دنیا کی منافقت

 کراچی میں سڑک پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک اپنے بچپن کی ایک دوست شاہد سے بیس سال بعد ملاقات ہوئی پہلے تو ہم نے ایک دوسرے کو نہیں پہچانا مگر جب بات چیت ہوئی تو پھر ہم نے ایک دوسرے کو پہچان کر گلے ملے اور سکول کے زمانے کی باتوں میں لگ گئے تو میں نے شاہد سے اس کی والد کے بارے میں پوچھا کیونکہ اس کا والد شاہد کے ساتھ انتہائی پیار کرتا تھا شاہد اس کا چھوٹا بیٹا تھا وہ روز خود اس کیلئے بریک میں ناشتہ لے آتا اور پھر چھٹی تک سکول کے دروازے پر اس کا انتظار کرتا تھا جب چھٹی ہوجاتی تو شاہد کو کھندے پر اٹھا کر گھر لے جاتا تھا اور وہ اکثر یہ کہتا تھا کہ میں شاہد کو ڈاکٹر بناؤں گا مگر یہ بولتے ہوئے ان کی آنکھوں سے غربت اور مجبوری کے آنسوں بھی ٹھپکتے تھے کیونکہ وہ ایک غریب کسان تھا اور ان کا گھر تک اپنا نہ تھا مگر پھر بھی اپنے بیٹے شاہد کیلئے بڑے خواب دیکھتے تھے خیر اب آتے ہے اپنی موضوع کی طرف تو شاہد سے میں نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کررہے ہیں اس نے انتہائی فخر سے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ میں آج کل کیا کررہا ہوں میں نے جواب دیا کہ جی نہیں مگر دل میں سوچا کہ شاید کراچی میں کوئی دفتر یا کمپنی میں نوکر ہوگا کہ شاہد بولا کہ میں جناح ہسپتال میں قلب کا سرجن ہو وہ بات کو مزید آگے لے جارہے تھے کہ میرے منہ سے بے اختیار نکلا اور آپکا ابو کہا اور کیسے ہے یہ پوچھ کر شاہد کا چہرا اچانک زرد پڑگیا شاید وہ خود کو والد کا مقروض یا قصور وار ٹھرا رہا تھا اسلئے مگر خیر میں بھی حیران ہو گیا تھوڑی دیر چھپ رہنے کے بعد اس نے بولا کہ ابو سے میں الگ ہوگیا ہو وہ گاؤں میں رہتے ہیں جبکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ادھر کراچی میں رہتا ہوں البتہ کبھی کبھار فون پہ رابطہ ہوتا رہتا ہے وہ ٹھیک ہے مگر اب بوڑھا ہوگیا ہے نظر بھی اس کا چلا گیا ہے وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے کہ میں نے پوچھا شاہد آپکے ہاتھ میں کیا ہے وہ بے بسی کے ساتھ بولنے لگا کہ آپ کو معلوم نہیں آج فادر ڈے ہے اس لئے میں نے ابو کیلئے یہ تحفہ لیا ہے اور ان کو آج بھیجتا ہوں میں نے جب غور سے دیکھا تو اس پر لکھا بھی تھا (ہیپی فادر ڈے) میں نے شاہد کو بولا کہ باقی پورا سال آپ نے والد صاحب کو کوئی گفٹ بھیجا ہے یا اس کا کوئی آرزو پورا کیا ہے اس نے شرم سے سر نیچے کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تو میرے زہن میں بچپن میں شاہد کے ساتھ اس کے والد کا پیار یاد آیا اور ہم دونوں کے آنکھوں میں آنسوں آگئے اسی وقت شاہد نے تحفے کو دور پھینکا اور بولا کہ ہاں آج میری آنکھیں کھل گئے کہ والد کا کوئی دن نہیں ہوتا بلکہ پوری زندگی والد کی ہے اور بولا کہ یا تو میں والدین کو اپنے پاس بلاونگا اور یا میں ان کے پاس جاؤنگا جو والدین کی مرضی ہوگی وہی میری مرضی ہوگی اور کہنے لگا کہ ہم دنیا والے بڑے منافق ہے کہ اسی دوران بس آگیا اور میں بس میں سوار ہو کر شاہد سے گلے ملا کر چلا گیا۔۔۔۔۔
 

Abdul Sami Khan
About the Author: Abdul Sami Khan Read More Articles by Abdul Sami Khan: 8 Articles with 5509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.