شہادت امام حسینؓ

حضرت محمد صلہ اﷲ علیہ وسلم کی چار لڑکیاں تھی۔ حضرت زینب، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہؓ۔ حسنؓ اور حسینؓ حضرت فاطمہؓ کے فرزند تھے۔ر سولؐ اﷲ کا فرمان ہے۔ حسینؓ مجھ سے ہے اورمیں حسینؓ سے ہوں۔کیوں نہ ہو حسینؓ خاتون جنت رسولؐ اﷲ کی لخت جگر حضرت فاظمہ ؓ کے فرزند ہیں۔ حضرت علیؓ شیر خدا فاتح خیبر،بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے،جنگ بدر میں قریش کے سرداروں کی للکار پر میدان جنگ میں مقابلے کے لیے اُترنے والے، ہجرت کے موقعہ پر رسولؐ اﷲ کے بستر پر سونے والے، تاکہ لوگوں کی اماتیں واپس کو سکیں اورہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی کے صاحزادے ہیں۔ جن کو رسولؐ اﷲ نے جنت میں نوجوانوں کا سردارکہا ہے۔ مسلمانوں کے سر کے تاج ہیں۔ حضرت امام حسینؓ وہ سب کچھ ہیں جیسے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ عوا م کے اندر مقبول اور پسندیدہ ایک خوبصورت نغمہ، جو ہم اکثر عقیدت سے گانے والوں سے سنتے رہتے ہیں سنیں:ـ۔
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دین حق کی بچا لی
وہ محمدؐ کا پیارا نواسہ

جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
رسولؐ اﷲ کو تو جنت کے پھول عام بچوں سے بھی ہمیشہ پیار کرتے تھے۔مگر اس پیار میں اپنے پیاری بیٹی ،خاتون جنت ، عورتوں کی سردار اپنی لخت جگرحضرت فاطمہ ؓکے بیٹوں، حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کا نمبر ایک تھا۔جب رسولؐ اﷲ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور سجدے میں ہوتے توننے منھے حضرت حسنؓاورحضرت حسینؓ رسولؐ اﷲ کے کاندھے پر سوار ہو جاتے۔ رسولؐ اﷲ سجدے سے اُٹھنے میں دیر فرماتے کہ کہیں یہ ننے منھے شہزادے دوسری طرف لڑک نہ جائیں۔جب عیسائیوں کے ساتھ مبائلہ کا وقت آیا تورسولؐ اﷲ کی آ ل اولاد میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی شریک تھے۔

مسلمانوں کے اندر سیاسی اختلاف کی بات کی جائے تورسولؐ اﷲ نے اﷲ کے حکم کے مطابق مدینہ میں مثالی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ اس ریاست کی ایک ایک بات واضع تھی۔ اسی پر مسلمانوں کو چلنے کی تاکید کی گئی تھی۔پھر خلفائے راشدینؓ نے اسی حکم پر عمل کر کے مثال قائم کی۔ مگر اس کے بعد مسلمانوں میں قبائلی سوچ نے پھر سے جنم لیا۔اسلامی جمہوری طور پر قائم ہونے والی اسلامی خلافت کو خاندانی ملوکیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کی تحقیقی روپورٹس ہماری اسلامی تاریخی کتابوں میں موجودہیں۔ اسی خرابی کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں حضرت امام حسینؐ کی شہادت کا عظیم واقعہ رونماء ہوا۔ حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے نامزد کرد ہ جانشین یزید کے عہد میں وہ بدترین نتائج تک پہنچ گئی۔ پہلا وقعہ سید نا حسین ؓ کی شہادت کا ہے۔حضرت حسینؓ کے یزید کے خلاف خروج کو کسی بھی صحابی ؓ اور تابعین ؒ نے ناجائز نہیں کہا۔ صحابہؒ میں جس کسی نے بھی حضرت حسینؓ کو نکلنے سے روکا تھا وہ اس بنا پر تھا کہ تدبیر کے لحاظ سے یہ اقدام نامناسب ہے۔یزید کی حکومت اگر کہے کہ یہ بغاوت ہے۔ تو بھی امر واقعہ یہ ہے کہ حسین ؓ کے ساتھ خروج کے لیے کوئی فوج تو نہیں تھی ۔صرف ۳۲سوار اور ۴۰ پیادے تھے۔ اسے کوئی بھی شخص فوجی چڑھائی نہیں کہہ سکتا؟۔حضرت حسین ؓ کے مقابلے میں چار(۴) ہزارکی باقاعاہدہ فوج عمر بن سعد بن ابی وقاص کے ساتھ بھجی گئی تھی۔ اس فوج کو چند لوگوں سے لڑائی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ ان کا محاصرہ کر کے گرفتار کر سکتے تھے۔حضرت حسین ؓ نے ان سے آخری وقت تک یہ کہا تھا کہ مجھے واپس جانے دو۔ کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو یا پھر مجھے یزید کے پاس لے چلو۔لیکن اس میں کوئی بھی بات نہیں مانی گئی۔ کہا گیاکہ آپ کو گورنر عبید اﷲ بن زیاد کے پاس کوفہ جانا ہو گا۔ جبکہ حضرت حسینؓ عبیداﷲ بن زیاد کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ مسلم بن عقیل کے ساتھ جو کچھ وہ کر چکا تھا حضرت حسین ؓکو معلوم تھا۔ مگرشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے وہی کیا جس کی وجہ سے ساری عمر کے لیے بدنامی اپنے سر لے لی۔حسینؓ کے قافلے سے جنگ کی۔ جب حسینؓ کے قافلے کے سارے لوگ شہید کر دیے گئے ۔حسینؓ میدان جنگ میں تنہا رہ گئے۔ اس وقت بھی ان پر حملہ کیا گیا۔ جب زخمی ہو کر گر پڑے تو اس وقت ان کو ذبح کیا گیا۔ان پر گھوڑے دوڑا ان کو روندہ گیا۔اس کے بعد ان تمام شہدائے کر بلا کے سر کاٹ کر کوفہ لے گئے۔ ابن زیاد نے ان کی برسرے عام نمائش کی، بلکہ جامع مسجد میں منبر پرگھڑے ہو کر اپنی بہادری کا اعلان کیا۔پھر یہ سارے سر یزید کے پاس دمشق بھیجے گئے۔ اس نے بھرے دربار میں ان کی نمائش کی۔

خلافت کس کا حق ہے کے شروع کے سیاسی اختلاف نے آہستہ آہستہ مذہبی اختیار کر لیا۔ دو مستقل فرقے وجود میں آ گئے۔پھر کشت و خون کا آغازہوا۔ امت مسلمہ کی وحدت کو نقصان پہنچا۔ مسلمانوں کے لیے ہر دور کا پیغام ہے ابلیس؍ شیطان انسان کاازلی دشمن اسے لڑا کر ہی چھورٹا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ قرآن شریف میں اﷲ کے احکامات بھی بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اﷲ کا حکم ہے کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقوں میں نہ بٹو ورنہ تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گا۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا میں تمھارے درمیان اﷲ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جاتا ہوں۔ اس پر عمل کرو گے تو فلاح پاؤ گے۔علامہ شیخ محمد اقبالؒ شاعر اسلام جو سب مسلمانوں میں یکساں مقبول ہیں۔اسے طرح بیان کرتے ہیں:۔ فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اﷲ تعالی ہر وقت حاضر و موجود ہے۔ اب بھی کوئی مرد حق لوگوں کو اﷲ کی طرف بلائے تو خلافت اور اتحاد بین المسلیمن پھر سے قائم ہو سکتا ہے۔اس لیے انسانیت کو پھر سے اسلامی خلافت کی طرف گامزن ہونا چاہیے۔ مسلمان اس کا ہراول دستہ ہیں۔ پھر اﷲ پہلے والی شان و شوکت بھی عطا فرمائے گا۔ اﷲ کبھی نہ کبھی اپنی جلک، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکی شکل میں، کبھی یہ قائد اعظمؒ کی شکل میں۔ کبھی یہ امام خمینیؒ کی شکل میں اور کبھی امام سید ابوالا علیٰ مودودیؒ وغیرہ کی شکل میں ظاہر کرتارہتا ہے ۔ وقت کے مجدد سید ابو الا علی مودودیؒ نے انسانیت کو پھر سے حکومت الہیا؍ خلافت؍ نظام مصطفےٰ؍ؒ اسلامی نظام حکومت، نام کچھ بھی کی طرف بلانے کی بنیاد، ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے نام سے رکھی تھی۔ غیر مسلموں میں چند رجال کے علاوہ ہ کوئی بھی اس تحریک کے قریب نہیں آیا۔مسلمانوں نے اسے مشکل اور ناممکن سمجھا ۔ مگر یہ قافلہ سخت جان اب بھی مصروف عمل ہے۔دیکھیں اﷲ کب اپنا کرشمہ دکھاتا ہے۔ جابر اور اﷲ کے باغی مسلم حکمرانوں کے سامنے وہی حضرت امام حضرت حسین ؓ والا جذبہ اختیار کرنا پڑے گا۔ فتح یا شہادت ۔ اﷲ مسلمانوں کی مدد فرمائے آمین۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 953781 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More