دکنی زبان اور اُردو زبان کے قدیم ادب کے مشترک اوصاف

ڈاکٹر غلام شبیررانا
دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ربط باہمی ہی سے دنیا کے سب نظام چل رہے ہیں۔زمان و مکان سے ادب کا گہرا تعلق ہے اس لیے اپنی نوعیت کے اعتنار سے ادب کو کسی صورت میں بھی تنہا نہیں دیکھا جا سکتا۔تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل پر غورکرنے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ قدیم زمانے کے حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اِنسان کو سرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے ۔قدیم دکنی زبان اور اُردو زبان کا تقابلی مطالعہ متعدد تاریخی صداقتوں کی گرہ کشائی کرتاہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں دکنی زبان اور اُردو زبان کے تخلیق کاروں نے حدودِ وقت کا احساس و ادراک کرتے ہوئے شمالی اور جنوبی ہندمیں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی نمو کے لیے جو تخلیقی کام کیا تاریخ ہر دور میں اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔ہر قسم کے تعصب سے بالاتر رہتے ہوئے قدیم زمانے کے ادیبوں نے اپنے اشہب ِ قلم کی جولانیوں سے زبان کے دامن میں الفاظ کی صورت میں گُل ہائے رنگ رنگ کے ڈھیرلگادئیے۔ شمالی اور جنوبی ہند میں لسانی ارتقا پر تحقیق کرنے والے ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ متعدد تراکیب اور الفاظ ایسے ہیں جن پر ہندوی یا قدیم اردو کے دکنی نمونوں کا گمان گزرتا ہے ۔ ذیل میں ملا وجہی کی تصنیف ’’ سب رس ‘‘ سے امدادی افعال کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو دکنی زبان کے لسانی ارتقا کی تفہیم میں مد ددیں گی:
پیدا کیا ،ہویدا کیا،خلاف کرنا،نُور بھرنا،مان دینا ،بیان کرنا ،ہات دھرنا،رہا گیا ،کہا گیا ،امداد دیوے ،
فیض انپڑنا،آرام پانا ،دعا کرنا ،بات کرنا ،باٹ پانا ،امداد پانا ،جیو دینا ،بات بولنا ،گرہ دینا ،ہاٹ آنا ،
چھلے (چھالے) آنا ،گھائل ہونا ،پر ہیز کرنا ،کا م گنوانا ،کام کرنا ،نظر پڑنا ،تازا رکھنا ،مدعا پانا ،چلنت چلنا ،
کامل ہونا ،زندہ دِل ہونا ،تمیز کرنا ،کھڑا رہنا ،شرف پانا ،مول پانا ،میٹھا لگنا،فرصت پانا۔ (1)
دکن کے طول و عرض میں مروّج و مقبول مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں دکن کے سلطان ابراہیم عادل شاہ (1526-1627) کا کردار بہت اہم ہے ۔اس سلطان کے عہد میں مقامی زبانوں کی سرکاری سر پرستی کے بارے میں حقائق پرروشنی ڈالتے ہوئے ممتاز انگریز مورخ لیفٹنٹ کرنل سر ولزلے ہیگ (Lieutenant-Colonel Sir Thomas Wolseley Haig) نے کیمبرج ہسٹری آف انڈیا میں لکھا ہے:
,,............Ibrahim struck a further blow at foreign influence
in the state by substituting the vernacular languages,Canarese
and Marathi,for Persian as the official languages. (2)
دکن میں مروّج و مقبول ہونے والی نئی زبان کو بہت پزیرائی ملی اوراس نئی زبان کو دکنی اور ہندی کا نام دیا گیا۔اس عہد سے تعلق رکھنے والے ممتاز تخلیق کاروں کی تخلیقات کا جائزہ لینے سے بھی یہی نام سامنے آتے ہیں:
اول قصد کر دکھنی بولی اوپر
ضرور آ پڑیا تو ملونی بھی کر (ہاشمیؔ )
رسالہ اتھا فارسی یو اول
کیا نظم دکنی سیتی بے بدل (غواصیؔ )
کیا ترجمہ اس کو دکھنی زباں
ہوا اوس وقت دکنی یو ترجما (عبداللطیف)
شعر شیریں کا تیرا لے ہے رواج دکھنی منے
طوطیاں اپنے پراں کے ہند میں دفتر کئے ( محمود ؔ)
دکھنی میں جو ں دکھنی مٹی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اس دہات کا ( وجہیؔ : قطب مشتری )
اِسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کوں کھول (ابن نشاطی : پھول بن )
کیا ترجمہ دکھنی ہو ر دِل پذیر
بولیا معجزہ یوں کمال خان دبیر (کمال خان رستمیؔ: خاور نامہ )
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی (ملک الشعرا محمد نصرت نصرتیؔ : گلشن عشق )
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا (آگاہ ؔ )
جس زبان کوجنوبی ہند میں دکھنی کا نام دیا گیا وہی شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے پہچانی گئی ۔ شمس الدین ولیؔ (1618-1707)نے اپنے دہلی کے سفر کے بعد اس زبان کانام دکنی بھی استعمال کیا۔دہلی کے سفر کے بعد ولی ؔ نے دہلی میں استعمال ہونے والے محاورات اور تراکیب کو اپنی شاعری میں جگہ دی ۔ولی ؔ کی تقلید میں دہلی کے متعدد شعرا نے عربی اور فارسی کے الفا ظ کو اپنے کلام میں جگہ دے کر اردو کو ہندی سے الگ شناخت عطاکی ۔ اس طرح اُردو نے اس خطے میں ثقافتی اظہار کے ایک اہم اور موثر وسیلے کی صورت اختیار کر لی ۔دکن میں ولی ؔ سے پہلے بھی اس نئی زبان کے لیے دکھنی اور ہندی کے نام استعمال کرنا معمول تھا مگر اورنگ آباد کے شاعر ولیؔ نے اس کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا :
یہ ریختہ ولی ؔ کا جا کر اُسے سنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند (ولیؔ دکنی )
شمالی ہند میں باہمی ربط اور تبادلہ خیال کے لیے استعمال ہونے والی اس زبان کو ریختہ کے نام سے شہرت ملی ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس خطے کے فعال اور مستعد تخلیق کاروں نے اپنے اشعار میں ریختہ کا ذکر کیا ہے :
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا (میر تقی میر ؔ )
قائم ؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان ِ دکھنی تھی (قائم ؔ )
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اِ س کو فرمایا (اثرؔ)
دکنی زبان کے شعرا نے سب سے پہلے مثنوی پر توجہ دی اس کے بعدوہ رباعی ،غزل اور قصیدہ لکھنے پر مائل ہوئے ۔ تاریخ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت ر وزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ولی دکنی کے زمانے میں جنوبی ہند کے طول و عرض میں ادب اور فنون لطیفہ پرفارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں تھے ۔اس عہد کے جن ممتاز تخلیق کاروں کے اسلوب پر فارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ،ملا وجہی ،غواصی ،احمدگجراتی،نصرتیؔ،ولیؔ اورسراجؔ شامل ہیں ۔تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں سیاسی ،تہذیبی اورادبی میلانات نئے حقائق کو سامنے لا رہے تھے ۔ بر صغیر کے مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب (B:1618,D;1707 )نے اپنی مہم جوئی اور فوجی یلغار کاآغاز شمالی ہند سے جنوبی ہند کی جانب پیش قدمی سے کیا۔ محی الدین محمداورنگ زیب (عرصہ حکومت :1658-1707) نے شمال سے جنوب کی طرف دکن میں طویل عرصہ تک مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔اس عرصے میں ادب اور فنون لطیفہ کا معاملہ قطعی مختلف رہا ۔ان شعبوں میں پیش قدمی جنوب سے شمال کی جانب رہی ۔جس زمانے میں اورنگ زیب کی کمان میں مغل مسلح افواج گولکنڈہ کا قلعہ ا ور وہاں موجود پر شکو ہ عمارات کو کھنڈرات میں بدلنے میں مصروف تھیں اس وقت جنوبی ہند سے ادب اور فنون لطیفہ کوزادِ راہ بناکر شمال ہند کی جانب پیش قدمی کرنے والے قلم بہ کف حریت فکر و عمل کے مجاہدافکار تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جستجو میں شما لی ہند کی جانب رواں دواں تھے۔یہی وہ عہد آفریں لمحات تھے جب رجحان ساز تخلیق کاروں نے تازہ بستیاں آباد کیں اور سفاک ظلمتوں کوکافور کرکے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا ۔تاریخ ادب کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ اسی دور میں اُردو شاعری کا وہ قصر عالی شان تعمیر ہوا جس نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عادل شاہی دور میں دکنی زبان کے فروغ کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’اورنگ زیب عالم گیر کی فتح دکن کے بعد شمال و جنوب کے درمیان جودیوارکھڑی تھی وہ دُور ہو گئی تھی
اور یہ دونوں علاقے گھر آنگن بن گئے تھے ۔فارسی کے مشہورشاعر ناصر علی دکن گئے تو وہ بھی اُردو میں غزلیں
کہنے لگے ۔میر جعفر زٹلی کی شاعری کے زبان و بیان پر دکنی ادب کی روایات کااثر نمایا ں ہے ۔فائز،مبتلا ،آبرو،
ناجی اور شاہ حاتم کے دیوان ،قدیم کی شاعری پر یہ اثرات نمایا ں ہیں ۔‘‘ (3)
ادب اور فنون لطیفہ میں جذبہ ٔ انسانیت نوازی ،خلوص ،دردمندی اورایثارکے ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی ۔شعر و ادب میں تعمیر و ترقی کے غلغلے بلند ہوئے ۔ ہر سُوانسانیت کے وقار و سر بلندی ،بے لوث محبت اوربے باک صداقت کے چرچے عام تھے۔دکن سے شمالی ہند کی جانب ولی ؔ نے جس ادبی سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوق سلیم سے متمتع باشندوں کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ بن گیا ۔اپنے دامن میں یقین،عزم،محبت ،وفا،اتفاق،دوستی،یگانگت،خلوص،مروّت اورعجزو انکسار کے گل ہائے رنگ رنگ لیے ولی ؔ جب پہلی مرتبہ 1700 میں دہلی پہنچا تواس کے خیالات سے قریہ ٔ جاں مہک اُٹھا۔ دکن سے دہلی کی جانب ولی ؔ کے اس یادگار سفر کے بعد سر زمین دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے اورمعتبر ربط کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔دکنی زبان کے شعر و ادب میں سراپا نگاری،حیات و کائنات ،قلب و روح ،ارضیت و مادیت ،انسانیت و روحانیت اور جذبات و احساسات کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی ادب کا ثمر ہے ۔دکنی زبان کے ادب میں عشق کو زندگی کے تمام معاملات میں محوری حیثیت حاصل ہے۔دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے عشق کو عملی زندگی کی ایک اٹل اور نا گزیر صداقت کے رُوپ میں دیکھا اور خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں جذبۂ عشق پر انحصار کیا ۔اُن کا خیال تھا کہ رنگ ،خوشبواورحسن و خوبی کے تمام استعارے عشق ہی کی عطا ہیں ۔دہلی آنے کے بعد ولی ؔ نے یہاں کے معمر ادیب شاہ سعداﷲ گلشن سے ملاقات کی ۔شاہ سعداﷲ گلشن نے ولیؔ کو فارسی زبان کی کلاسیکی شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے اسلوب میں جگہ دینے کا مشورہ دیا ۔قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولی ؔ نے اس مشورے پر عمل کیا ۔ولی ؔ کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے دہلی کے سفر کے بعد برہان پور ،احمدآباد،گجرات اور کئی اہم تاریخی مقامات کی سیاحت بھی کی ۔سیرو سیاحت کایہ شوق ولی ؔ کی ادبی فعالیتوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ۔ اپنے اس شوق کے بارے میں ولی ؔ نے کہا تھا :
ع : ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
اس شوق نے ولی ؔ کو نئے ماحول سے آ شنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولی ؔ کی شخصیت میں وسعت نظر ،و سیع القلبی،خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر تعلقات اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مزید نمو ملی ۔دورانِ سفر متعدد مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ متعدد مسافر نواز احباب سے پڑا ۔اس کے اثرات ولی ؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ولی ؔ کے لیے یہ سفر وسیلہ ٔ ظفر ثابت ہوا ۔کئی تراکیب ،محاورات ،ضرب الامثال ،تشبیہات ،استعارات اور علامات کاتعلق سفر کے تجربات سے ہے ۔ان میں سفر ،ہجرت،وصل ،غربت ،جدائی ،یادیں ،فراق،کرب ،راحت،رخصت،گلگشتِ چمن ،موجِ دریا ،سیر صحرا،موج رفتار اور منزل شامل ہیں ۔ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔دہلی شہر سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کی جو کیفیت
ولی ؔ کی شاعری میں موجود ہے وہ اسی سفر کاکرشمہ ہے ۔ اکثر محققین کاخیال ہے کہ ولیؔ کے دِل میں دہلی کی محبت رچ بس گئی تھی ۔
ممتا زماہر تعلیم اور محققسیدہ جعفر نے ولی ؔ (عرصہ ٔ حیات :1667- 1707)کے اس شعر کو ہندوستان کے اس
تاریخی شہر سے ولیؔ کی محبت کا بر ملا اعتراف قرار دیتے ہوئے دہلی کے مطلق العنان بادشاہ محمد شاہ
(عہد حکومت :1719-1748)کو ایک شعر میں یہ پیغام دیا ۔
دِل ولی ؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں (4)
محمد حسین آزادؔ نے اپنی تصنیف آب حیات میں ولیؔ دکنی کے اسلوب اورشخصیت کے بارے میں لکھاہے :
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے اور بِکتا ہے ۔
یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیاہے ۔اس میں علاوہ ردیف وارغزلوں کے رباعیاں،
قطعے،دو تین مخمس ،قصیدے،ایک مثنوی ،مختصر معرکۂ کربلا کے حال میں،ایک شہر سورت کے ذکر میں
ہے ۔واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔اس فخر کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے ،بادشاہ یا کسی امیر کی
تعریف بھی نہیں۔شایدخواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے ۔لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح
بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کوشان و شکوہ دیتے تھے چنانچہ ولی ؔکی تصنیفات میں سے ایک غزل میں
کہتے ہیں :
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چِھین
جاکہو کوئی محمد شا ہ سوں (5)
تاریخ ادب سے وابستہ تاریخی حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں ۔مغل بادشاہ محمد شاہ کاسال جلوس 1131ہجری
(1719عیسوی )ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119ہجری (1708عیسوی )میں ساتواں در کھول کر زینہ ٔ ہستی سے اُتر
کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا ۔ ممتاز محقق قاضی عبدالودود نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ
شعر ولی ؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمون ؔ کا ہے ۔اصل شعر اس طرح ہے :
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (6)
دکن کی قدیم اردو اور دہلی شہر اور اس کے مضافات میں بولی جانے والی زبان میں جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے وہ ان زبانوں کے مشترکہ فکری سرمائے کی مظہر ہے ۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شمالی ہند کی زبان نے جنوبی ہند کے تخلیقی تجربات سے استفادہ کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا ۔ولی ؔ کی آمد سے قبل دکن کی زبان کو شمالی ہند میں تخلیقی اعتبار سے سند کا درجہ حاصل نہ تھا۔ولیؔ کی آ مد کے بعد شمالی ہند میں با لعموم اور دہلی میں بالخصوص دکن میں بولی جانے والی زبان اور اس کے ادب کو لائق تحسین سمجھا جانے لگا۔ دکنی زبان کی جانب ادیبوں کا میلان ایک ایسی تحریک تھی جس کے وہ خودہی محرک تھے ۔اِن فعا ل اور مستعد ادیبوں نے خاص کے بجائے عام کو لائق اعتنا سمجھا اور عملی زندگی کے محسوسات اور تجربات کو پرکھنے کی خاطر فہم و اِدراک کی کسوٹی استعمال کی ۔ دہلی میں مقیم ادب دوست حلقوں اور تخلیق کاروں نے ولی ؔ دکنی کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔اس عہد کے جن ممتاز ادیبوں نے ولیؔ کے کلام کو بہ نظر ِ تحسین دیکھا ان میں عبدالقادر بیدلؔ،مولوی خان فطرت،نواب امید خان مغز، نواب امیر خان عمدۃ الملک انجامؔ اور قزلباش خان اُمیدؔ شامل ہیں۔حاتمؔ، مضمون ؔ ،فغاں ؔ،آبرو ؔاور فائزؔ جیسے شعرا نے بھی ولی ؔ کی شاعری کی تعریف کی ۔
حاتم ؔ یہ فن شعر میں کچھ تُو بھی کم نہیں
لیکن ولی ؔ ولی ہے جہانِ سخن کے بیچ
خُوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
آبروؔ شعر ہے تیرا اعجاز
پر ولی ؔ کا سخن کرامت ہے
دکنی ادب کے فروغ میں خواتین کا حصہ
حیدر آباد دکن سے اُردو کی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا(1768-1824)نے اورنگ آباد ( مہاراشٹر) میں جنم لیا۔اس کی تاریخ پیدائش 7۔اپریل 1768 ء ہے ۔اس کی ماں راج کنور کا تعلق راجپوتانہ سے تھا اور وہ اپنے عہدکی مقبول رقاصہ اور مغنیہ تھی ۔ ماہ لقا بائی چند کا باپ ’ بہادر خان ‘ محمد شاہ کے عہد میں منصب دار تھا۔ ماہ لقا بائی چندا کا دیوان ’’گلزارِ ماہ لقا‘‘ اس کی وفات کے بعد سال 1798 ء میں منظر عام پر آیا۔یہ دیوان اُنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے اور ہر غزل کے پانچ اشعارہیں ۔ مہ لقا بائی چندا فن موسیقی میں کامل دسترس رکھتی تھی اور اُس عہد کے کہنہ مشق شاعرشیر محمد ایمان ؔ کی شاگرد تھی۔برٹش میوزیم میں محفوظ’ دیوان چندا ‘ میں 125غزلیں ہیں جو سال 1798ء میں زیب قرطاس کیا گیا۔حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے والی اس شاعرہ نے غیروں سے کبھی وفا کی توقع نہ رکھی :
بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب
جس وقت ماہ لقا بائی چندا نے دکن میں شاعری شروع کی اس وقت شمالی ہند میں میر تقی میر ،مرزا محمد رفیع سودا اور خواجہ میر درد کی شاعری کی دھوم مچی تھی ۔ما ہ لقا بائی چند اقصر شاہی کی طوائف تھی اور موضع ’ اڈیکیٹ ‘ کی جاگیر کے کاغذات اُسے قصر شاہی سے عطا کیے گئے تھے ۔ اس عیاش طوائف کی خرچی کی دولت ،ثروت اور مقام کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس صرف پہرہ کے لیے پانچ سو سپاہی ملازم تھے۔ اپنے عہد کی یہ شمع محفل جس کے مسحور کن رقص اور کانوں میں رس گھولنے والے گیتوں کی محفل میں بڑے بڑے امرا ،وزرا ،عمائدین اور منصب دار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے ،حیدر آباد کے نواح میں واقع ’کوہ ِ مولا‘ کے جس کنج تنہائی میں ردائے خاک اوڑھے پڑی ہے وہاں دِن کے وقت بھی شب ِ تاریک کی ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کا راج ہے ۔ماہ لقا بائی چندا کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
کب تک رہوں حجاب میں محروم وصل سے
جی میں ہے کیجیے پیار سے بوس و کنار خوب
ساقی دے مجھ کو جام مے ارغوان پِھر
افسردہ دِل میں آئے جو شعلہ سی جان پِھر
وفا کے ہاتھ سے اپنے کمال عاجز ہیں
جفا تو اُس کی تھی معلوم پیش تر ہم کو
چشمِ کافر بھی ہے اورغمزۂ خونخوار بھی ہے
قتل کو پاس سپاہی کے یہ تلوار بھی ہے
دکن میں تانیثیت کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ لطف النسا امتیازؔ(پیدائش: 1761) ؔجو شاہ عطا اﷲ سے عقیدت رکھتی تھی وہ بھی شاعرہ تھی ۔اس کا دیوان ماہ لقا چندا سے ایک سال پہلے 1797میں منظر عام پر آیا۔اس لیے تاریخی حقائق کے پیش نظر ماہِ لقا چندا کے بجائے لطف النسا امتیازؔکو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھنا چاہیے ۔ (10) اجل کے بے رحم ہاتھوں نے لطف النسا امتیاز کو عین عالم شباب میں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اوراردو زبان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النسا امتیاز ؔ کا دیوان اس کے شوہر اسد علی خان تمنا کے انتقال کے بعد چھپا۔ لطف النسا امتیازکی مثنوی ’گلشن شعرا ‘ چھے ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ اسد علی تمنا خود بھی ادیب تھا اور اس کا تذکرہ ’ گل عجائب ‘ اس عہد کے شعرا کے بارے میں ایک اہم بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے ۔دکن سے تعلق رکھنے والی لطف النسا امتیاز ؔکی شاعری میں نسائی جذبات نمایاں ہیں ۔
سینہ تیری جفا سے معمور ہو رہا تھا
ہر زخم دِل میں ظالم ناسُور ہو رہا تھا
عمر کا شیشہ بہت نازک ہے یہ سنگِ اجل
جب کرے گا چُور ہی توہم عزیزاں پِھر کہاں
ساقیا محفل میں تیری کوئی دن مہمان ہیں
دیکھ لیں یہ گریہ ٔ مینا جام ِخنداں پھر کہا ں
تو عشق حقیقی سے مد ہوش ہے
شرابِ محبت سے بے ہوش ہے
جو لطف النسا سچا ہے تیرا نام
ترے شعر کا شہرہ تاروم و شام
ترا جو تخلص ہے اب امتیاز ؔ
ہے سب اہل ہنروں میں تُو شاہ باز

اب اہلِ کمالوں سے ہے التماس
ہے اصلاح کی دِل کو جو میرے پاس
تُو کر ختم یہ قصہ اب امتیازؔ
کر عاشقی کو اب عشق سے سرفراز
دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کی مقدور بھر کوشش کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں ادب ،فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت لوگوں کے دِلوں میں ر چ بس گئی تھی اور یہ ان کے جبلی انعکاس کی صورت میں منصہ ٔ شہود پر آ رہی تھی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے قلبی،روحانی اورذہنی سکون اور مقبولیت کی جستجومیں خونِ بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی نیک نیتی کے ساتھ سعی کی ۔تخلیق فن اور فیض رسا ں زندگی بسر کرنے کی یہ لگن افکارِ معیشت کے جھنجھٹ سے نجات اور پرورشِ لوح و قلم کے ارفع معائر تک رسائی کی تمنا قابلِ ادراک صورتوں میں ان کے اسلوب میں جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۔حالات و واقعات کی مرقع نگاری میں تخیل کی تونگری اور اظہار و ابلاغ کے لیے منتخب اسالیب کے شعور میں پنہاں وفورِ شوق کی ثروت ان کا امتیازی وصف ہے ۔انھوں نے اپنے دِل کی بات بیان کرنے کے لیے ہر وہ التزام کیا جو اِس مقصد کے لیے نا گزیر تھا ۔ اس خطے میں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو تبدیلیاں رُونما ہوئیں اُن کے اعجاز سے یہ خطہ صدیوں تک تشنگانِ علم و ادب کے لیے روشنی کا مینار بن گیا۔ کسی خطے میں تہذیبی ارتقا کو زیر بحث لاتے ہوئے امریکی ادیب،فلسفی اور مورخ وِل ڈیورنٹ ( Will Durant :1885-1981) نے اپنی کتاب تہذیب کی کہانی ( The Story Of Civilization ) میں دکن کے حوالے سے لکھاہے کہ وجیا نگر میں حکمرانوں کی سر پرستی کی وجہ سے اس علاقے میں علم وادب کو فروغ حاصل ہوا۔دکن کے حکمرانوں کے انداز حکومت کے بارے میں وِل ڈیورنٹ نے لکھا ہے :
"These rulers were often men of ability ,and their followers were gifted with fierce courage and industry; only so can we under stand how they could have maintained their ruleamong
a hostile people so overwhelmingly outnumbering them." (7)
دکنی زبان کے تخلیق کاروں کے منفرد اسلوب نے اُنھیں تاریخ ِ ادب میں اہم مقام عطاکیا ۔ قدیم دکنی زبان کوشعرو ادب کا ایک قابل فہم اور لائق صدرشک سانچہ فراہم کرکے ان ادیبوں نے اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا۔ قدیم زمانے میں ایک جہا ں تک دکھنی نثر کا تعلق ہے اس کا آغاز خواجہ بندہ نواز گیسو درازکی تصانیف ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ ‘‘ سے ہوا۔ اپنی اس اہم تصنیف میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے گردشِ ایام کے نتیجے میں رونما ہونے والے ہجومِ غم اور یاس و ہراس کے ماحول پر جن خیالات کا اظہارکیا ہے اُن کے تاریخی ،نفسیاتی اور اخلاقی پہلو اپنے دامن میں اصلاح کے گنج ہائے گراں مایہ لیے ہوئے ہیں۔ مصنف نے آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادا پر غور کرنے و الے ہر انسان کی زندگی کے نشیب و فراز میں تقدیر کے اہم اور فیصلہ کُن کردار کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ دکن میں تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثر کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایااور اس کے بعد شاعری پر توجہ دی۔دکن میں نثر اور نظم کی تخلیق کے سلسلے میں نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے :
’’ دنیا میں عربوں کے سامنے کوئی قوم خلقی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی ۔اسی طرح فارسی زبان میں
شاعری سے بڑے بڑے کام لیے گئے اور شاعری کو بادشاہوں کی خلوت، جلوت، رزم، بزم سے خاص
تعلق رہا ۔شاعروں کی کافی طور سے عزت افزائی کی گئی اور انھیں ملک الشعرا کا خطاب دیا جانے لگا۔مگر دکھنی
زبان میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں نظم کی ابتدا نثر کے بعد ہوئی ۔اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تحریر کی ابتدا چونکہ ترجمہ
سے ہوئی اور نظم کی بہ نسبت نثر میں ترجمہ کرنا آسان اورسہل تھا اس لیے غالباًنظم کی ابتدا نہیں ہوئی بل کہ نثر سے
ابتدا کی گئی۔‘‘ ( 8)
جہاں تک قدیم شاعری کے ارتقا کا تعلق ہے ،بر صغیر میں اس کے سوتے دکن سے ہی سے پُھوٹے۔محمد تغلق(عرصہ حکومت :1325-1351) کے زمانے میں مشرقی پنجاب کے باشندے فوجی مہم جوئی کے باعث بہت بڑی تعداد میں دکن پہنچے۔اس طرح لسانی تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا ۔سب رس میں نثر کے جو نمونے ملتے ہیں ،ان سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ طویل عرصہ قبل لسانی انجذاب کی جن مساعی کا آغازہوا تھا وہ ثمر بار ہوئیں۔ ملاوجہی ( اسداﷲ)کی نثر گہری معنویت کی حامل ہے جس کے مطالعہ سے لسانی ارتقا کا اندازہ لگایاجا سکتاہے ۔
۱۔ ’’ رقیب بے نصیب ،بے روش بے ترتیب سُنے کا طالب تھا ۔ (9)
۲۔ عشق دیدار تی پکڑیا زور ،عشق کوں دیدار نی لذت ہے کجھ ہور (10)
۳۔عشق کدھیں صاحب کدھیں غلام ،ایک شخص کے دو دو نام ۔ (11)
اسی بنا پر یہ گمان گزرتا ہے کہ دکن کی اردو اور پنجابی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ (12)
لسانیات میں گہری دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قدیم دکنی ارد ونے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر پنجابی زبان سے خوشہ چینی میں کوئی عار محسوس نہیں کی ۔پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کرنے کے نتیجے میں دکنی زبان کا دامن پنجابی زبان کے نئے الفاظ سے معمور ہو گیا ۔ماہرین لسانیات کاخیال ہے کہ قدیم دکنی اردو نے اپنے ذخیرہ الفاط میں اضافے کی خاطر پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کیا۔اس طرح تہذیبی و ثقافتی سطح پر دُو رر س تبدیلیاں رُو نما ہوئیں ۔لسانی تغیر وتبدل کا یہ غیر مختتم سلسلہ صدیوں پر محیط ہے ۔دکنی زبان میں شاعری کی تخلیق سے یہاں کے باشندوں کے ذوق سلیم کو صیقل کرنے میں بہت مدد ملی ۔ ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعددکنی شاعری کو وسیع آفاق تک رسائی مِل گئی اور یوں لسانی تجربات نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔یہی وہ دور ( سال 1130)ہے جب دہلی کے تخلیق کاروں نے ایہام گوئی کی جانب توجہ کی۔اردو اور دکنی زبانوں کے ادب میں ایہام کی جو تین قسمیں مستعمل ہیں اُن میں ایہام خالص ، ایہام پیچیدہ اور ایہام مساوات شامل ہیں۔تخلیق فن کے لمحوں میں ایہام کا نمو پانا در اصل تخلیقی اعتبار سے ایک غیر متعین نوعیت کے فیصلے کا غماز ہے ۔ فکر وخیال کی دنیامیں ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کے سامنے موضوعات اور مواد کی کمی نہیں ہوتی ۔ ترک و انتخاب کے سخت مقام پر پہنچ کروہ عجیب شش وپنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادا پر غور کرتاہے تو کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی کیفیت اُسے کسی بڑے فیصلے سے روکتی ہے ۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر بے شمار حکایتیں نا گفتہ رہ جاتی ہیں ،کئی شکایتیں بیان نہیں کی جا سکتیں اور صبر کی روایت میں کئی ضروری باتیں لب پر نہیں لا ئی جاتیں ۔ تخلیق کے لا شعوری محرکات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تذبذب اور گو مگو کی ایسی ہی کیفیات ایہام کی محرک بن جاتی ہیں ۔ ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کاراپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت صریر خامہ کو نوائے سروش سے تعبیر کرتاہے ۔ان لمحات میں جذبات عجب گُل کِھلاتے ہیں جب تخلیق کار زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے دو مختلف مطالب و مفاہیم کو بہ یک جنبش ِ قلم اس تخلیقی مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کرتاہے کہ تخلیقی تحریر کا ہر لفظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بن جائے۔گُل دستہ ٔ معانی کو منفرد ڈھنگ اوردِل کش آ ہنگ سے مزین کرنا اورایک گُلِ تر کا مضمون سو رنگ سے باندھنا تخلیق کا ر کا کمالِ فن سمجھا جاتا تھا۔اس طرح ایک سخن چار چار سمتوں کاحامل بن جاتا اور ایک جملہ اپنے دامن میں کئی مطالب رکھتا تھا۔الفاط اور ان کے دامن میں نہاں متعدد معانی کی اس کرشمہ سازی کو ایہام گو شعرا کی ایسی تخلیقی قلابازی سے تعبیر کیا گیا جس کے نتیجے میں تخلیق فن کے لمحوں میں خلوص اور دردمندی کے متلاشی سرابوں میں سرگرداں رہنے لگے ۔یہی وجہ ہے کہ بہت جلد ایہام گو شعرا نے اپنے اسلوب کوترک کر دیا ( سال 1160) اور سادگی و سلاست کو زادِ راہ بنانے پر اصرار کیا۔ دکن میں سراجؔ،داؤدؔ اورعزلتؔ کی شاعری میں ایہام موجود ہے جب کہ دہلی میں آبروؔ ،مضمونؔ اور یک رنگ ؔ نے ایہام گوئی کو شعار بنایا۔ مضمون ؔ کا شمار ایہام کوئی کے بنیاد گزاروں میں ہوتاہے۔دکنی شاعری میں ایہام کی مثالیں درج ذیل ہیں :
دِل غم سے کر کے لو ہو لوہو سے کر کے پانی
آنکھوں ستی بہایا تب آبرو ؔ کہا ہے (آبروؔ)
زبانی ہے شجاعت اِ ن سبھوں کی
امیر اِس جگ کے ہیں سب شیر قالی (آبروؔ)
موسیؑ جو آکے دیکھے تجھ نُور کا تماشا
اُس کو پہاڑ ہووے پھر طُور کاتماشا ( ولیؔ)
ہوا ہے جگ میں مضمون ؔ اپنا شہرہ
طرح ایہام کی جب سے نکالی (مضمونؔ )
قوسِ قزح سے چرچا کرتا ہے تُجھ بھواں کا
شاید کہ سر پھرا ہے اَب پھر کر آسماں کا ( نامی)
جلنالگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ جوں شتاب عبث جی دیا تو کیا (حاتم ؔ)
خاصے سجن سوں مِلتا تن سُکھ ہے عاشقاں کو
گاڑھے رقیب سارے مرتے ہیں مِل مِل (حاتم ؔ)
ہوں تصدق اپنے طالع کا وہ کیسا ہے حجاب
مِل گیا ہم سے کہ تھا مُدت سے گویا آشنا (حاتم ؔ)
ہاتھ اپنا اُٹھا جو جور سے تُو
یہی گویا سلام ہے تیرا (یک رنگ ؔ)
لبِ شیریں سے تلخ کاموں کو
بولنا تلخ کام ہے تیرا (یک رنگ ؔ)
یہی مضمونِ خط ہے احسن اﷲ
کہ حُسن ِ خوباں عارضی ہے (احسن اﷲ )
آج تو ناجی ؔ سجن سے کر تُو اپنا عرضِ حال
مرنے جینے کا نہ کر وسواس ،ہوتی ہے سو ہو (سید محمد شاکر ناجی ؔ)
نمکین حُسن دیکھ کر پی کا
رنگ گُل کا مجھے لگا پھیکا (ناجیؔ)
اس کے بعد دہلی میں مقیم فارسی گو شعرا نے سرکاری زبان( فارسی ) کے بجائے ولیؔ دکنی کے شعری اسلوب میں استعمال ہونے والی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں (دکنی ،گجراتی اور مراٹھی ) سے متاثر ہو کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔
اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے عہد کے مقبول شعرا شاہ حاتم ( 1699-1781)اورسراج الدین
علی خان آرزوؔ (1689-1756)بھی اردو کی جانب مائل ہوئے ۔ (13)

لسانی ارتقا کا سلسلہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی طرح سدا جاری رہتا ہے ۔ دنیا کے کسی خطے کے سیاسی ،سماجی اورمعاشرتی حالات جہاں ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں لسانیات ،ادب اور فنون لطیفہ بھی ان سے گہرے اثرات قبول کرتے ہیں ۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دکن سے آنے والے تخلیق کاروں کے اسلوب کو دہلی میں مقیم ادیبو ں نے رشک کی نگاہ سے دیکھا اور شاہ حاتم کی تحریک پر اپنی زبان کو نیا رنگ اور منفر د آہنگ عطا کرنے کی کوششیں تیز کر دیں ۔ ملا وجہی کی مقبول تصنیف ’’سب رس ‘‘ میں شامل اس قسم کے اشعار میں پند و نصائح کا دِل کو چُھو لینے والا انداز اپنی مثال آپ ہے :
وہی ہے صافی کہ جس صافی تے صفا کوئی پاوے
وہی ہے کام کہ جس کام تے نفا کوئی پاوے

سب کسی کوں خدا مراد دیوے
اس کے محنت کی اس کوں داددیوے
زباں یک تھی دونوں کا دِل جُدا تھا
سمجتا حال اُن کا سو خدا تھا
اگر کوئی مرد ہے یا استری ہے
دنیا سب دغا بازی بھری ہے
جدھر تدھر بھی حسن ہے جو دِل کو بھاتا ہے
کدھر کدھر کی بلا عاشقاں پہ لاتا ہے
ابراہیم عادل شاہ (1556-162 زمیں دکن میں جن مختلف زبانوں کا ایک ملغوبہ سا تیار ہو رہا تھااُن میں متعدد مقامی بولیوں کے علاوہ کھڑی بولی،برج بھاشا،اودھی ،سرائیکی ، پنجابی، راجستھانی، سنسکرت اورگوجری شامل ہیں۔دکن میں ابراہیم عادل شاہ کے دور میں بیجاپور سمیت دکن میں شاہی سر پرستی کے نتیجے میں تخلیقی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا۔اس عرصے میں لسانی ارتقا کا سلسلہ پیہم جاری رہا ۔
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ بر صغیر کی اکثر جدید مقامی زبانیں اپ بھرنش کی اولا دہیں ۔ (14)
قدیم زمانے میں سرسے زیادہ زبانوں کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا جا رہا تھا ۔اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے رومیلا ٹھاپر نے لکھا ہے۔ :
,,A period of bilingualism has been suggested when more
than one language was used in the communicationbetween
various communities .Alternatively ,the non Indo -Aryan languages
coul dhave been substratum languages,elements from which were
absorbed into Indo -Aryan.,, (15)
نہ صرف دکن میں فارسی کو سرکاری سر پرستی حاصل تھی بل کہ شمالی ہندوستان میں بھی اس کی پزیرائی کی جاتی تھی ۔بر ج بھاشانے بھی ادبی زبان کی حیثیت سے اپنے وجود کا اثبات کیااور یہ بھی دکن میں نشوو نما پانے لگی۔یہاں تک کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دست راست عبدالر حیم خان خاناں نے برج بھاشا کو اپنی شاعری میں اظہار کا وسیلہ بنایا۔ (16)
تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکن میں جس تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی اور لسانی تبدیلی کا آغاز ہوا وہ پیہم تین سو برس جاری رہا ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں دکن کی سر زمین میں جو زبان پروان چڑھتی رہی وہ دکنی کے نام سے مشہور ہوئی۔مورخین کا خیال ہے کہ اردو زبان کو جدید دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں دکنی نے کلیدی کردار ادا کیا ۔دکنی کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے اہم کردار ادا کیا ۔شمالی ہند سے آنے والی زبان نے دکن میں اظہار و ابلاغ کے لیے ایک مشترکہ زبان کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کر لی ۔اس طرح دکنی کو اس خطے میں مروّج تین اہم زبانوں تلنگی،کنٹری اور مر ہٹی پر ترجیح دی جانے لگی ۔ مسلمانوں نے جب دکن کو مسخر کر لیا تو صدیوں پرانا فرسودہ معاشرتی ڈھانچہ مکمل طور پر بدل گیا۔مسلمان فاتحین نے ہر قسم کی عصبیتوں ،منافرتوں اور امتیازات کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی مقدور بھر سعی کی ۔
قدیم دکنی زبان نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جس انداز اپنائے ان کا اندازہ درج ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے :
۱۔ قدیم دکنی زبان میں املا کے یکساں متفقہ معائر عنقا ہیں۔دکنی میں درج ذیل الفاظ دونوں صورتوں میں مروّج تھے:
جوسا ۔۔جثہ ، خطرا۔۔خطرہ ، زمیر ۔۔ ضمیر ، مشور ۔۔مشہور ،مرشید ۔۔مرشد،نفا۔۔نفع ،وضا ۔۔وضع ،ہوکم ۔۔حکم
دکنی میں عربی الفا ظ کوسادہ کرنے کا رجحان تھا مثلاً طما( طمع )،نفا( نفع) وغیرہ
۲۔ ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘کو بالعموم ’’ر، د ،ت ‘‘لکھنا معمول بن گیا تھا ۔بعض اوقات چار نقطے لگا کر ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘ کو ظاہر کیا جاتا تھا۔
۳۔ قدیم دکنی میں ’’ک ‘‘ اور ’’ گ ‘‘کے فرق کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تھا
۴۔ یائے معرو ف (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’ زیر ِ ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر پڑھی جا سکے جیسے امِیر ،فقِیر،عجِیب ،غرِیب ) اور یائے مجہول (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’ زیر ِ ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر نہ پڑھی جا سکے جیسے سیر،شیر،دلیر) کا انداز تحریر بھی یکساں تھا۔
۵۔ دکنی میں ’’ ہ ‘‘اور ’’ ھ ‘‘میں کوئی امتیاز نہ تھا۔دکنی میں اُرد وکے بر عکس ہکار آوازیں حذف کرنے کا رواج تھا جیسے سورکھ کو سورک ،ہاتھ کو ہت ،کچھ کو کچ،مجھ کو مج ،اور بھی کو بی لکھا جاتا تھا ۔
۶۔ شعری تخلیقات میں قوافی کے انتخاب کسی مسلمہ قاعدے یا عروضی ضابطے کو اپنانے کے بجائے کسی مانوس قریبی آواز کو پیش نظر رکھ کر کام چلایا جاتاتھا۔ اس قسم کے قوافی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
روح کا قافیہ شروع ،اخص الخاص کاقافیہ یاس ،حوس (حواس) کا قافیہ نفس ،اولیا کا قافیہ روسیاہ ۔
لسانی تجزیے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے اپنے ارتقائی مراحل میں دکنی زبان مختلف ادوار میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی تھیں:
۱۔اسم سے فعل سازی کا عمل عام تھا جیسے چِتر (تصویر ) سے چِترانااور دِیپ سے دِیپنا وغیرہ ۔
۲۔الفاظ سے حر ف علت کو منہا کر دیاجاتا تھاجیسے سُرج (سُورج )،اُپر (اُوپر )،سار (سوار )،بِچ (بِیچ )،سُنا (سونا )وغیرہ ۔دکنی میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لفظوں کا پہلا مصوتہ طویل ہوتا تھا اُسے حذف کر دیا جاتا تھا مثلاً آدمی کو ادمی،آسمان کو اسمان،آنکھ کو انکھ لکھنا معمول تھا۔اس کے علاوہ دکنی میں درمیان میں آنے والی ُ ہ‘ بھی غائب کر دی جاتی تھی جیسے گھبراہٹ کے بجائے گھبراٹ ،تمتماہٹ کے بجائے تمتاٹ لکھاجاتا تھا۔دکنی میں’ ں ‘ کااستعمال عام تھا دکنی اہل ِ قلم نے کوں ( کو ) سوں (سے ) نوں (نے )،نِت ( روزانہ) کثرت سے استعمال کیا ۔
۳۔ اُردو نے بہت سے ہند آریائی الفاط کو سہل بنا لیا لیکن دکنی میں ان کی پرانی وضع برقرار رہی ۔دکنی میں مشدّد حروف کو مخف لکھنے کا رواج تھا جیسے اول ( اوّل )،چھجا (چھجّا )،غُصا( غُصّہ )،ہتّی (ہاتھی )،سُتّا(سوتا) وغیرہ۔
۴۔قدیم دکنی میں تاریخ کے مختلف ادوار میں فاعل بناتے وقت ’’ ہار ‘‘ کے اضافے کو نا گزیر سمجھا جاتا تھاجیسے کرن ہار ،سرجن ہار ،رہن ہار ،دیکھلان ہار،انپڑن ہار ، چاکھن ہار وغیرہ۔مرکبات کی تشکیل کے لیے ’پَن ‘ کااستعمال عام تھا جیسے میں پَن(انانیت )،ایک پَن (وحدت)،ذات پَن ،توں ،پن وغیرہ۔
۵۔قدیم دکنی میں اگر فاعل جمع مونث ہوتا تو فعل بھی جمع مونث کی صورت میں استعمال کیا جاتاتھا۔اس کی مثال درج ذیل ہے :
خوشی خرّمی میں او بلتیاں چلیاں
اکھرتیاں و پھرتیاں اوچھلتاں چلیاں (میزبانی نامہ : حسن شوقی )
دکنی میں مونث اسما کی جمع ’ یں ‘ لگانے سے بنتی تھی مثلاً رات سے راتیں ،بیل سے بیلیں وغیرہ۔ شمالی اردو میں ایک سے زیادہ طریقے رہے مثلاً رات سے راتوں وغیرہ۔
۶۔علامت فاعل ’’ نے ‘‘ کا استعما ل قدیم دکنی میں بہت کم ملتا ہے ۔دکنی میں علامت فاعل نہیں ہے ۔ضمیر غائب میں ’’ نے ‘‘ کا استعمال کہیں کہیں موجود ہے ۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
ع : جہاندار نے میزبانی کریا (حسن شوقی )
ع : جو بہرام نے سنواریا صلا (حسن شوقی )
ع : مُکھ موڑ چلی ہے چنچل نے گمان کر (شاہی )

۷۔ قدیم دکنی میں افعالِ معاون کی درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں:
ہے ۔اہے ۔اہیں۔
تھا ۔اتھا۔اتھے۔اتھار۔
تھا ۔تھیا۔تھیاں۔
اچھو۔اچھے۔ اچھیں۔
۸۔ دکنی اور اردو میں ضمائر کی مختلف شکلیں ان زبانوں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ دکنی اوراُردو میں مندرجہ ذیل ضمائر مستعمل رہی ہیں :
منج (مجھ )، ہمن ( ہم ) ،تُوں ( تُو)،تم کا (تیرا) ،تُمن(تُم)،تُمنا (تُم)،اُنن( اُن)، مَیں ،مُجہ ،مُجھے،میرا،ہَوں ،ہم،ہَمن،ہَمنا،تُوں ،تُجہ ،تُجے ،تیرا، تُمن،تمنا ُ،تہیں ،تُس ،تم ،اپے،،اپیں ،وو،وہ،اوس،اُلن،اُنوں وغیرہ۔
۹۔دکنی زبان کے ارتقائی مدارج پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم ،ضمیر،فعل کے آخر میں ’’ چ ‘‘ کا اضافہ کرنے سے ’’ ہی ‘‘ کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔تاکیدی حرف ’ہی ‘ کے بجائے ’چ‘ کا استعمال مر ہٹی کا اثر معلوم ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر دینا چ (دینا ہی)،تونچ(تو ہی )،اُسیچ (اُسے ہی )، کاچ (کا ہی ) وغیرہ۔
۱۰۔قدیم دکنی میں درج ذیل الفاظ کثرت سے استعما ل ہوتے تھے :
آنجھو ،انجھو (آنسو ) ۔ ابھال (بادل)،اچھر (حرف )،اچیل (چنچل تیز گھوڑا )،بھوئیں (زمین)۔
بھوتیک(بہت سے )،پر گٹ (ظاہر )،پنکھ، پنکھی (پرندا)،پونگڑا (لڑکا)،دھرتری (دھرتی)،دسن
(دانت )،ڈونگر (پہاڑ )،رُکھ (درخت )رکت (خون )،سرس (سر )،سور (سُورج)، کالوا(نالا)،ناد
(آواز)،نس دِن (رات دِن)نانو(نام)۔ (17)
کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جواردو ،دکنی اور پنجابی میں آج بھی کثرت سے مستعمل ہیں ۔مثال کے طور پر نِت ( ہر روز) ، کُلی ( کٹیا) ،آوازہ ( پکار ) ،دم ( زندگی ) اور میری میری وغیرہ ۔دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دوآبے کے وسیع علاقے میں پنجابی زبان بولنے والے والے لوگ آ ج بھی جھونپڑی کو ’ کُلی ‘ کہتے ہیں ۔کئی لوک گیتوں میں لفظ ’ کُلی‘ جھونپڑی کے معنوں میں مروّج ہے۔محمدنصرت نصرتی کا شمار دکنی زبان کے ممتاز شعر ا میں ہوتاہے ۔اس نے لفظ ’ نِت ‘ کو نہایت خوب صور ت انداز میں ایک شعر میں شامل کیا ہے :
دھر نہار اکثر اثر مہر کی
رکھیا مجھ طرف نِت نظر مہر کی
پنجابی زبان میں بھی اس قسم کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔
اﷲ ہُو دا آواز ہ آوے کُلی نی فقیر دی وچوں
نہ کر بندیا میری میری دم دا وساہ کوئی نہ
ترجمہ: اﷲ ہوُ کی آوا زفقیر کی جھونپڑی میں سے آ رہی ہے
اے انسان دنیاوی حرص و ہوس سے بچ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں
آج بھی پنجاب میں مقیم مقامی زبان کے اکثر شاعر اپنے کلام میں لفظ ’ کُلی‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کے ممتاز شاعر مہر ریا ض سیا ل نے بھی اپنے ایک پنجابی دوہڑے میں لفظ ’ کُلی ‘ کو جھونپڑی،نِت کو ( روزانہ) اور ککھ ( تنکا ) کے معنوں میں استعمال کیا ہے :
نِت اپنی بال کے سیکی کر ،تو ں آس کسے دی رکھ نئیں
جَداں سَیت نو ں آ اُگھلا ویندائے ،کوئی پرت کے ویدھا اَکھ نئیں
جِتھے عزت دا یار سوال ہووے ،کائی چیز بچا کے رکھ نئیں
ککھ ریاض ؔ شریکاں اِچ رہ جاوِن ،بھاویں رہے کُلی دا ککھ نئیں
ترجمہ:
روزانہ اپنی محنت شاقہ سے رزق ِ حلال کماؤ کسی غیر پر انحصار نہ کرو
مشکل وقت میں سبھی طوطاچشمی کرتے ہیں کسی کا اعتبار نہ کرو
حریت ِ ضمیر کا مسئلہ ہو جہاں کوئی چیز بچانے پر دِل کو تیار نہ کرو
گھر لُٹ گیا مگر رقیبوں میں عزت رہی اس پر دُکھ کا اظہار نہ کرو
دکنی زبان کے ارتقا کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد جو حقائق سامنے ا ٓتے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو زبان نے تاریخ کے ہر دور میں فکر و خیا ل کی انجمن سجانے کی خاطر بر صغیر کی ہر زبان سے لسانی استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔اپنے ذخیر ہ ٔ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے اردو زبان نے ہر زبان کے ادب سے خوشہ چینی کو شعار بنایا۔اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ گیسوئے اردو کا نکھار مقامی زبانوں سے بھرپور استفادہ کا ثمر ہے۔اردو زبان میں جو صد رنگی جول گر ہے وہ صدیوں کے اُس لسانی عمل کا ثمر ہے جس کے معجز نما اثر سے یہ زبان نہ صر ف اس خطے کی تما م زبانوں بل کہ دنیا کی مشہور زبانوں کی خصوصیات کا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔ تاریخی حقائق سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہلی کے قدیم شعرا نے تخلیق فن کے لمحوں میں بالعموم دکنی اسالیب کو پیش نظر رکھا۔قدیم دور کی اردو شاعری کا عمیق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے شعرا نے دکنی زبان کے متعدد الفاظ استعمال کیے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ دکنی زبان نے اپنی ہمہ گیر اثر آفرینی سے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ دہلی میں بولی جانے والی اردو میں دکنی کے بعض حروف اور ضمائر کی موجودگی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا ربط تھا۔مثال کے طور پر ’’سیں ‘‘ ’’ منجے ‘‘ اور ’’سستی ‘‘ وغیرہ۔ دہلی کے شعر ا نے دکنی کے مندرجہ ذیل الفاظ کا کثرت سے استعمال کیے:
انکھیاں ،ادھر،دستا،نپٹ،مُکھ،انا،بچن،کپت،لگ،پیا،من ہرن،پگ،سار،بھیتراور نت وغیرہ ۔ (18)
دہلی کے اردو شعرا کے کلام میں دکنی حروف لسانیات کے ارتقا کی تاریخ کی تفہیم میں جس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں ،اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
میرے ملنے سیں پیارے کیوں عبث تُو جی کھپاتاہے
اِن ہی باتوں سے اے بے خبر اخلاص جاتا ہے ( نجم الدین شاہ مبار ک آبروؔ : 1683-1733)
تیر ا بر جستہ قد ہے منتخب مصرع نظامی کا
کہ چشمِ مست اُوپر صیاد جوں دستا ہے جانی کا (آبروؔ)
بے رحم و بے وفا و تُنک رنج و تُند خُو
تُجھ کوں ہزارنام سجن دھر گئے ہیں ہم (آبروؔ)
مرگ سی چُک سوں کھینچ ہرن کی کھال
پگ تلیں بیٹھی مرگ چھالا ڈال (فائزؔ )
جو ں جھڑی ہر سُو ہے پِچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کی سار (فائزؔ )
بہت سا جگ میں حاتمؔ ڈھونڈ آیا
پِھر ایسا دُوسر ا ہمدم نہ پایا ( شیخ ظہور الدین حاتم ؔ :1699-1733)
مئے پرستوں پر قیامت آن ہے ساقی نہیں
بزم لے اُس کے نِپٹ ویران ہے ساقی نہیں (حاتمؔ)
نہ بولے آپ سیں جب لگ نہ بولو
کُھلے نہ بِیچ جب تب لگ نہ کھولو (حاتم ؔ)
جب تک رہے قفس میں یہی شغل نِت رہا
سر کو جُھکاجُھکا کر پر و بال دیکھنا ( اشرف علی فغاں : ؔ 1726-1772)
نِپٹ سخت ہے ماجرا درد کا
دِل سرد کا اور رُ خ زرد کا (فغاںؔ )
برصغیر میں بولی جانے و الی ہر زبان کے لیے ہندی نام بالعموم تمام آریائی زبانوں کے لیے مستعمل رہا ہے ۔ دکنی زبان کو نر بدا یا جنوبی سر حد تک محدود کرنا درست نہیں۔نر بدا بھوپال سے کچھ نیچے ہو شنگ آباد کے نزدیک سے جو سر حد گزرتی ہے اس کے جنوب میں مدھیہ پردیش کا وسیع علاقہ ہے وہاں موجود اصطلاح کے لحاظ سے ہندی زبان مستعمل ہے ۔ (19
ان حقائق سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں شمالی ہند کے وسیع علاقے میں دکنی زبان بولی اور بولی جاتی تھی ۔ شمالی ہند میں دکنی زبان کے بہت سے محاورات کا استعمال عام تھا جیسے گریباں پھاڑنا، دِل باندھنا ،زندگی بھاری لگنا ، دِل ہارنا،جی نکل جانا،جی جلانا ،جی قربان کرنا ،جی ہارنا اورجی نکلنا وغیرہ۔
گریباں عاشق از غم پھاڑتا ہے
خمار ِ عشق میں دِل ہارتا ہے
ایسی نگاہ کی کہ میرا جی نکل گیا
قضیہ مِٹا عذاب سے چُھوٹے خلل گیا
دکنی اور اردو زبان کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فائزؔ،فغاں ؔ ،اورحاتم ؔ جسے ممتاز شعرا نے دہلی میں رہتے ہوئے دکن کے شعرا ولیؔ ،غواصی ؔ اورسراجؔ کی زمینوں میں غزل گوئی کو شعار بنا کر دکنی اسلوب کی دل کشی کو تسلیم کیا۔سراج الدین علی خان آرزو ؔ (1687-1756)کا شماردہلی کے ممتاز اور مقبول شعرا میں ہوتا تھا۔ شاہ مبارک ،مضمون ،یک رنگ ،آنند رام ،مخلص اورٹیک چند بہار جیسے شاعراپنے عہد کے پُرگو شاعر سراج الدین علی خان آرزوؔ کے شاگرد تھے ۔آرزو ؔکی شاعری میں دکنی کے متعدد الفاظ کے استعمال اورسراپا نگاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار نے بھی دکنی سے اکتساب فیض کیا ۔ولی ؔ دکنی کے زمانے میں محبوب کو ’’پی ‘‘ ، ’’پیا ‘‘ ،’’صنم ‘‘ ، ’’ یارِ بے پروا‘‘ ’’پیتم ‘‘ ،’’ سریجن ‘‘ ،’’موہن‘‘ ،’ ’من ہرن ‘‘ یا ’’ سجن ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا جب کہ بعد میں اس کے بجائے معشوق ،محبوب یا پیارا کو ترجیح دی گئی۔ ولیؔکے معاصرین اور سراج الدین علی خان آرزوؔکی شاعری میں بھی محبوب کے لیے اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں :
ولی ؔ مجھ دِل میں یوں آتی ہے یادِ یارِ بے پرواہ
کہ جوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آ ہستہ (ولیؔ دکنی)
برنگِ قطرۂ سیماب میرے دِل کی جنبش سوں
ہوا ہے دِل صنم کا بے قرار آہستہ آ ہستہ (ولیؔ دکنی)
جس وقت اے سریجن تُو بے حجاب ہو گا
ہرذرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا (ولی ؔ دکنی)
ہر گز نظر نہ آیا ہم کو سجن ہمارا
گویا کہ تھا چھلاوہ وہ مَن ہرن ہمارا (آرزوؔ)
تیرے دہن کے آگے دم مارنا غلط ہے
غنچے نے گانٹھ باندھاآخر سجن ہمارا (آرزوؔ)
زندگی دردِ سر ہوئی حاتم ؔ
کب مِلے گا مُجھے پِیامیرا (حاتمؔ )
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیاجائے نا (قلی قطب شاہ )
دہلی میں مطلق العنان بادشاہوں اورسلاطین کے دور ( 1211 -1526) میں اس خطے میں جس زبان کو فروغ ملا اسے کھڑی بولی اور دہلوی کا نام دیا گیا ۔ مسلمان فاتحین ،ان کے ساتھ آنے والے فوجی دستے مقامی آبادی ،ادب اورفنون لطیفہ سے وابستہ لوگ ،صوفی شعرا اور مبلغین سب نے با لعموم کھڑی بولی کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ کھڑی بولی جو پنجابی سے قریب تھی سال 1327میں جنوبی ہند میں نمو پانے لگی۔محمد تغلق کے عہد میں جب دہلی سے اورنگ آباد اور دکن کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تولسانی تغیر و تبدل بھی شروع ہو گیا۔پندرہویں صدی عیسوی میں دکنی زبان نے اس خطے میں خوب رنگ جمایااور اسی میں ادب کی تخلیق پر توجہ دی گئی۔ اور نگ آباد اورحیدر آباد میں کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کو اپنے دامن میں سمو لینے والی اور کئی زبانوں سے پیمان وفا باندھنے والی دکنی زبان کے اب بھی چرچے ہیں ۔لچک دار لہجے اور پر لطف انداز کی وجہ سے دکنی زبان کی قوس قزح میں عربی ،فارسی ،اُردو ،ترکی، تلگو ،مراٹھی،انگریزی اور ہندی کے حسین رنگ اور بلند آ ہنگ ہر دور میں قارئینِ ادب کی توجہ کا مرکز رہے ۔ گو لکنڈہ اور بیجا پورکی دکنی ریاستوں میں دکنی ہی کو اردو کی قدیم صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ بر صغیر کے جن علاقوں کے باشندوں کی بڑی تعداد دکنی اُردو میں اظہار ِ خیال اور تحریر کی استعداد رکھتی تھی اُن میں آندھرا پردیش،مہاراشٹرا ،کرناٹکا، تلنگانہ، گوا،چیتا گڑھ ،کیرالا اور تامل ناڈو شامل ہیں۔ ممتاز جرمن ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ ارنسٹ رابرٹ نسپیٹل ( Prof.Dr.Helmet Ernst Robert Nespital)نے زندگی بھر ہندوستانی لسانیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ ماہر لسانیات رابرٹ نسپیٹل(1936-2001)نے ہندوستان میں اردو زبان کے لسانی ارتقا کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ریختہ اور تصوف کی شاعری کا دور (1648-170)
۲۔اورنگ آباد سے ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعد کا عرصہ (1700-1720)
۳۔اردو گرامر پرتوجہ (1720-1740)
۴۔عہد زریں میرتقی میر ،سودا ؔ اوردرد ؔ کادور (1740-1780)
۵۔زبان کو معیار کی رفعت عطا کرنے کا تکمیلی مرحلہ (1780-1810) (20)
لسانیات اور ادب کی تاریخ ماضی کے واقعات پر پڑنے والی ابلقِ ایام کے سموں کی گردکو صاف کرتی ہے۔اس طرح جب طاقِ نسیاں کی زینت بن جانے والے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہوتا ہے ۔اسی معجز نما کیفیت کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔مطالعۂ ادب کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی شعور کے ثمر بار ہونے سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے ،اخوت و محبت کی فراوانی اور خلوص و دردمندی کے جذبات کو مہمیز کیا جا سکتا ہے ۔اسی کے وسیلے سے ہر قسم کی منافرت ،عصبیت ،تنگ نظری ،جہالت اور انصاف کُشی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کی مساعی رنگ لاتی ہیں۔اُرد واور دکنی زبان کی تاریخ کے دامن میں ماضی کے واقعات اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے مظہر متعدد حقائق موجود ہیں۔ان کامطالعہ جہانِ تازہ کے متلاشی فکر و خیال کی دنیا کے رہ نوردوں کو جہان ِ تازہ کی نوید سناتا ہے اور افکارِ تازہ کی ایسی مشعل فروزاں ہوتی ہے جو سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کرتاہے ۔فکر وخیال کی یہ ضیا پاشیاں اقوام اور تہذیبوں کے ارتقا سے وابستہ اقدار و روایات اور ان سے منسلک رازوں کی گرہ کشائی کو یقینی بناتی ہیں۔ دکن کے وسیع علاقوں بالخصوص گولکنڈہ اور بیجا پور کی دکنی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان ’’دکنی ‘‘کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتاہے کہ یہ اردو کی قدیم صورت ہے۔ دکنی کے اردو کے ساتھ گہرے میلانات اور مشابہتیں اس کا بنیادی سبب ہیں۔ اردو زبان کا قدیم دکنی زبان سے ایک الگ مزاج ہے مگر اسے دکنی کی ایک ایسی منفرد صورت سمجھا جاتا ہے جس میں دونوں زبانوں کے کئی مشترک رنگ جلوہ گر ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ جہاں تک علم الاصوات اورگرامر کے قواعدکا تعلق ہے قدیم زمانے میں دکنی اور اردو میں گہری قرابت اور مشا بہت پائی جاتی تھی مگر جدید دور میں یہ عنقا ہے ۔ان زبانوں میں پائے جانے والے اختلافات کا تعلق قواعدی صوتیات ،شکل و صورت ،صرف و نحو اور لغت سے ہے ۔معاصر لسانی تصورات کی روشنی میں دیکھاجائے تو دکنی زبان کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُردو کی ایک ایسی الگ صورت سمجھا جاتا ہے جوجدید دور میں تخلیق ادب کے لیے کم کم استعمال ہوتی ہے ۔ زمانہ قدیم کے تخلیق کار لسانیات کے بارے میں یقیناً اس قدر باشعور اور سنجیدہ تھے کہ انھوں نے سیلِ زماں کے تھپیڑوں پر کڑی نظر رکھی اور زندگی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا ۔اپنے جذبات واحساسات کی لفظی مرقع نگاری اور پیکر تراشی کرتے وقت اصلاح زبان پرتوجہ مرکوز رکھنا بِلا شبہ ایک کٹھن مر حلہ تھا مگر قدیم تخلیق کاروں نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کو ثابت کر دیا ۔ دکنی کے کئی الفاظ جو قدیم اردو میں مستعمل رہے اب وہ متروک ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں۔ذیل میں قدیم دکنی کے چند الفاظ درج کیے جاتے ہیں جن کا موجودہ زمانے میں استعمال تحریر کو پشتارۂ اغلاط بنانے کاسبب بن سکتا ہے ۔ زبانیں جب نئے علاقوں میں پہنچتی ہیں تو مقامی زبانوں کا ان سے متاثر ہونا نا گزیر ہے ۔اس طرح لسانی سطح پر تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لسانی ارتقا پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ دکنی زبان سے اس خطے کی ارضی و ثقافتی اقدار و روایات کی ج ومہک آتی ہے اس سے قارئیں ادب کا قریہ ٔ جاں معطر ہو جاتا ہے ۔دکن کے تخلیق کاروں نے بر صغیر کے طول و عرض میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے خوشہ چینی کرتے ہوئے الفاظ کے گل ہائے رنگ رنگ سے جو جو حسین و عنبر فشاں گل دستہ مرتب کیا ہے اس کی رنگینی و رعنائی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔خاص طور پر تلگو اورپنجابی الفاظ کا اپنا منفرد رنگ اورآ ہنگ ہے ۔ دکنی شعرا کے کلام میں بھی اس قسم کے نا مانوس الفاظ موجود ہیں جو مقامی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں ۔ذوق سلیم سے متمتع قارئینِ ادب لسانیات کی اس قوسِ قزح کے حسین رنگ دیکھ کرمسحور ہو جاتے ہیں ۔ سال 1327 میں محمد بن تغلق کی مہم جوئی کے نتیجے میں اس خطے میں جس لسانی عمل کا آغاز ہوا اوردکنی زبان کی جو خشتِ اول رکھی گئی اسی کی اساس پر دکنی زبان و ادب کا قصر ِ عالی شان تعمیر ہوا ۔ خواجہ بندہ نواز (1321-1422)کی معراج العاشقین جو اس خطے میں تصوف کی اولین تخلیق ہے اورفخرالدین نظامی کی تخلیق ’کدم راؤ پدم راؤ( عرصہ تخلیق : 1420-1430)سے روشنی کے جس سفر کا آغاز ہوا وہ اب بھی جاری ہے ۔دکن میں تلنگانہ اورآندھرا کے علاقوں میں تلگو کے اثرات نمایاں رہے ہیں جب کہ بہمنی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعداحمد نگر
( 1460-1633)، بیجاپور ( 1460-1686)،بیدار(1487-1619) اور گول کنڈہ (1512-1687)کے علاقوں میں پنجابی الفاط کا استعمال زیادہ ہے۔
لفظ ’ نسنا ‘ پنجابی زبان میں بھاگ جانے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے معنی دیتا ہے ۔یہ لفظ دکنی شعرا کے کلام میں منفرد انداز میں موجود ہے :

جو لیدان آئے فقیراں وراس
چلی سب فقیری جگت چھوڑ نھاس ( احمد دکنی )
بُلا کر لائے چاکر شاہ کے پاس
کہا مایا چُرا کر جاتے ہیں ناس (محمد امین دکنی )
دونوں ہاتاں آپس کے کھو گیااو
نسنگ نھاس لگا ہے سگ بچہ او (ولیؔ دکنی )
قدیم دکنی میں دو طرفہ کے لیے ’ دولاں ‘ کالفظ استعمال کیا جاتا تھا جو پنجابی لفظ ’ ول ‘ سے لیاگیا ہے ۔
دِسے فانوس کے درمیانے تھوں یوں جوت دیوے کا
سو تیوں دِستا دولاں میں تھے ہیویاں کا برن سارا (محمدقلی قطب شاہ )
نمک کی کان تو مشہور ہے مگر پنجابی میں لفظ ’ کان ‘ کا مطلب ’ واسطے ‘ یا ’لیے ‘ہے ۔ دکنی شعرا نے اس لفظ کو اپنے کلام میں اس خوش اسلوبی سے برتا ہے کہ کلام کی تاثیر کو چا ر چاند لگ گئے ہیں ۔
سو کچھ مان مانس کوکیتا عطا
جوسب کو اِسی کان پیدا کیتا (احمددکنی )
جب میں سدا برہ کا دکھ دکھوں
میرے کان جھکڑاروا کیوں رکھوں (احمددکنی )
کچی مٹی کے پتلے گارے اورکیچڑ کو پنجابی میں ’ چِکڑ ‘ کہتے ہیں دکنی زبان میں بھی یہ اسی طرح مستعمل ہے ۔
بڈھے جو رکت ہو چکڑ میں پڑے
پنکھی جو سٹے کات سوتر پڑے (احمددکنی )
دودھ کو پنجابی میں ’ کِھیر ‘ کہتے ہیں اسی کی تقلید میں دکنی زبان کے تخلیق کار بھی دودھ کے لیے لفظ ’ کِھیر ‘ ہی استعمال کرتے ہیں ۔
تھاں دیکھنے لاگا بالک لکھ نہ آوے کِھیر
جِس کے انگو بھرم نہ جاوے اُس کیوں کہنا پِیر ( میراں جی شمس العشاق )
شمالی ہند اور جنوبی ہند کے باشندے بر صغیر کی اقوام کی ایک مخلوط اور مرکب نوعیت کی تہذیب و ثقافت کی پہچان خیال کیا جاتا ہے ۔اس کی ہمہ گیر وسعت اور جامعیت کا ایک عالم معترف ہے ۔دکن کی تہذیب و ثقافت اور لسانیات کی تاریخی جہات کے کرشمے دہلی اور اس کے مضافات میں صدیوں سے توجہ کا مرکز چلے آ رہے ہیں ۔ادب اور فنون لطیفہ ہوں یا علوم سب کی ایک خطے سے دوسرے خطے کے باشندوں تک منتقلی انسانوں ہی کی مرہون منت رہی ہے ۔ذوق سلیم سے متمتع انسانوں کا وسیلہ علمی و ادبی میراث کی منتقلی کے لیے نا گزیر سمجھا جاتا ہے اس کے بغیر علوم و فنون کے ارتقا سے وابستہ تاریخی تسلسل کا جاری رہنا بعید از قیاس ہے ۔رخشِ حیات کی طرح لسانیات کی یہ برق رفتاریاں سدا جاری رہتی ہیں اورخوب سے خوب تر کی جانب سفر جاری رہتا ہے اور مر حلہ ٔ شوق کبھی طے نہیں ہوتا ۔ بادی النظر میں لسانی ارتقا بھی ایک حرکی عمل ہے جو اس عالمِ آب و گِل میں اپنا فعال کردار ادا کرنے والے متعدد زندہ مظاہر کے مانند ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کے کرشمے دکھا کر اپنی ہمہ گیر اہمیت کی دھاک بٹھا دیتا ہے ۔لسانی ارتقا کا معاشرے اور ماحول کے تغیر و تبدل کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ دکن کے قدیم باشندوں نے اپنے عہد کے سیاسی حالات کو قریب سے دیکھااوروہ اس تجربے کا حصہ رہے جو عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں سامنے آئے ۔فوجی مہمات کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر انتقال آبادی کے مسائل و مضمرات ان کی تخلیقی فعالیت پر بھی اثر انداز ہوئے ۔مطلق العنان بادشا ہوں کے دور میں معاشرتی زندگی کے معمولات مکمل طور پر بدل جاتے ہیں ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر جاہل غاسب اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں ۔معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی اس قدر عام ہو جاتی ہے کہ با صلاحیت اور ناہل کا امتیاز کیے بغیر ہر آمر اپنی ساری رعایا کویک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے ۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈ لانے لگا ہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اقوام کے جاہ و جلال ،سطوت و ہیبت کو تو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب ان سے محفوظ رہتی ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کی تعلیم کے وسیلے سے تہذیبی میراث کو نئی نسل کومنتقل کیا جاسکتاہے ۔سقراط (Socrates) ہو یا جیور ڈانو برونو (Giordano Bruno)، ڈک ٹرپن (Dick Turpin)ہو یا ہورتیا بوٹملے (Horatio Bottomley)سب کے سب شامت ِ اعمال یا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ کر فسطائی جبر کے مہیب پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر کوئی آنکھ ان کے دلِ شکستہ پر نَم نہیں ہوتی ۔ تہذیبی میراث کے حصول کے لیے نئی نسل کو سخت محنت کو شعار بنانا پڑتا ہے ۔ معاشرتی زندگی میں لسانیات کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی دستور ہے جہاں ترک وانتخاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری ر ہتا ہے اور ماضی کے کئی حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔ دکن میں ادب ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے وابستہ فعالیتیں جو ابتدائی ادوار میں تہذیب و تمدن کے فروغ کے سلسلے میں معمولی زاد ِ راہ سمجھی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی فعالیتیں معاشرتی زندگی کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئیں ۔لسانیات میں سُود و زیاں کا کوئی تصور ہی نہیں کسی زبان کی پزیرائی ہی کو اس زبان کی حقیقی فیض رسانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ افراد کی معاشرتی زندگی میں اظہار و ابلاغ میں تجریدی پیرایۂ اظہار کے بجائے اس سے وابستہ حرکت و حرارت اور مزاج و کیفیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ اقدار جن کا تعلق معاشرے کی اجتماعی زندگی تھا پیہم تغیر و تبدل کی زد میں رہی ہیں لسانی ارتقا بھی اس عمل
سے بے نیاز نہ رہ سکا ۔لسانی حوالے سے ادب محض اُن تجربات،احساسات ،واقعات اور ان سے متعلق تفصیلات پر انحصار نہیں کرتا جو تخلیق فن کے لمحوں میں پیش نظر رہے بل کہ ایک اجتماعی جذبِ دروں کی دھنک رنگ کیفیت اس کے پسِ پردہ کارفرما رہتی ہے ۔اس طرح تخلیق کار جس نوائے سروش سے سرشار ہو کر اپنی گُل افشانی ٔ گفتارکے جوہر دکھاتا ہے اس کے حرکیاتی کردار سے معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات ،سانحات،نشیب و فراز ،تغیر و تبدل اورارتعاشات کو محض اتفاقات یا حادثات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ایسے حالات ازخود پیدا نہیں ہو جاتے بل کہ یہ ایک نظام کے تحت منصۂ شہود پر آتے ہیں جس کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے قواعد و ضوابط کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ وہ انسانوں کو خاص حدود میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مائل کرتے ہیں ۔انسانیت کی بقا ،وقار اور سر بلندی اس امر کی متقاضی ہے کہ بے لوث محبت ، خلوص ،دردمندی ،تعاون اور ایثار کو شعار بنایا جائے ۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جُل کر زندگی بسر کی جائے اور سب کے ساتھ ہمدردی کو شعار بنایا جائے ۔ مِل جُل کر رہنا ،ایثار اور غم گساری انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔تاریخی حقائق اس امر کے شاہد ہیں کہ انسانی ذہن و ذکاوت اور قلب و روحانیت کے اعجاز سے نمو پانے والے تصورات کا اظہار الفاظ کا مرہونِ منت ہے ۔ادبیات اور لسانیات کا ارتقا الفاظ کی صد رنگی کا مظہر ہے جسے تاریخی تناظر میں دیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔دکن میں رونما ہونے والے لسانی تغیرات کا تاریخی پس منظر متعدد چشم کشا صداقتوں کا امین ہے ۔
تیرہویں صدی عیسوی میں بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین فیروز خلجی (عہد حکومت : 1290-1296) کے بعد علاؤالدین خلجی (عہد حکومت :1296-1316)مسند اقتدار پر فائز ہوا۔اسی بادشاہ کے عہد میں مسلمان افواج دکن پہنچیں ۔اس یلغار کے نتیجے میں جو نقل مکانی ہوئی لسانی عمل بھی اس سے متاثر ہوا۔اس نئی زبان میں پنجابی،ہریانی اور کھڑی بولی کے امتزاج سے اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آئے۔اِس نئی زبان نے جہاں برج بھاشا سے اثرات قبول کیے وہاں عربی اورفارسی زبان سے بھی بے نیاز نہ رہ سکی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس نئی زبان کو جن ناموں سے پکارا گیا ان میں ہندی،ہندوستانی اور دکنی شامل ہیں ۔دکنی زبان کے ارتقا میں ایک اور اہم واقعہ محمدبن تغلق (عہد حکومت :1325-1351)کی وہ مہم جوئی ہے جو اس نے مہاراشٹر کے شہر دیو گری کو دولت آباد کا نام دیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا ۔اسکے س اتھ ہی قصر شاہی سے رعایا کو نئے دار الحکومت کی جانب ہجرت کرنے کا حکم صادر ہوا۔ محمد بن تغلق کے اس حکم کی تعمیل کرنے والوں کو سفر خرچ اور قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ محمد بن تغلق کے احکام کے نتیجے میں دہلی اور اس کے مضافات میں مقیم لوگوں نے بڑے پیمانے دولت آباد کی جانب ہجرت کی ۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس علاقے میں لسانی تغیرات کو تقویت ملی اور مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان نے فارسی زبان سے گہرے اثرات قبول کیے ۔ شمالی ہند میں مروج زبان جس کا دامن معیاری ادبی تخلیقات سے تہی تھا اس نقل مکانی کے بعدمہاراشٹری اور دراوڑی زبانوں کے درمیان معیاری ادبی زبان کی صورت میں سامنے آ رہی تھی۔ چودھویں صدی کے وسط میں تغلق بادشاہوں کا جاہ و جلال جب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آیا اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے قصہ ٔ پارینہ بننے لگے تو جنوبی ہند میں سیاسی حالات کا رخ بدل گیا ۔یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے نکل گیا اور یہاں دہلی کی مرکزی حکومت سے بغاوت کرنے والے سلطان علاؤالدین حسن بہمن شاہ کی قائم کردہ بہمنی سلطنت ( عہد حکومت : 1347-1527) قائم ہوگئی۔اس اقدام کے بعد دکن کا شمالی ہند کے ساتھ رابطہ ٹُوٹ گیا۔سال 1538کے بعدبہمنی سلطنت پانچ حصوں(احمد نگر ،بیجا پور ،برہان پور ،بیدار اور گو کنڈہ ) میں منقسم ہو گئی ۔صرف دو ریاستوں (بیجاپور ،گو ل کنڈہ )میں علم و ادب کی سرپرستی پر توجہ دی گئی ۔ بیجاپور میں عادل شاہی جب کہ گو ل کنڈہ میں قطب شاہی سلطنت کے قیام سے اس علاقے میں علم و ادب کی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔دہلی میں مغل حکومت کے قیام کے بعد بہمنی سلطنت کے اقتدار کی شمع ٹمٹمانے لگی مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے ان دو ریاستوں کا مغل سلطنت کے ساتھ ادغام کر دیا اور اس طرح بہمنی سلطنت کے عروج کے قصے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے اور علم و ادب کی سرپرستی کی روایات اور ان سے وابستہ اقدار بھی تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں ۔ بہمنی سلطنت کے منتشر ہونے کو علم و ادب ،معیشت اور صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے ایک نیک شگون سمجھا گیا ۔اس طرح جہاں معاشرتی ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوئے وہاں دکنی ادبیات کو مزید ادبی مراکز دستیاب ہوگئے ۔ان ادبی مراکز میں حکمرانوں کی سر پرستی کے اعجاز سے ادب اور فنون لطیفہ کو افکار تازہ کو پروان چڑھا کر جہانِ تازہ کے نقیب نئے آفاق تک رسائی کے امکانات پیدا ہو گئے ۔
دکن میں علم و ادب کے ارتقا کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے حکمرانوں نے علوم و فنون کی ترقی میں گہری دلچسپی لی ۔دکن کے کئی بادشاہ اپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اُرو،برج بھاشا اورتیلگو میں اپنی تخلیقات پیش کرتے تھے۔

مآ خذ
(1)ابواللیث صدیقی ڈاکٹر : جامع القواعد(حصہ صرف)،لاہور،مرکزی اردو بورڈ ،بار اول ، 1971 ، صفحہ 72۔
2.Welseley Haig: The Cambridge History Of India .Vol III ,Cambridge University Press,London, 1928,Page, 439.
(3)۔جمیل جالبی ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو (اٹھارہویں صدی ) جلد دوم ،حصہ اول ، دہلی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،1984،صفحہ 25۔
(4) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدر آباد ،سال اشاعت 2012، صفحہ 2۔
(5)محمد حسین آزاد ؔ: آب حیات ، لاہور،مطبع نول کشور ،1907،صفحہ 87۔
(6) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ ،تحقیقات ِ اُردو ،نقش ثانی ،1984،صفحہ 2۔
7.Will Durant: The Story Of Civilization, 1.Our Oriental Heritage,Simon And Schuster,New York ,1942 ,Page 462
(8)نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ، لاہور،مکتبہ معین الادب ،چوتھی بار ، 1952 ، صفحہ 19۔
(9) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس،مصنف ملا وجہی ، کراچی ،انجمن ترقی اردو پاکستان ،1952،طبع دوم ، صفحہ 70۔
(10)مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس، مصنف ملا وجہی ،صفحہ 80۔
(11)مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس ، مصنف ملا وجہی ،صفحہ 93 ۔
(12) شوکت سبزواری ڈاکٹر : لسانی مسائل ، کراچی ،مکتبہ اسلوب ،اشاعت اول ،1962، صفحہ 78۔
13.Jamal Malik:Islam In South Asia ,Brill ,Boston,2008,Page 283.
14. Heory Frowde (Publisher): The Imperial Gazetteer Of India, Vol,I, Oxford,London 1909,Page 362
15.Romila Thoper: The Penguine History Of Early India ,London,2002,Page,113.
16.Keith Brown: Concise Encyclopedia Of Languages Of The World,London,2009,Page,498
(17)جمیل جالبی ڈاکٹر :تاریخ ِ ادب اردو ،جلداوّل ، دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،طبع دوم ،1986 ،صفحہ 200۔
(18)سیدہ جعفر ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدرآباد ،2002،صفحہ ،10۔
(19)سیدہ جعفر ۔گیان چند جین :تاریخ ادب اردو ،جلداول ، دہلی،قومی کونسل برائے فروغ اردو ،1998،صفحہ ،54۔
20.George Cardona:The Indo-Aryan Languages,Routledge,New York,2007,Page289.

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 612981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.