مسلمانوں کی قتل گاہ "برما"

نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔جسم کے کسی حصے کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو لازماً جسم کے دوسرے اعضااس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔برما برصغیرپاک و ہند میں ایک چھوٹا سا ملک ہے ،جس کا نیا نام میانمار ہے ۔ جس کی سرحدیں بنگلہ دیش، بھارت ،چین ،لاؤس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ برما نے 4جنوری 1948ء کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔19اپریلِ 1948ء کو برما نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کی۔اس میں چار کروڑ سے زائد لو گ آباد ہیں ،بدھسٹ 80فیصد ، باقی آبادی مسلمانوں اورعیسائیو ں پر مشتمل ہے ۔اس کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 13فیصد بنتا ہے جنہیں برمی نژاد مسلمان کہا جاتا ہے۔ اب ذہنوں میں یہ سوال یقینا پیدا ہوتا ہے کہ ایک بدھ مت ملک میں مسلمان کہاں سے آئے اور یہاں ان کی آمد کب اور کیسے ممکن ہوئی؟ محمد فاروق عزمی لکھتے ہیں یہاں پہنچنے والا قافلہ حضرت علی ؓ کے خاندان کے ایک فرد محمد بن حنیفہ ؒ اور ان کی بیوی خایہ بری ؒ اور دوسرے عزیزواقارب پر مشتمل تھا۔انہوں نے اسی سرزمین پر وفات پائی ۔محمد بن حنیفہ ؒ اور ان کی اہلیہ کی قبریں مینگڈو نامی ٹاؤن کی پہاڑی پر واقع ہیں ۔آپ نے سمندری سفر اختیار کرتے ہوئے کچھ اصحاب کو کوفہ چھوڑا اور خودبذریعہ کشتی خلیج بنگال کے ایک مقام اراکان پہنچے ۔مسلمانوں کی تبلیغ ، حسن سلوک ، سچ بولنے ،ایک اﷲ کی عبادت کرنے، تجارت میں ایمانداری کو لازم و ملزم رکھنے کی خوبیوں نے مقامی لوگوں کو اسلام کی جانب راغب کیا اور بڑی تعداد میں مقامی لوگ مسلمان ہونے لگے۔جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو مسلمان ،برما کے ایک مشہور قریبی دریا "اریا وادی" کے ڈیلٹا میں پہنچے جو "نائین تھرائی " ساحلی علاقے کے قریب ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمان "راخین"کے علاقے میں بھی آباد ہونے لگے اور 9ویں صدی ہجری تک وہیں قیام پذیر رہے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے برما پر ساڑھے تین سو سال1430ء سے لے کر1784ء تک مسلمانوں نے حکومت کی۔1784ء میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمان حکمرانوں پر غلبہ حاصل کرلیا۔اسی دور سے برما میں مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اور متشدادانہ کاروائیوں کا آغاز ہوا۔ مساجد و مدارس کو مسمار کردیا گیا کئی مقامات پر مساجد کو شہید کرکے مندروں میں تبدیل کردیاگیا۔جہاں نماز اور قرآن پڑھے جاتے تھے، وہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی تصویریں اور بت نصب کردیئے گئے۔مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا ۔اس موقع پر بدھ مت حکومت نے ایک دہشت گرد فوج (میگ ) کی بنیاد رکھی اس فوج کا کام ہی مسلمانوں کو قتل کرکے ان کی املاک لوٹنا ، گھروں کو جلانے اور مسلمانوں کی مساجد کو تباہ کرنا تھا۔ حکومتی سرپرستی میں برمی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کررکھا ہے ۔حکومت کی طرف سے بھرتی کیے گئے ان بدمعاش دہشت گردفوج کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا جس کی بنا پر مسلمانوں کا بڑی تعداد میں قتل عام ہوا۔گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کے پورے گاؤں جلا دیے گئے ۔ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔برما کی درندہ صفت فوج نے بچوں کو بھی نہیں بخشا ۔ان کی گردنیں توڑ کر انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔روہنگیاکے مسلم نوجوانوں کو زندہ آگ لگا کر ان کے تڑپنے کا تماشہ دیکھا جاتا ہے۔ کئی مقامات پر زندہ مسلمانوں کو اجتمائی قبروں میں دفن کردیا گیا ۔ لاشوں کے الیکٹرک کٹر سے ٹکڑے کیے گئے۔ خواتین کو برہنہ کرکے درختوں اور بانسوں کی ٹکٹکی کے ساتھ باندھ کر لٹکایا گیا ۔ان مظالم میں بچوں کے سر کاٹ کر انہیں ٹھوکریں مارنا اور مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے واقعات ،گھروں کو جلایا جانا شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق چارلاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان سمندری راستے کے ذریعے بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں ۔اس دوران سینکڑوں مسلمان سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہوچکے ہیں اور ہزاروں برمی مسلمان بنگلہ دیشی سیکورٹی فورس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں ۔جو زندہ ہیں ان کوناقص اور ناکافی خوراک اور مختلف بیماریوں کا سامنا ہے جو ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے ۔روہنگیا کے بدنصیب مسلمان کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔جن کے سر پر نہ سائباں ہے اور نہ پاؤں کے نیچے زمین جسے وہ اپنا وطن کہہ سکیں ۔حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ نے فرمایا تھا مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی ۔کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ خاموش امت کا نام ہے ،اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر مسلم امہ کی خاموشی شرمناک ہے ۔سوائے ترک صدر طیب اردگان کے ، مدد کرنا تو درکنار کسی نے اظہار ہمدردی کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔اس لمحے مجھے ایک حدیث یاد آرہی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا "کہ قریب ہے کہ اقوام عالم آپس میں ایک دوسرے کو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دیں گے ،" ایک صحابی نے سوال کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ کیا ہم تعداد میں اتنے کم ہو نگے ۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ مسلمان کثیرتعداد میں ہونگے لیکن انکی حیثیت سیلاب میں بہنے والے تنکوں جیسی ہوگی۔پھر پوچھا گیا اے اﷲ کے رسول ﷺ ایسا کیوں ہوگا ؟ فرمایا اﷲ تعالی مسلمانوں کے دلوں میں وہن کی بیماری پیدا فرمادے گا ۔پوچھا گیا یہ وہن کیا ہے ؟ فرمایا ،دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔آج پورے عالم اسلام کا یہی حال ہے ، دنیا جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کرتی رہے ، ہم کلی طور پر بے حس اور بے بس ہوچکے ہیں ۔ہماری غیرت اور حمیت ماضی کا حصہ بن چکی ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد، محمود غزنوی ، ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم سب افسانوی کردار تھے ۔ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں نہ کوئی تڑپ ہے اور نہ کوئی احساس ۔یہ خاموشی، بے حسی، بے غیرتی اور دین اسلام سے غداری کے مترادف ہے۔میں سمجھتا ہوں اسی غداری ، بے حسی ، بزدلی کی سزا ہم مسلمانوں کو برما،کشمیر ،فلسطین اور بھارت میں مل رہی ہے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 786 Articles with 684409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.