درس قرآن 70

سورۃ المنافقون
منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں۔
دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔
یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
قلب و باطن کا بیمار ہونا۔
جھوٹ بولنا۔
نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔
دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔
اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔
کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔
اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔
اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔
اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔
اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔
حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔
قارئین آئیے :ہم سورۃ منافقون کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ سب اللہ کی توفیق ہی سے ممکن ہے کہ وہ ہم سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے اور ہمیں اخلاص عطافرمائے ۔
سورۂ منافقون مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ المنافقین ۴/۲۷۰)۔ اس سورت میں 2 رکوع،11آیتیں ہیں ۔
وجہ تسمیہ ؛
اس سورت کی ابتداء میں منافقوں کی صفات بیان کی گئیں اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے متعلق ان کا مَوقف ذکر کیا گیا،اس مناسبت سے اس سورت کو’’سورۂ منافقون ‘‘ کہتے ہیں ۔
اس سورۃ میں انسانوں سے کس طرح کا خطاب کیا گیا ۔آئیے اختصار کے ساتھ اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
(1) …اس سورت کی ابتداء میں بتایاگیا کہ منافق اپنے دلی عقیدے میں ضرور جھوٹے ہیں اور اپنی جان بچانے کیلئے انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے اور زبان سے ایمان لانے اور دل سے کفر کرنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جس کی وجہ سے وہ ایمان کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔
(2) …مسلمانوں کو بتایاگیا کہ منافق لوگ تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو۔
(3) … یہ بتایا گیا کہ منافقوں کا یہ گمان باطل ہے کہ وہ مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمانوں اور ان کے آ قا و مولیٰ محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مدینہ منورہ سے نکال دیں گے۔
(4) …اس سورت کے آخر میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور ا س کی عبادت کرنے میں مصروف رہیں ،اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے مقابلے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کریں اور اس میں دیر نہ کریں کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ۔
یارب!!تو ہم سے راضی ہوجائے ۔ہمیں حکمت سے بہرہ مند فرما۔امین

 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545892 views i am scholar.serve the humainbeing... View More