دادا جان کا ڈنڈا-خاص برائے یومِ تکبیر

’’بھائی! آخر تمہیں اس کا ڈر کیوں ہے ؟‘‘ ثمر نے فیصل سے پو چھا
’’ مجھے خوف ہے کہ یہ مجھ پر برس پڑے گا ‘‘ فیصل نے جواب میں کہا
’’ بھائی آج تک کسی کو دادا جان نے اس سے مارا ہے ؟ نہیں!! تو پھر تمہیں کیوں شرمندگی ہے ؟‘‘ ثمر نے اسے ڈانٹا
’’ہاں ! مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ ٹھیک ہے تم میرا ساتھ نہ دو ۔ میں خود ہی کچھ نہ کچھ کر لوں گا .....‘‘ فیصل نے پیر پٹختے ہوئے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا ۔
فیصل اور ثمر کے دادا ایک طاقتور انسان تھے ۔ اور شاید انکی طاقت ان کے ڈنڈے میں تھی ۔ مضبوط صحت ، نمایاں ڈیل ڈول اور اچھے خلاق تو اور بہت سے لوگوں کے تھے مگر لوگ ان کو بے وقوف بھی بنالیتے، کسی کو تنگ کرتے اور کسی سے جھگڑا! لیکن دادا جان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی کبھی کسی کو ہمت نہ ہو ئی ۔ اور یہ یقیناً ان کے اسی ڈنڈے کی برکت تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ انہیں آج تک ڈنڈے کو استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئی تھی ۔ بس اس کا رعب ہی کافی تھا! جہاں وہ ڈنڈا لہرا تے باہر نکلتے کتے دم سادھ لیتے، شر پسند لڑکوں کی ٹولی دور بھاگ جاتی۔ نہ دودھ والے کو کبھی ان کے دودھ میں پانی ملانے کی ہمت ہوئی اور نہ سبزی پھل والے کو خراب یا سڑا ہوا مال دینے کی!اور تو اور خالہ حشمت جو ہر ایک سے لڑنے میں ماہر تھیں ۔دادا جا ن کو دیکھ کر ان کی سٹی گم ہو جاتی ۔

یہ سب لوگ ان کا کچھ بگاڑ تو نہ سکتے تھے مگر پیچھے پیچھے ان کا مذاق اڑاتے اور فیصل کی بیوقوفی دیکھیں کہ وہ ان باتوں سے شرمندہ ہوتا ۔ بجائے اسکے کہ وہ اس طاقت پر فخر کرتا شر پسند لوگوں کی باتیں سن سن کر شرمندہ ہو تا اور چاہتا کہ داداجان ڈنڈے کا ساتھ چھوڑ دیں ۔ اس وقت وہ اپنی بہن ثمر سے یہ ہی مشورہ کررہا تھا کہ ہم ڈنڈے کو کہیں چھپا دیتے ہیں مگر اس کے منع کر نے پر غصہ ہوگیا۔ آخر اس کو ایک دن مو قع مل ہی گیا۔

اس دن دادا جان سو کر اٹھے تو عصر کا وقت تھا اور نماز کے لیے جانے سے پہلے انہوں نے ڈنڈے کو ڈھونڈا مگر نہ ملا چونکہ جماعت کھڑی ہی ہونے والی تھی لہٰذا وہ خلاف معمول اس کے بغیر ہی مسجد روانہ ہوگئے۔ نماز کے بعد وہ مسجد میں رک کر ہی قرآن اور تسبیح وغیرہ پڑ ھتے رہے یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ وہ فارغ ہوکر واپس گھر کی طرف آرہے تھے ۔ دوسری طرف آوارہ کتوں کا غول گلی سے نکل رہا تھا۔ انہوں نے دادا جان کو ڈنڈے کے بغیر دیکھا تو ان پر پل پڑے حتٰی کہ وہ زمین پر گر پڑے۔ اس وقت گلی میں بالکل سناٹا تھا۔انہوں نے کتوں کو بھگانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ عین اسی وقت ایک دوسرا گروہ بھونکتا ہوا آیا چنانچہ وہ ان کو چھوڑ کر اس کے پیچھے لپکے۔ اس دوران قریبی گھروں سے محلے کے کچھ لوگ آ گئے اور دادا جان کو اسپتال لے کر دوڑے۔

اس دن دوپہر میں فیصل اور ثمر اپنی خالہ کے گھر ان کے ساتھ حیدرآباد گئے تھے۔ جیسے ہی وہ دو نوں وہاں پہنچے یہ اطلاع ملی تو وہ لوگ بہت بے چین ہوگئے۔ فیصل تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ خالہ جانی نے ان کو بہت سمجھایا مگر اسے اطمینان نہ ہو رہا تھا۔ ثمر سے اس نے اعتراف کیا کہ آنے سے پہلے اس نے دادا جان کا ڈنڈا دوچھتی میں چھپا دیا تھا۔ ۔ ثمر نے اس کو بہت برا بھلا کہا۔ پھر دو نوں بہن بھائی ان کی صحت یابی کی دعا کرنے لگے۔

تیسرے دن وہ جیسے ہی گھر واپس پہنچے تو فیصل دوڑتا ہوا اسٹور کے اوپر بنی دو چھتی پر چڑ ھ گیا ۔ اس نے ان کا ڈنڈا اتارا اور ا سے پیار سے صاف کرتا ہوا دادا جان کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے رو رو کر ان سے معا فی مانگی۔جواباً داداجان مسکرائے اور بولے ’’ مجھے انجیکشن لگوا کر ہی سہی تمہیں سبق حا صل ہوگیا تو کوئی بات نہیں !‘‘ اور فیصل شر مندہ ہوگیا ۔ داداجان پوچھ بیٹھے
’’....سبق کیا ملا تمہیں ؟؟ ‘‘ ’’ ......یہ کہ......یہ کہ ........‘‘ فیصل اٹکنے لگا
’’ ....کہ طاقت صرف شو مارنے یا لوگوں کو نیچا رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اس سے برائی کو بھی روکنا ہے .....‘‘ ثمر نے اپنی دانست میں بہت بڑی بات کہی۔اسی لمحے امی جان کمرے میں دا خل ہوئیں اور کہنے لگیں ’’.......یہ دیکھیں ! کرم داد نے کتنا خراب سامان دیا ہے ؟ سیب سڑا ہوا ، کیلے گلے ہوئے......اور سبزیوں کا بھی یہ حال ہے ........‘‘ انہوں نے دادا جان سے شکایت کی ۔
’’ ....ہاں وہ تو سمجھا ہوگا کہ اب میں اس کو کہاں چیک کرسکوں گا؟ بے ایمان کہیں کا ..... وہ تو میرے گھر واپس نہ آنے کا سوچ رہا ہوگا....‘‘
دادا جان نے غصے سے کہا۔
’’ ......ہاں اور کیا ہم آپ کے ساتھ ہسپتال میں تھے ۔نہ جانے کون گملے اٹھا کر لے گیا .........‘‘
اب فیصل کو احساس ہوا ڈنڈے کی طاقت سے وہ لوگ کتنے امن وسکون سے رہ رہے تھے !!!!!!!۱
پیارے بچوں!!
پاکستان کے پاس بھی ایک ڈنڈا ہے! جی ہاں ! اس کا نام ایٹمی طاقت ہے ۔ اور جو پاکستان کے لیے ڈا کٹر عبدالقدیر خان نے 28 مئی 1998 کو حا صل کیا تھا ۔ اس دن کو یومِ تکبیر کا نام دیا گیا۔اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشی ہوئی جبکہ پاکستان کے دشمنوں کے ارمانوں پر اوس سی پڑ گئی ۔وہ اسے ختم کرنے، کم کرنے یا پھر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ اس طرح پاکستان کو کمزور کر کے اسے تر نوالہ سمجھ کر نگل لیں ۔ کیا ہمیں ان کو برے ارا دوں میں کامیاب کرنا ہے ؟ نہیں!!! ہمیں تو اس طاقت سے اپنے دشمنوں کو قابو میں کرنا ہے ۔

کیا خیال ہے ؟؟ آئیے اس دفعہ یومِ تکبیر پورے اہتمام سے مناکر یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں اس طاقت کو نہ صرف قائم رکھنا ہے بلکہ اس سے بڑے مثبت اور مفید کام لینے ہیں !!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 75116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.