساری سرگرمیاں ہماری خواہشوں اور آرزﺅ ں کے مطابق تشکیل پائیں، دنیا کی ساری بڑی طاقتیں ہم سے دب کر رہیں اور وہی کچھ کریں جو ہم چا ہیں۔ وہ اسی کردار کا مظاہرہ کریں جو ہماری خواہشوں کا آئینہ دار ہو۔ دنیا ہماری مٹھی میں بند ہو اور ہم جب چاہیں اس بند مٹھی کو کھول ِکر حسبِ خواہش نتائج حاصل کر لیں ہماری حالت اس ننھے منھے بچے کی سی ہے جو چاند کو دیکھ کر اسے اپنی مٹھیوں میں بھینچنا چاہتا ہے لیکن چاند کبھی یوں مٹھی میں بند نہیں ہوا کرتا ۔ سچ کہا تھا دیدہ ور نے کہ طفلانہ خواہشوں کی کوئی حد اور کنارا نہیں ہوتا ۔۔ ۔

۲ مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اورا س نے ہمیں دنیا میں اپنی اوقات بتا دی ہے۔ امریکی کمانڈوز نے حکومتِ پا کستان کو اعتماد میں لئے بغیر فوجی آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا اور ہم قومی خود مختاری کے رھوندے جانے پر احتجاج کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔امریکی ٹیکنالوجی نے ہمارے سارے نظام کو بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا اور ہمیں یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر کسی نے ہمارا راستہ روکنے کی جسارت کی تو اس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے۔ہم جو چاہیں گے اور جب چاہیں گے، جہاں چا ہیں گے اور جیسا چاہیں گے کریں گے کیونکہ آپ نے ہمیں اور ساری دنیا کو دھوکہ دیا ہے۔ دھشت گردی میں مطلوب سب سے خطرناک شخص کو اپنے ہاں پناہ دے ڈالی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔اگر ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ القاعدہ کے کچھ اور دھشت گردبھی پاکستان میں چپھے ہو ئے ہیں تو ہم ایسا دوبارہ کریں گے اور کسی میں اتنی طاقت نہیں ہو گی کہ ہمیں روک سکے۔ باعثِ حیرت ہے کہ جو ملک امریکہ کے طیاروں کی نقل و حرکت کو آبزرو کرنے اور اس کی اطلاع دینے سے قاصر ہے وہ ملک امریکہ سے جنگ کا خطرہ مول لینے کی بڑھکیں مار رہا ہے۔مذہبی شدت پسند تو ہمہ وقت جہاد کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ انھیں تو کچھ اور آتا ہی نہیں ہے ۔وہ اسلام کے اجلے دامن سے عوام کو ایمان افروز داستانیں سنا کر جہاد کے لئے تیار کرتے رہتے ہیں اور ا نھیں جہادی راہ پر ڈال کر اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ کاش انھیں یہ داستانیں سناتے وقت کردار کی عظمت اور کردار کی پستی کے درمیان مواز نے کا احساس بھی زندہ رہے ۔کر پشن میں لتھڑے ہوئے لوگ ایمان و دیانت کے پیکروں کی ہمسری کرنے نکلیں گے تو جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔تاریخ کے سینے میں عظمتِ اسلام کی ساری داستانیں سچ اور حقیقت ہیں لیکن ان کو سرا نجام دینے والے عظیم افرادکا موازنہ آج کے بے کردار لوگوں سے نہیں کیا جا سکتا لہذا ان داستا نوں والے نتائج بھی حاصل نہیں کئے جا سکتے ۔ اب تو امریکی ڈالروں سے ہر چیز کو تولا اور خریدا جا رہا لہذا اُن زندہ و جاوید داستانوں کا آج کی حقیقی دنیا سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے کیونکہ کردار کی وہ دو دھاری شمشیر اپنی کاٹ کھو چکی ہے جو مرحب جیسے نامی گرامی پہلوان کو ایک ہی وار میں دو حصوں میں کاٹ کر پھینک دیا کرتی تھی۔اقبال نے اس کیفیت کو جس بصیرت افروز انداز میں بیان کیا ہے آپ بھی سنئے اور فکر و وعمل کی شمعیں روشن کر کے اس مقام تک پہنچنے کے خود میں خواص پیدا کیجئے کہ اسی سے قوموں کی عظمتوں کو جلا ملتی ہے۔۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔۔وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے۔۔جہاں گیر و جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا (ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

موجودہ دور میں امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور اسکاغرور تمکنت کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا جو کچھ اسکے من میں آتا ہے حالات کو اسی کے مطابق موڑ دے دیتا ہے۔ کبھی عراق پر حملہ آور ہوتا ہے کبھی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیاتا ہے اورکبھی ایبٹ آباد پر اپنے کمانڈوز سے حملہ آور ہو جاتا ہے اور ہم سکتے کے عالم میں یہ سارا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں چند بھڑکیں مارتے ہیں ۔ نعرے لگاتے ہیں جلو س نکا لتے ہیں اور امریکہ کو بر ابھلا کہہ کر مکر و فریب کی دنیا میں پھر مگن ہو جاتے ہیں۔جھوٹ ،منافقت ، بد دیانی ،فریب اور کرپشن میں ڈ و ب جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہماری قومی خود مختاری پر کسی نے ضر ب لگا ئی تھی جسکا ہم نے حساب چکانا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم سارے خبائث سے توبہ کر کے کردار کی عظمتوں سے اپنے قومی تشخص کو ابھارتے لیکن وائے ناکامی کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔ ہم ذاتی مفا د ا ت کے گورکھ دھندوں میں الجھ کر کردار کی ساری عظنتیں مٹی میں ملا چکے ہیں لہذا اس صدمے کو بھی دوسرے بہت سے صدموں کی طرح سہہ کر اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں مگن ہو چکے ہیں اور پاکستانی مفادات کے ساتھ بھی سیا سی کھلواڑ کرنے سے باز نہیں آتے۔۔

امریکہ اگر اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے تو یہ پاکستان کی بدولت نہیں بلکہ امریکہ کی موجودہ ترقی اس کی اپنی ریسرچ کی بدولت ہے ۔ اس نے تجربہ گاہوں اور لیبارٹریز میں ایجادات کی بنیادیں رکھنے کا فریضہ سر انجا م دیا۔ اس نے علم و حکمت اور دانش کو اپنی قومی زندگی کا شعار بنا یا۔ یونیورسٹیوں میں جدید علوم کے مطالعے نے امریکہ کو اس مقام تک پہنچنے میں مدد دی جہاں پر وہ آج متمکن ہے۔یہ ایک بہت طویل سفر ہے لیکن اس سفر کو امریکی قوم نے تحمل ، صبر، برداشت اور استقامت سے طے کیااور صدیوں کی تحقیق اور تجربات کے بعد امریکہ اس مقام سے بہرہ ور ہوا جس پر وہ آج فائز ہے ۔نعروں سے اگر قوموں کی تشکیل ممکن ہو تی تو پھر مسلمان قوم دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم ہوتی کیونکہ نعرہ بازی میں یہ قوم بے مثل ہے۔ میرے دوستوں یاد رکھو ترقی کے پیمانے دوسرے ہیں اور دھشت گردی سے دنیا کو خوف زدہ کرنے کی بنیا دیں دوسری ہیں۔ ہر وقت جہاد کا بھوت سوار ہو گا اور لوگوں کو بزور اپنی فکر کا غلام بنانے کا ارادہ دل و نگاہ میں بسا رہے گا تو پھر ہر سو دھشت گردی کا ہی راج ہو گا جو دنیا کو جنم دے گا۔دو امریکی مار کر ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو فتح کر لیا ہے اور سارے جہان پر ہماری دھاک بیٹھ گئی ہے حالانکہ ایسا کرناخود کو طفل تسلیاں دینے ور احمقوں کی جنت میں بسنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے درسگاہیں ،دانش گاہیں،تجربہ گاہیں اور رصد گا ہیں بنیادی اہمیت کی حامل ہو تی ہیں۔ کیا ہم نے اس طرح کے ا دارے قائم کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش کی ہے جو موجودہ دور میں ترقی کی بنیا دی شرط ہے ۔ کیا ہمارے پاس وہ تجربہ گاہیں ہیں جہاں پر ہم نئے نئے تجربات سے جدید دنیا کے شانہ بہ شانہ چل سکیں۔ کیا ہم نے جدید دور کے تقاضوں کے مطا بق نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ہے تا کہ وہ ملکی ترقی میں اہم رول ادا کر کے ہمارا سر فخر سے بلند کر سکیں۔کیا ہمارے پاس علمِ فلکیات کے وہ ماہر موجود ہیں جو یہ بر ملا کہہ سکیں کہ جب میں اپنی انگلی کو جنبش دیتا ہوں تو اس کے اثرات کہکشاں پر محسوس کرتا ہوں۔جس ملک کے اندر پانچ فیصد گریجو ایٹس ہو ں اس کی علمی فضیلت کا اندازہ کرنا چنداں دشوارت نہیں ہے۔موجودہ دنیا میں ترقی کا ایک ہی زینہ ہے اور اس زینے کا نام ہے علم۔امریکہ نے ہر قسم کے علم و فن میں کمال حاصل کیا ہے تبھی تو اسے موجودہ عروج حاصل ہوا ہے جس میں وہ تنِ تنہا اس دنیا کی سپر پاور ہے اوردوسرے ممالک اس کی اس برتری کا دم بھرنے کا کام کرتے ہیں۔
کو ئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں۔۔ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔(ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

قومیں چاند پر کمندیں ڈال چکی ہیں ۔ خلا میں بستیاں بسانے کے خواب دیکھ رہی ہیں اور انسانیت ساز منصوبوں پر عمل پیر ا ہو نے کی کوشش میں جٹی ہو ئی ہیں لیکن ہم ہیں کہ حشرات الا رض کی کیفیت سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ پاکستانی قوم ذہین و فطین اور با صلا حیت ہے ۔ جب یہ کسی بھی کام کے کرنے کا اردہ کر لیتی ہے تو پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتی ہے جس کا واضح ثبوت ایٹمی توانائی کے میدان میں ہماری مہارت اور فتو حات ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ تلوار کے دھنی فتح و شکست کے فیصلے کیا کرتے تھے۔جو قوم شمشیر زنی میں زیادہ مہارت رکھتی تھی فتح اسی کی ہمرکاب ہو تی تھی ۔ا بتدائے اسلام کے عرب اس فن میں یدِ طو لی رکھتے تھے اور شمشیر زنی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا لہذا ان کے سامنے قدم جمانا کسی کے بس میں نہیں تھا تبھی تو چند سالوں میں پوری دنیا پر انکی شمشیر زنی کی دھاک بیٹھ گئی اور ایک عظیم مملکت معرضِ وجود میں آگئی۔اسلام کی حقانیت ، جذبوں کی قوت اور شہادت کی آرزو نے ان شمشیر زنوں کے اندر مر مٹنے کی نئی امنگیں اور جذبے ضرور بیدار کئے لیکن ان کے شمشیر زنی کے فن نے دشمننوں کو زیر کرنے اور اسلامی فتو حات میں بنیادی کردار ادا کیا۔آج کا دور دوسرا دور ہے ،آج کے تقا ضے دوسرے ہیں لہذا ہمیں ا نہی تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھ کے فتح و کامرانی کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔

میری دلی آرزو ہے کہ پاکستان کے نام کا ڈنکا پورے عالم میں بجے لیکن فقط خواہشوں سے تو ڈنکے نہں بجا کرتے اس کےلئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ٹیکنا لوجی کا حصول ممکن بنانا ہو گا اور خونِ جگر سے کا میابی کی آبیاری کرنی ہو گی تب کہیں جا کر وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا جو قوموں کی صف میں ہمیں ایک ممتاز مقام عطا کر سکے گا۔ قومیں نہ تو خود کش حملوں سے تشکیل پاتی ہیں، نہ ہی فتنہ فساد سے ترقی کے زینے طے کرتی ہیں اور نہ ہی پدرم سلطان بود کے خوش کن نعروں سے بامِ عروج حاصل کرتی ہیں۔ترقی صرف اسی صور ت میں ممکن ہو گی جب ہم جدید تعلیم کے حصول کو آسان بنا دیں گے اور تحقیق و جستجو کو لازمی قرار دے دیں گے۔ خود کش حملے ایک انسا نیت کش فعل ہے جو اپنے اندر صرف تباہی رکھتا ہے ۔ یہ ایک منفی عمل ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ شدت پسندی معاشرے کی تشکیل میں مثبت کردار ادا کر سکے۔ قومیں تحقیق و جستجو کی قوت سے ترقی کرتی ہیں اور خود کش حملے توقوموں کی ترقی کےلئے سمِ قاتل ہوتے ہیں لہٰذا ان کے اندر سے ترقی کی شعا ئیں پھوٹنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اگر ہم واقعی سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں ہم امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں تو پھر ہمیں مخاصمت اور ٹکراﺅ کا موجودہ اندازِ فکر بدلنا ہو گا اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول پر اپنی توانائیاں صرف کرنی ہو ں گی کیونکہ یہی ایک راہ ہے جو ہمیں بامِ عروج کی جانب پرواز میں ہماری ممدو معاون بن سکتی ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 451547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.