بلوچستان میں بغاوت کی آگ

 قدرتی وسائل سے مالا مال ،سرمئی شاموں ، محبتوں ا ور امن کی سر زمین صوبہ بلوچستان آج لہو لہو ہے ، بغاوت کی آگ اس کے در و دیوار سے سر اٹھائے بڑھتی ہی جا رہی ہے جب کہ اہالیان وطن اور ارباب اقتدار ہیں کہ اس انتہائی نازک صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ، حال ہی میں کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد میں فورسز کے ہاتھوں پانچ بے گناہ چیچن باشندوں کے ظالمانہ قتل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان بغاوت کی آگ میں اس درجہ لپیٹ میں آچکا ہے کہ اب وہاں سیکیورٹی فورسز بھی سٹھیا سی گئی ہیں اور کسی بھی لمحے کوئی بھی بے گناہ ملکی یا غیر ملکی ان کی بے رحمانہ اور ظالمانہ گولیوں کا نشانہ بن سکتا ہے ،پاکستان کے اس سب سے چھوٹے صوبے کے غیور لوگوں نے جس جو ش اور ولولے کا مظاہرہ کر کے تحریک پاکستان میں کردار ادا کیا تھا افسوس کہ اس کے ثمرات اور محبت سے یہ لوگ سر ے سے ہی محروم رہے ہیں ، خان آف قلات نواب امیر احمد یار خان ،جام صاحب لسبیلہ اور اس وقت کی دیگر بلوچ قیادت کی تحریک پاکستان میں شمولیت اور تاریخ ساز کردار کے متعلق بھلا کون واقف نہیں ؟ مگر قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سے اس دھرتی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور ماضی و حال کے جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے ملی وحدت کوپارہ پارہ کرتے ہوئے اس بلوچ دھرتی کو نقصان پہنچایا اور بلوچوں کے بنیادی حقوق کو صلب کر کے انہیں باغی تحریک کی داغ بیل ڈالنے پر مجبور کیا ، بلوچوں پر اس ظلم کا ازالہ قریب قریب تو مشکل ہی نظر آتا ہے ،نام نہاد اتحاد و یگانگت کی علامت پاکستان کے وفاق نے کبھی بھی بلوچ قومی مسئلہ اور اس کے حل کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا ،چاہیے تو یہ تھا کہ بلوچ بھائیوں کے تحفظات دور کرنے کی خاطر فہم وفراست اور تدبر کا راستہ اختیار کر کے انہیں قومی دھارے کی مضبوط لڑی میں پرو دیا جاتا اور فوجی آپریشنز ، بلوچ قوم پرستوں کا خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواءاور دیگر ریاستی ہتھکنڈے کبھی بھی استعمال میں نہ لائے جاتے تو آج یہ سر زمین نہ صرف یہ کہ امن و محبت کا گہوارہ ہوتی بلکہ اس میں موجود قدرتی ذخائر ، کوئلہ ، گیس ، سلفر ، کرومائیٹ ، ماربل ، کیمیائی لوہا ، تیل اور سونے کے ذخائر تک صحیح معنوں میں رسائی کی جاتی تو یقینا ملک بھر سے بے روزگاری ، تنگ دستی و مفلسی کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ بلوچ قوم سے ہمیشہ اچھوتوں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں اپنے جائز حق سے محروم رکھا گیا، اب دیکھیں کہ بلوچستان میں معدنی گیس 1954میں دریافت ہوئی اور چند ہی سالوں میں تختِ لاہور ا ور اسلام آباد کے رﺅسا تک پہنچا دی گئی جب کہ یہی قدرتی گیس کوئٹہ شہر میں 32سال بعد 1985میں پہنچی، بلوچستان کے کئی دیگر چھوٹے بڑے شہر اس عظیم دولت سے آج بھی محروم ہیں ،اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان محب وطن بلوچوں کے علاقے آج بھی گیس جیسی نعمت کو ترس رہے ہیں اور نعمت بھی وہ کہ جس نے خود انہی کے دھرتی سے جنم لیا ہے ،وفاقی ملازمتوں میں بلوچ قوم کا کوٹہ پانچ فیصد ہے مگر عام روٹین یہی ہے کہ اس کوٹہ پر بھی دوسرے صوبوں کے افراد کو بھرتی کر لیا جا تا ہے اسلام آباد میں قائم بلوچستان ہاﺅس کے حوالے سے ایک بلوچ آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ اس ہاﺅس میں بانوے افراد ملازمت کر رہے ہیں کہ جن میں صرف تین بلوچی ہیں اور وہ بھی انتہائی لوئر درجے کی ملازمت نائب قاصد اور سویئیپر کی ڈیوٹی کر رہے ہیںیہ ان بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف نہیں ہے تو اور کیا ہے ، بلوچستان کے اکثر علاقوں میں سکول نہ ہونے کے باعث بلوچستان کے 45فیصد بچے تعلیم جیسی عظیم دولت سے محروم کر دیے گئے ہیں ، ہائی سکول اور کالجز کی سطح پر بھی صورتحال کچھ اتنی حوصلہ افزاءنہیں ہے کہ جس پر فخر کیا جا سکے ، سر کاری اعدادو شمار میں 36فیصد جب کہ حقیقت میں اس سے بھی بہت کم شرح خواندگی ہے ، پینے کے صاف پانی تک صرف 23فیصد آبادی کو رسائی حاصل ہے ، صوبے میں آج بھی ایسی لا تعداد آبادیا ں ہیں جہاں پر انسان اور مویشی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں ایک انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسی بناءپر کالے یرقان کی شرح پورے ملک میں سے سب سے زیادہ بلوچستا ن میں ہے ، بجلی بلوچستان بھر کے صرف بارہ فیصد علاقے تک پہنچائی گئی ہے اور گیس کی سہولت والا علاقہ پانچ فیصد سے زیادہ ہر گز نہیں ہے ، گویا صوبے کا 88فیصد بجلی اور 95فیصد علاقہ گیس سے محروم ہے ، ہر دور حکومت میں صوبے کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر غیر بلوچوں کو تعینات کیا جا تا ہے جو بلوچستان کے باسیوں کو درپیش مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ، گوادر پورٹ کو چلانے ، سیندک اور ریکوڈک سے سونا تانبا نکالنے کے حوالے سے وفاق نے اب تک جتنے بھی معاہدے اور Pact کیے ہیں ان میں بلوچستان کی مشاورت کو کبھی بھی ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ یہ وہ سلگتے اور دہکتے ہوئے وہ عوامل ہیں جنہوں نے آج غیور، بہادر اور محب وطن بلوچوں کو وفاق سے اور اس مملکت خداداد سے بدظن کر کے بہت دور لاکھڑا کیا ہے ، یہ بھی سچ ہے کہ بلوچستان کی بدحالی میں علاقائی وڈیرے اور صوبائی حکومتیں بھی شریک رہی ہیںتاہم دا رالحکومت اسلام آباد کو بھی اس ضمن میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ، حقیقت یہی ہے کہ عسکری کارروائی سے بلوچ مسئلہ نہ تو کبھی حل ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ آنے والے وقتوں میں بندوق کے زور پر اس کے حل کی توقع اور امید رکھی جا سکتی ہے ، 2007ءمیں نواب اکبر بگٹی کے بوڑھے وجودکو خون میں نہلا کر ظلم عظیم کیا گیا اس کے بعد سے بلوچ قوم کسی صورت بھی ”اسلام آباد“ پر اعتما د کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اکبر بگٹی کے کو قتل کو بلوچوں نے پنجابی حملہ قرار دیا اور بلوچستان بھر میں آباد کاروں پر حملے شروع ہوئے جو آج بھی جاری ہیں اور اب تک سینکڑوں آباد کاروں کو قتل کیا جا چکا ہے ، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بلوچو ں کو اغواء کر کے ان بغاوت کے شعلو ں کو مزید ہو ادے دی گئی ہے ۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئر مین نصر اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ انہوں نے 1100افراد گمشدہ افراد کی فہرست اس حکومتی کمیشن کے حوالے کی ہے جو کہ ان کی بازیابی کے لیے بنایا گیا ہے ، اس کمیشن کی کارکرگی نہ ہونے کے برابر ہے ، پھر اب کچھ عر صہ سے ان اغواءشدہ لوگوں کی لاشیں پر اسر ار طور پر ویرانوں سے ملنا شروع ہو گئی ہیں ،حال ہی میں تین لاپتہ بلوچ رہنماﺅں لالہ منیر ، شیر محمد بلوچ اور غلام رسول بلوچ کی لاشیں ایک ویرانے سے برآمد ہوئی ہیں جنہوں نے اس بلوچ دھرتی میں بغاوت کی آگ کو اور بھی تپش اور حدت دے دی ہے ، نصر اللہ بلوچ کے مطابق اب تک گیارہ سو ا فراد کی لسٹ میں سے 187لوگوں کی لاشیں موصول ہو چکی ہیں اور ویرانوں سے لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ،خفیہ ایجنسیوں نے چار بلوچ جماعتوں کے لوگوں کا اغواءاب معمول بنا لیا ہے جن میںسب سے زیادہ متاثرہ بلوچ طلباءکی نمائندہ تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہے جس کے چیئرمین ذاکر مجید سمیت کئی لیڈر اور ورکرز کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے اور ان کے پیارے ان کی تلاش میں اسلام آباد کی سڑکوںپر مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی بھی ان کی اشک شوئی کرنے والا نہیں ہے ۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر یہ لاپتہ افراد کسی جرم میں ملوث ہیں تو ان پر عدالتوں میں کیسز کیوں نہیں چلائے جاتے ؟تاکہ اگر ان پر جرم ثابت ہوتو ظاہر ی بات ہے کہ یہ لوگ سزاءکے مستحق بھی ٹھہریں گے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان کے انہی حالات کی نزاکت کے پیش نظر کہا ہے کہ ہم بلوچستان کے حالات کو ریاستی اداروں کے کنٹرول سے باہر ہو تا دیکھ رہے ہیں، اب بند کمروںمیں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے باہر نکل کر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور بلوچ قومی مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا وقت ہے ۔کسی دانش ور نے کیا خوب کہا تھا کہ جو قومیں اپنے کمزور طبقات کی ضروریات اور فلاح و بہبود کا خیا ل نہیں رکھتیں تاریخ انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹاڈالتی ہے اور وہ بہتر مستقبل کی جانب کبھی بھی گامزن نہیں ہو سکتیں۔دشمن طاقتوں کی چیرہ دستیوں اور مکاریوں کا نشانہ یہ صوبہ فوری طور پر اقدامات کا متقاضی ہے،قدرت کے بے پناہ وسائل سے مالا مال یہ صوبہ اب مزید مجرمانہ غفلت اور قطعاً سست روی کا متحمل نہیں ہو سکتا ، اس قومی و ملی مسئلے کے حل کے لیے فقط صدر اور وزیر اعظم کی طرف ہی نہ دیکھا جائے بلکہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں ، وکلاءبرادری ، تاجر حضرات اس مسئلے کے حل کے لیے آگے بڑھیں اور ملکی سلامتی کی خاطر اپنا کردار ادا کریں اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے بلوچ بھائیوں کو گلے سے لگا لیں ۔
اے وطن تیرے غم کی قسم
تیرے دشمن ہم ، تیرے قاتل ہم
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 33455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.