دفتر محتسب پنجاب ۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

تحریر : احمد علی عتیق
سرکاری محکموں سے عوام کی شکایات کے ازالہ کے حوالے سے کئی نظام اس وقت صوبہ پنجاب اور ملک میں کام کر رہے ہیں ۔ اس ضمن میں محتسب کا ادارہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سول پر وسیجر کے تحت کام کر نیوالا نیم عدالتی نظام ہے جس میں شکایات عام دفاتر کی طرح صرف رپورٹ حاصل کرنے کیلئے متعلقہ دفاتر کو ارسال نہیں کر دی جاتیں بلکہ پیروی کاباقاعد نظام پایا جاتا ہے کیونکہ محتسب کا ادارہ ایک نیم عدالتی سسٹم (Quasi Judicial)ہے ۔ اس میں شکایت کی تقریبا ایک مقدمہ کی طر ح سماعت ہوتی ہے اور باقاعدہ ایک فیصلہ کیا جاتا ہے۔

محتسب پنجاب کے ادارے کو قائم ہو ئے تقریبا دوعشروں سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور تقریباً سات ججزو اعلیٰ افسران اس ادارے کی سربراہی کر چکے ہیں سابق محتسب پنجاب نجم سعید کی وفات کے بعدسابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر(ر)اعظم سلیمان نے آٹھویں محتسب کے طور پر عہدہ سنبھالا ہے ۔ میرے نزدیک جو بھی شخصیات محتسب پنجاب کے عہدہ پر فائز ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہرفرد نے اپنی بہترین صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عوامی شکایات کے ازالے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے تھے۔ جن حالات میں میجر(ر) سلمان اعظم نے محتسب سنبھالا ہے اس ضمن میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محتسب پنجاب کے ایکٹ میں بدانتظامی کی جواقسام بیان کی گئی ہیں ان میں سے اکثر دفتر محتسب پنجاب کے انتظامی امور میں پائی جاتی ہیں مثلا اقربا پروری ، امتیازی سلوک ، مالی امور کے حوالے سے بے ضابطگیاں اور عملہ سے ناانصافی پر مبنی رویہ بڑی شدت کے ساتھ جار ی رہا جس کے نتیجہ میں عملہ میں شدید بے چینی پیدا ہوئی جس کے باعث یہاں یونین نے جنم لیا اور بات سڑکوں پر احتجاج اور بینرزتک جا پہنچی ۔ دفتر محتسب پنجاب کے بہت سے اہلکاروں نے انتظامیہ کے خلاف مقدمات دائر کیئے ہوئے ہیں جو انتظامی حوالے سے خوش آئند صورتحال نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دیکھنے میں آ یا ہے کہ اس دفتر کے اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی گئی وہ دفتر محتسب پنجاب کے سروس رولز کانہ ہونا ہے ۔ اس سے بھی ملازمتی امور کے حوالے سے بڑے مسائل نے جنم لیا ہے ۔ 20سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سروس رولز مرتب نہ ہوسکے جسکے باعثماتحت ملازمین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ ادارہ کی انتظامیہ نے پسند نا پسند کو معیار بنا کر اختیار ات کا کلہاڑا بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ کسی داد اور فریاد کے بغیر بہت سے افسران اور ملازموں کوبے رحمانہ انداز میں دس سال ، پندرہ سال اوربیس سال مدت ملازمت کے باوجود ملازمت سے نکال باہر کیا۔

اب نئے صوبائی محتسب میجر(ر) اعظم سلیمان کے حلف اٹھانے کے بعد سے ایک نیا چار سالہ شروع ہو رہا ہے نئے محتسب پنجاب سے تمام فریقین کوبڑی توقعات ہیں اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ انھوں نے حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے جو گفتگو کی وہ اُن کے اعلیٰ عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسائل زدہ عوام کی شکایات کا ازالہ جلد از جلد کیا جائے گا اور محتسب کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔

ماضی قریب میں شکایت کے ازالہ کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کی بجائے اس محکمہ کو کار پوریٹ اداروں کا ذہن رکھنے والے انتظامی افسران نے کا رپوریٹ ذہنیت کے ساتھ چلایا ۔ حالانکہ یہ ادارہ عوامی داد رسی کا ادارہ ہے ۔ اگر آپ محتسب آفس کے مرکزی دفتر جائیں تو وہ ایک سرکاری ادارے کی بجائے کسی بڑے بنک کا ہیڈ آفس لگتا ہے ۔یہی حال دفتر محتسب پنجاب کا ہے کروڑوں روپے کی لاگت سے پر تعیش انداز میں تزئین و آرائش کی گئی ۔ برآمدوں اور دیواروں پر مہنگی ترین ٹائیلیں لگائی گئیں مگر یہاں پر شکایت کنندگان کا کوئی کام فی الحال نہیں ہے ۔ کیونکہ ضلعی دفاتر قائم کرنے کے بعد یہاں پر شکایات کی سماعت کا کام ختم کر دیا گیا۔ بہت سے ایسے تاریخی فیصلے اس ادارے میں ہوئے جنکی اجتماعی داد رسی کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ان میں سے ایک فیصلہ پرمیں ضرور بات کر ونگا جو سول سروس رولز کے ذیلی قائدہ 17-Aکے حوالے سے ہے جس کے تحت کوئی سرکاری ملازم (سول سرونٹ )جو دوران ملازمت فوت ہو جاتا ہے تو اس کے بچوں کے کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی بیوہ کو اس کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمت فراہم کرنے کی منظور ی دی گئی ۔ یہ فیصلہ دفتر محتسب کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ۔

بلاشبہ یہ ادارہ اپنے اندر عوام کی اشک شوئی کے حوالے سے بڑی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق چلایا جائے ۔ راقم الحروف دفتر محتسب پنجاب کے امور پر گہر ی نظر رکھنے کی بدولت یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ محتسب پنجاب کے ضلعی دفاتر نے اس کی اہمیت اور اس کے اثر و رسوخ کو اس قدر کم کیا ہے کہ یہ ماضی جیسی افادیت تقریباً کھو بیٹھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے لوگ زیادہ تر اس کے ہیڈ کوارٹرلاہور اور ملتان ، راولپنڈی اور سرگودھا میں قائم ریجنل آفسرز میں آتے تھے مگر حتمی فیصلہ محتسب پنجاب کا ہوتا ہے اب ضلع کی سطح پر ایک آدھ کمرے میں ضلعی محتسب کا دفتر کام کر رہا ہے جسکو مقامی افسران کی اکثریت خاطر میں نہیں لاتی علاوہ ازیں گزشتہ سالوں میں جو فیصلے کئے گئے ان میں اس قدر سقم تھے کہ ان کے خلاف لا تعداد اپیلیں گورنر پنجاب کو ارسال کی گئیں ۔ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کا فیصلہ کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ اس دفتر کوکسی حد تک مالی خود مختاری حاصل ہے مگر اس کے باوجود بعض معاملات میں حکومت پنجاب (وزیر اعلیٰ پنجاب بشمول صوبائی کا بینہ )سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے اس پس منظر میں محتسب پنجاب کے تمام ضلعی دفاتر حکومتی منظوری کے بغیر چل رہے ہیں یا ان کی باضابطہ قانونی حیثیت نہیں ہے اور ان پر ہونے والے اخراجات کو بھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے مرکزی دفتر میں گنجائش ہونے کے باوجود ضلع لاہور کا دفتر لاکھوں روپے کرایہ والی عمارت میں کام کر رہا ہے ۔ یہ تجویز عوامی مفاد میں ہوگی کہ سیکر یٹریٹ محتسب پنجاب کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے اور یہاں پر شکایات کی سماعت کا عمل دوبار ہ شروع کر کے قومی خزانے پر آنے والے بلا جواز بوجھ کو کم کیا جائے ۔

اس کے علاوہ ریٹائرڈسرکاری ملازمین کے حوالے سے ایک معاملہ جو خصوصی توجہ کا مستحق ہے وہ پنشن کے حوالے سے شکایات پر کارروائی کا مسئلہ ہے دیگر محکموں کے علاوہ شکایات کی زیادہ تر تعداد کا تعلق پنشن کیسوں سے تھا۔ مگر ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پنشن کے کیسوں پر محتسب پنجاب کی طرف سے سماعت کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔اگرچہ چیف سیکریٹری پنجاب کی طرف سے پنشن کی ادائیگی کی ایک موثر اور جامع پالیسی مرتب کی گئی اور جس میں پنشن کی ادائیگی کا باقاعدہ ٹائم فریم دیا گیا جس سے صورتحال میں بڑی بہتری آئی ہے مگر پیچیدہ کیسوں میں کیس کی با قاعدہ سماعت کے لئے محتسب پنجاب کو پنشن کیسوں کی سماعت کا اختیار ملنا ضروری ہے جس نے یہ ادارہ ریٹائرڈ ملازمین کی داد رسی کے حوالے سے مزید فعال کردار اد ا کر سکتا ہے۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 34154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.