استاد کا عالمی دن

استاد کے عالمی دن پانچ اکتوبر کو عالمی طور پر منایا جاتا ہے تاکہ اساتذہ کی مشکلات کا جان جان سکے۔

• "جو لوگ بچوں کو اچھی تعلیم دیتے ہیں ان کی عزت کرو۔ ماں باپ تمہیں پیدا کرتے ہیں لیکن استاد تمہیں اچھی زندگی گزارنے کا فن سکھاتے ہیں۔" (ارسطو)

• قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والی عظیم ہستی کا نام استاد ہے۔ استاد سے مراد ہر وہ انسان ہے جس نے ہم کو کچھ سکھایا یا پڑھایا،جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا،وہ ہنر ہو یا علم جو بھی ہو ۔

• اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکیو نے 1994ء سے پانچ اکتوبر کو ”ورلڈ ٹیچر ڈے“ منانے کا آغاز کیا، تب سے یہ دن عالمی یوم اساتذہ کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی”ورلڈ ٹیچرزڈے ” کوسلام ٹیچرزڈے کے عنوان سے 2007 ء سے منایا جارہاہے۔

• اسی دن دنیا بھر میں اساتذہ کو سلامِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اہمیت و افادیت اور ہر سطح پر ان کے بنیادی کردار کواجاگر کیاجاتاہے۔

کچھ اہم صفات جو کسی بھی بہترین استاد میں ہونی چاہیے وہ درج ذیل ہیں رہنماء، دوست اور فلسفی،وہ اپنے طلبہ کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین رہنمائی کرے۔ استاد کو چاہیے کہ دوستانہ ماحول میں عقلی اور نقلی دلائل سے اپنے شاگردوں کو مطمئن کریں۔ یعنی اپنے شاگردوں کی رہنمائی عقلی ونقلی دلائل کی روشنی میں دوستانہ ماحول میں کریں۔

استاد کو دور اندیش ہونا چاہیے، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنا چاہیے، تعصب، نفرت کینہ اور عداوت سے پاک ہونا چاہیے، وقت کا پابند ہونا چاہیے۔طلبہ کے ساتھ بہترین رویہ اوربرتاو کرنا، صبر و تحمل سے بات سننا، سنجیدگی سے سوالات کا جواب دینا،احکام شریعت کی پابندی کرنا، حیادار ہونا، اپنے موضوع و مضمون میں ماہر ہونا،اچھائیوں کی تلقین اور برائیوں کی تردید کرنا، پڑھانا اور سیکھانا،ذمہ داری کا احساس کرنا،ضیاع وقت سے بچنا،علمی و قلمی غلطیوں پر اصرار کی بجائے رجوع کرنا،طلبہ کے ذوق و لیول کا اندازہ لگاکر اپنے پڑھانے اور سیکھانے کے طور طریقوں میں تبدیلی لانا اور جدت پیدا کرنا،کتب بینی اور حالات و واقعات سے اپ ٹو ڈیٹ رہنا ایک مثالی اور کامیاب استاد کی علامت ہے۔

اگر آج آپ اچھی پوزیش پہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں سب سے اہم ہاتھ استاد کا ہے۔

استاد کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی زمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے کسی قسم کی کوئی کمی اور کوتاہی نہ کرے ہر قدم پر اپنے شاگردوں کی رہنماہی کرے تمام شاگردوں کو برابر سمجھے کبھی کسی شاگرد میں فرق نہ کرے کیونکہ فرق سے شاگردوں کے دلوں میں استاد کے لیے عزت و احترام کم ہوجاتا ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے بہتر نہیں _ ایک استاد کو اپنے کام میں صابر و سچا ہونا چاہئے کیونکہ وہ ایک نسل کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کر رہا ہوتا ہے انکے مستقبل کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے سارے خوابوں کو عملی شکل دے رہا ہوتا ہے استاد کو شناس 'وقت کا پابند 'خوش اخلاق اور اپنے قول کا پکا ہونا چاہئے جتنا ہو سکے اپنے شاگردوں کے ساتھ محبت و شفیقت سے پیش آے کیونکہ اکثر شاگرد اپنے استاد کی شخصیت سے جلدی متاثر ہوتے ہیں اور بلکل ویسا بنا پسند کرتے ہیں _

دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں وہ مقام دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے جو طلب علم استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہی شاگرد زندگی میں ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں دنیا میں عزت کا مقام انہی لوگوں کا مقدر بنتا ہے جو استاد کو احترام و عزت دیتے ہیں _کسی سیانے نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ باادب بانصیب بےادب بےنصیب _

پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہیں سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔یونیسکو اور عالمی ادارہ محنت نے سفارش کی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے کم از کم اتنی ہونی چائیے۔ کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں ۔
حکام بالا سے گزارش ہے کہ اساتذہ کی تنخواہ کم از کم مزدور کی اجرت کے برابر کیا جائے۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں ایک استاد سے ایک سپاہی کی عزت زیادہ ہے۔

ہمارے ملک میں اکثر لوگ تعلیم یافتہ شخصیات، استاد کی بجائے چھوٹا آفیسر یا کلرک بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

اساتذہ نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس لیے ان کے مالی حالات اگر خراب ہوں گے تو وہ ذہنی سکون سے تعلیم نہ دے سکیں گے ۔
آج کے دن
اساتذہ کے مسائل کا جائزہ بھی لیا جائے جو انہیں درپیش ہیں اور ان کا اذالہ بھی کی جائے۔
مثلاََ اول یہ کہ اساتذہ کو تحفظ دینے اور ان کی کارکردگی کو بہترین بنانے کے لیے پالیسی بنائی جائے۔ دوم یہ کہ اس پیشے میں ایسے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں جو تربیت یافتہ ہوں، جن میں تدریس کا شوق ہو۔ سوم یہ کہ جو لوگ یہ پیشہ اختیار کرنا چاہیں انہیں درس و تدریس شروع کرنے سے پہلے تربیت دی جائے ۔ چہارم یہ کہ اساتذہ کو ان علاقوں میں بھیجا جائے جہاں پر ان کی ا شدضرورت ہے ۔ پنجم یہ کہ ملازمت کے دوران انہیں ہر طریقے سے سپورٹ کیا جائے، اچھی کارکردگی کو سراہا جائے اور ان کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کار صاف و شفاف ہو۔ انہیں با اختیار بنایا جائے۔
پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے۔ نہ انہیں وہ مراعات حاصل ہیں جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں، نہ ہی ان کو کوئی پلیٹ فارم میسر ہے جہاں ان کے مسائل حل ہوسکیں۔ جو چند ایک نام نہاد تنظیمیں ہیں اساتذہ کے حقوق کی دعوے دار، ان کے منتظمین اسکولوں کے منتظم ہیں۔ تو اساتذہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اساتذہ کی ان پلیٹ فارمز پر شنوائی نہیں ہوتی اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

وطن عزیز کی نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو محض کچھ ہزار کی قلیل اور تضحیک آمیز تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور سالانہ 2 فیصد تو کہیں 5 فیصد کی شرح سے تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔انہیں وہ مراعات بھی میسر نہیں'جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی باضابطہ پلیٹ فارم ہے'جہاں ان کے غور طلب مسائل کے حل اور حقوق کی آواز حکامِ بالا تک پہنچایا جا سکے۔ پرائیویٹ اساتذہ کو تنخواہیں فیسوں کی ادائیگی کے بعد ہی ملتی ہیں اور ان کے پاس فیسوں کے علاوہ کوئی اور راہِ حل نہیں ہے۔

آئیے آج ہم وعدہ کریں کہ تمام اساتذد کے دکھ درد اور مصیبت کی میں ان کی مدد کریں گے۔
 

Abul Hassan
About the Author: Abul Hassan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.