حضرت سلطان الہندؒ کا فیض ۔

حضرت سلطان الہندؒ کا فیض ۔
ڈاکٹر رشیدالوحیدی قاسمی،
ریٹائرڈ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ
حضرت خواجہ چشتی اجمیری ؒ کی شان میں نیوز ۱۸ٹی وی چینل کے اینکر ، امیش دیوگن ،نے جو گستاخی کی ہے اس کے بارے میں مولانا سیدارشدمدنی صدرجمعیۃعلماء ہند کاایک مضمون دیکھنے کو ملا ، صاحب مضمون کے خاندان کی علمی اور روحانی نسبت سے جو واقف ہے وہ اس حادثے پر مولانا کے سوزباطن اور رنج والم کو محسوس کرسکتاہے اور ایسی صورت میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اپنے تاثرات کے اظہارمیں اس احتیاط وشائستگی پر ضرورداددیگا جو مضمون میں مولانا نے اختیارکیا ہے ۔
مولانا مدنی کے 27جون والے انقلاب کے مضمون کے موضوع سے تو ہر ہندوستانی بلکہ ہرباشعورانسان کا دل ودماغ متاثرہوگا مگر میرے ذہن میں اس تاثرکے ساتھ ایک حیرت بھی ہے ، میں جانتاہوں کہ مولانا کا میدان وہ ہے ہی نہیں کہ انہیں اردوکا صاحب طرزادیب یا نقادکہاجائے یابہترین اہل قلم کی صف میں ان کو شمارکریں ، اس کے باوجودان کے مذکورہ بالامضمون میں طرزتحریر ، سادے اندازاورسادے بیان میں دل کو متاثرکرنے کی ادا، اسلوب نگارش ، جامع ،مانع اور مدلل دعاوی ، مافی الضمیر کا سلیقے سے اظہار، اندازہ یہ ہواکہ جب انسان کسی کام کوا خلاص کے ساتھ کرتاہے تووہ اس کو خارجی اور بیرونی خوبیوں سے مزین کرنے سے بے نیازرہتاہے ، اس کا خلوص ہی اس کی تحریر میں خود حسن پیداکردیتاہے ۔
ایسے موقع پر جب جذبات مجروح ہوں انسان کو خودپر قابوہونہ زبان وقلم پر نہایت متانت کے ساتھ مہذب ومدلل تحریر کے حرف حرف سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ لکھنے والاہر قسم کے حشووزوائد سے پاک اپنے مافی الضمیر کی بات رکھنا چاہتاہے مولانا کے مضمون میں یہ حقیقت پوری طرح ظاہر ہے ۔ حضرت اجمیری کی شان میں لٹیرا کہنے کی گستاخی پر اپنے مضمون میں مولانانے دیوگن کی جہالت اور ناواقفیت کو تاریخ کی روشنی میں آئینہ دکھاتے ہوئے جواب دیا ہے اور بتایا ہے اگر تجھ کو ہندوستان کے لوٹنے والے اصل لٹیروں کو جانناہے توہندوستان میں برٹش حکومت کی تاریخ خصوصاً، کمپنی کادورحکومت پڑھ لے ۔مولانا نے تواپنے والد(حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدمدنی نوراﷲ مرقدہ ) کے حوالے سے لوٹی ہوئی رقم ، لوٹنے والوں کانام ، منتقلہ ، غیر منتقلہ سامان کی تفصیل ومقدارسب کا ذکر کردیا ہے ان باہر کے لٹیروں کی تواسکیم اورپالیسی ہی یہ تھی کہ ایک طرف اپنی حکومت کے ، استحکام کے لئے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑاتارہا ، دوسری طرف ہندوستان کو لوٹ گھسوٹ کر بدحال اوراپنے ملک کو سرمایہ داربناتارہا ۔
، ’’مولانا نے اپنے مضمون میں ایسے لوگوں کا ذکرکیا ہے جو انگریزون کی تہذیب ان کے تمدن (جس میں ان کے لوٹنے کا بھی ذکر ہے )کو آج 70سال بعد بھی اپنے لئے باعث افتخارسمجھتے ہیں ۔
بے شک برٹش حکومت میں ایک جماعت ’ماصفاوماکدر‘سے بے پرواہ انگریزی تہذیب وتمدن انگریزی وضع قطع کوزندگی کا بلندمعیارسمجھتاتھا ، ایک شاعرنے صحیح کہاہے ۔
جو تھا ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا۔کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا مزاج

حضرت خواجہ چشتی رحمۃ اﷲ کی عظمت اپنے وقت کے عظیم المرتبہ اولیا ،علماء ،صلحاکے دلوں میں اس قدرتھی کہ دربارچشتی میں نیاز مندانہ ، عقیدت مندانہ حاضری اورفاتحہ خوانی کواپنے لئے وہ سعادت سمجھتے تھے ۔ مولانا ارشدنے دوجلیل القدربزرگ حضرت شیخ الاسلام ؒاور مولانا قاسم صاحب ؒ کے نام بھی ذکرکردیئے ہیں ۔ جب ایسے ایسے عقیدت مندہوں توصاحب مزارکے مرتبے اورمقبولیت کے کیا کہنے !
ایک گستاخ کیلئے جذبات میں آکر سخت بات نکل جانا قابل ملامت بھی نہیں ہے مگرایک عالم ، شیخ الحدیث نے حسب توقع اپنے معیارکے مطابق عمل کے ردعمل پر تحمل اور ضبط وقارکا رویہ اپناتے ہوئے ’’من عادی لی ولیا فقدآذنتہ بالحرب‘‘(حدیث قدسی) کے مضمون سے ڈراتے ہوئے اس گستاخ کو نصیحت کرڈالی ‘‘خواجہ صاحب کے مزارپرجاکر معافی مانگے ورنہ اس گستاخی کی سزاکے لئے تیاررہے ۔



حضرت سلطان الہند ؒ کے دربارکاایک مخصوص معاملہ قابل ذکرتھا ، مولانا اپنے مضمون میں اسے بھی ذکر کرنا نہیں بھولے یعنی بلا اختلاف مذہب اﷲ کے بندوں سے ہمدردی ومحبت حضرت چشتی ؒ کاخاص معمول تھا جو آج بھی جاری ہے ، عموماًہرروز خصوصا عرس کے موقعے پر ہندو،مسلم اور دیگر مذاہب والے جوق درجوق مزارپرآپ کی محبت میں کھینچے چلے آتے ہیں حیرت ہے اس کے باوجودایک گستاخ نے ایسے درویش ، ولی کامل ، محسن انسانیت کے حضورایسی گندی بات منہ سے نکالی کتنے ہی مسلمان ہندوعقیدت مندوں کا دل دکھا یا ترش مزاج ، غیر مہذب اورسادے عربوں کو اسلام کے راستے انسانیت کا سبق اور ایمان کی نعمت سے سرفرازکرنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ حضورﷺ سے قریب رہیں آپ ﷺ کے قول وفعل سے نصیحت حاصل کرتے رہیں ، آپ ﷺ کے اخلاق ، آپ ﷺ کی نرمی نے ان کو یہ موقع فراہم کردیا اور پھر نہ صرف عرب ہی نہیں، عرب سے باہر اقصائے عالم میں اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ اپنے محبوب اپنے آقاﷺ کے اسی اسوہ پاک، اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اﷲ کے اس ولی ، درویش بلااختلاف ، مذہب وملت لاکھوں ہندوستانیوں کے قلوب کو ہدایت کی روشنی سے منورکردیا۔

خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ
وطن سنجر، وفات 627ھ، مزار: اجمیرشریف ، انیس الارواح آپ کی مشہورتصنیف ہے ، شمس الدین التمش کے زمانہ میں ہندوستان تشریف لائے ہندوستانیوں کی اصلاح وہدایت آپ کا بہت بڑا کارنامہ تھا ، قصبہ ہارون میں حضرت عثمان ہارونی سے بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت حاصل کرکے قصبہ جیل تشریف لے گئے حضرت شیخ ہارون عبدالقادر ؒ جیلانی کی خدمت میں رہے اور مدینہ شریف آگئے وہاں سے ہندوستان تشریف لائے اور یہیں رہ گئے آپ کے خلیفہ خواجہ قطب الدین کا مزارمہرولی دہلی میں ہے ۔

 

Abdullah Aqasmi
About the Author: Abdullah Aqasmi Read More Articles by Abdullah Aqasmi: 3 Articles with 1758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.