ہائے! کوئی ان سے پوچھے کہ مدعا کیاہے؟

گزشتہ دنوں وطنِ عزیز جو اسلامی جمہوریہ ہے اس کی ایک موٹر وے پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف اہلِ پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بسنے والے ہم وطنوں کے دل دہلا دیے؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس نوعیت کا پہلا واقع ہے؟ یقینا،جواب نفی میں ملے گا۔ اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں ہو سکتا کہ اس قبیل کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے بعض جب میڈیا کی دسترس میں آجاتے ہیں تو اس کی صدا ایوانِ اقتدار تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ”فوری نوٹس لے لیا گیا“۔نوٹس لیا جائے یا نہ لیا جائے غور طلب بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع ہائے! کوئی ان سے پوچھے کہ مدعا کیاہے؟
افضل رضوی کے قلم سے
گزشتہ دنوں وطنِ عزیز جو اسلامی جمہوریہ ہے اس کی ایک موٹر وے پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف اہلِ پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بسنے والے ہم وطنوں کے دل دہلا دیے؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس نوعیت کا پہلا واقع ہے؟ یقینا،جواب نفی میں ملے گا۔ اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں ہو سکتا کہ اس قبیل کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے بعض جب میڈیا کی دسترس میں آجاتے ہیں تو اس کی صدا ایوانِ اقتدار تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ”فوری نوٹس لے لیا گیا“۔نوٹس لیا جائے یا نہ لیا جائے غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی اور جس کی اکثریت کا تعلق بھی اسی مذہب سے ہے جو دینِ متین بھی ہے تو ان دینی حمیت کہاں کھو گئی ہے؟ کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟ حکومتی مشینری اس کی ذمہ دار ہے یا ہمارے قانون میں نقائص ہیں؟
یہ واقعہ جو لاہور کے قریب نئی موٹروے پر پیش آیا۔ اسے موضوع بناتے ہوئے صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے طرح طرح سے اور اپنے اپنے زاویے سے اپنے خیالات کو اخبارات، جرائد ورسائل کی زینت بنایا اور بعض نے تو بجائے خود مظلومہ پر سوالات اٹھا دیے۔ یہی نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ دار افراد نے پریس کانفرنسز ایسے کیں جیسے کسی بڑے معرکے کے بعد معلومات سے عوام الناس کو مطلع کیا جاتا ہے۔
ع ہائے! کوئی ان سے پوچھے کہ مدعا کیاہے؟
پھر جب ایسے موقع پر ایک ذمہ دار افسر کے منہ سے ایسے الفاظ نکلے جو کسی طور مناسب نہ تھے تو خدا جانے ریاستی مشینری کے عیب چھپانے کے لیے حکومتی مشینری کیوں حرکت میں آگئی؟ وزراء اور معاونین اس کی بھر پور سپورٹ میں میڈیا پر آگئے۔ ان کا میڈیا پر آنا سمجھ میں آجاتا ہے جب ملکی حالات سے کما حقہ واقفیت ہو چنانچہ انہوں نے ”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا“ کی مصداق عوام کی توجہ ملک کے اصل معاملات سے ہٹانے کی غرض سے بیانات کا سلسلہ شروع کردیا اور وقتی طور پر اپوزیشن کی طرف سے منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس سے لوگوں کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔
آخر کیا وجہ ہوئی کہ ٹی۔وی اور یوٹیوب چینلز نے اس واقع کو اس طرح اچھالا کہ جیسے اس نوع کا واقعہ پہلے کبھی رونما ہی نہ ہوا ہو۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طرح کے واقعات معاشرتی پستی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قانون کی عمل داری پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ وہ خاتون اکیلی وہاں کیا کررہی تھی تو اس سے بڑا احمقانہ اور غیر مہذب سوال ہو ہی نہیں سکتا۔فرض کر لیجیے کہ اس خاتون کے ساتھ مرد بھی ہو تا اور وہ اپنے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک بڑی سڑک پر کسی وجہ سے مدد کے طلب گار ہوتے تو کیا ایسے اوباش لوگوں سے بچا جا سکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ قانون کے محافظ چونکہ سستے میں بک جاتے ہیں اس لیے ایسے کربناک، ہولناک اور خف ناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے گلی محلے اور شاہراہیں ایسے اوباش لوگوں سے محفوظ کیوں نہیں ہیں؟قانون بلا تفریق حرکت میں کیو ں نہیں آتا؟ غریب کی داد رسی کیوں نہیں ہوتی؟ مظلوم کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ ہماری عدالتیں کیوں بک جاتی ہیں؟ وکلا مال وزر کے لیے جھوٹے مقدمات کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟ ریاست لوگوں کو انصاف ان کے دروازے پر کیوں مہیا کرنے میں ناکام ہے؟ حکومت اپنے سیاسی اتار چڑھاؤ سے کب باہر نکل کر عوام کے مسائل کا بھی سوچے گی؟
یہ واقعہ رونما ہوا تو کچھ لوگ اتنا آگے نکل گئے کہ یہ تک نہ سوچا کہ ان کے اس رویے کی بدولت متاثرہ خاندان کس قدر کوفت، تکلیف اور اذیت سے گزرے گا؟کسی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ یہ خواتین اپنے تحفظ کے بجائے اپنی آزادی کی طلب گار ہیں۔ یعنی اگر کوئی وحشی درندہ کسی کا ریپ کردے تو معاشرہ اسے برائی کی نظرسے نہ دیکھے بلکہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہہ کر آگے بڑھ جائے اور پھر یہ کہ آزاد خیال معاشرے میں ریپ کوئی برائی نہیں ہے۔یہ بات میرے نزدیک یقینا اس سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتاجس کا تذکرہ سطوربالا میں ہورہا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی باتیں پھیلا کر حالات کو نہ صرف خراب کیا جاتا ہے بلکہ پچیدہ سے پچیدہ تربنادیا جاتا ہے۔
اب جہاں تک یہ بات ہے کہ آزاد خیال معاشرے میں زنا بالجبر کوئی برائی نہیں، قطعی غلط ہے اور یہ ایسے افراد کی سوچ ہو سکتی ہے جو کبھی اپنی بند گلی سے باہر نہیں نکلے۔ ایسے افراد کے لیے یہ خبر ہوگی کہ آزاد معاشروں میں عورت ایک personسمجھی جاتی ہے اور ریپ کو سب سے بڑی برائی جانا جاتا ہے بلکہ یہاں تک برا سمجھا جاتا ہے کہ دس بیس سال بعد بھی اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو اور اس کے ثبوت موجود ہوں تو ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑاکیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں بڑی سے بڑی اور قد آور شخصیات بھی بچ نہیں پاتیں۔ لہٰذا ایسی باتیں جو جلتی پر تیل کا کام کریں، نہیں کرنا چاہییں۔ اللہ ہمارے دلوں میں اسلام کی سچی محبت پیدا فرمائے اور معاشرے کو حقیقی اسلامی معاشرہ بنائے جہاں ہر ایک عزت وعفت محفوظ ہو۔آمین
Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 173479 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More