مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - تیرھویں قسط

میں نے واپس آکر جب یہ خوشخبری دوستوں کو سنائی تو انہوں بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، اب تو دعوت پکی ہے،حیدری کے ساتھ ہم بھی مرغِ مسلم کھائیں گے ، سب خوش تھے کہ اللہ پاک نے اتنی آسانی سے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ ایک ہی دن میں سب کام ٹھیک ہو گئے، ورنہ بقول مولانا صاحب کے اب تو مال ریلیز ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ جنگلات والوں کا ضبط کیا ہوا مال نیلام ہوتا ہے ریلیز نہیں!! اور جب میں نے اُن کو فون کر کے بتایا کہ شپمنٹ کی تیاری کریں ،تو اُنہیں میری بات کا یقین ہی نہیں آیا، انہوں نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے کہا ، کیا واقعی ، میں نے کہا ابھی آپ کے پاس گودام کی سیل کھولنے والا آ جائے تو مجھے فون کر کے ضرور بتا دینا ورنہ مجھے بھی یقین کیسے آئے گا، تھوڑی دیر بعد انہوں نے فوں پر مبارکباد دے کر گودام کھلنے کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایم ۔وی۔رستم (بحری جہاز کا نام) آجکل میں چٹاگانگ پورٹ پر لگنے والا ہے میں آج ہی اس میں اسپیس کی بکنگ دے دیتا ہوں۔

دوسرے دن جب میں اُن کے آفس واقع قائداعظم روڈ(بنگلہ دیش بننے کے بعد اس کا نام شیخ مجیب روڈ رکھ دیا گیا) پہنچا تو وہاں ایک فوجی کو اسلحہ کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر مجھے حیرانی سی ہوئی، اُس کے ساتھ ایک اور صاحب بڑے ناراض سے موڈ میں بیٹھے مولانا صاحب سے کچھ پیسوں کا مطا لبہ کر رہے تھے جو اُن کی طرف نکلتے تھے مولانا صاحب اُن سے کچھ مہلت چاہ رہے تھے جو وہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے فوجی کو وہ ساتھ ایسے ہی کچھ ڈرانے دھمکانے کے لیے لے کر آئے تھے، میں پہلے تو خاموشی سے سب دیکھتا اور سنتا رہا مگر جب مولانا کو فوجی پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگا تو میں نے مداخلت کرتے ہوئے اُس سے پنجابی میں کہا،اﺅے ٹھہر جا بھئی اینی جلدی کادی اے(ٹھہر جاﺅ بھئی اتنی جلدی کس بات کی ہے)مجھے پنجابی میں بات کرتے دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرا گیا اور مولانا کا ہاتھ چھوڑ علیحدہ ہو گیا، میں نے اُسے ذرا غُصے سے دیکھتے ہوئے کہا کیا آپ لوگ یہاں اس کام کے لیے آئے ہیں، فوجی تھوڑا گبھرا کر بولا ، نہیں جی یہ رﺅف صاحب کے پیسے نہیں دے رہے اُس نے ساتھ والے صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میں نے رﺅف صاحب کی طرف مڑتے ہوئے کہا کیوں جی آپ کارباری معاملے میں فوج کو کیوں گھسیٹ رہے ہیں ؟ وہ صاحب جو اب بھی غصے ہی میں تھے کہنے لگے، آپ کو میں جانتا تو نہیں کہ آپ کون ہیں مگر آپ کو معلوم نہیں کہ یہاں بنگالیوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا نہیں کیا ،میں لاہور کا رہنے والا ہوں اور بیس سال سے یہاں لو لین میں اپنا ورکشاپ چلا رہا ہوں مارچ میں جب شیخ مجیب نے آزادی کا نعرہ لگایا تو ان لوگوں نے ہمارا سب کچھ لوٹ لیا میں نے خود تین دن ایک باتھ روم میں چھپ کر اپنی جان بچائی ، اب تو مجھے یہاں کسی صورت نہیں رہنا اپنا جو کچھ ملتا ہے سمیٹ کر جانے کی تیاری کر رہا ہوں، اسی لیے ان سے بھی ابھی پیسے دینے کا مطالبہ کر رہا ہوں آپ کو اگر ان سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو میرے تین ہزار روپے ان کی طرف نکلتے ہیں آپ دے دیجئے میں چلا جاﺅں گا۔ میں نے مولانا صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں کچھ دنوں کی مہلت چاہی ، میں نے اُن کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے رﺅف صاحب سے کہا، دیکھئے میں بھی لاہور کا رہنے والا ہوں اگر آپ کو مجھ پر یقین ہو تو کل آ کر اپنے پیسے لے جائیں،اور اگر آپ کو فوجی لے کر آنا ہے تو میں بھی یہاں کسی کرنل کو بُلوا لیتا ہوں ؟ انہوں نے شرمندگی سے ہنستے ہوئے کہا، نہیں جی اس کی کیا ضرورت ہے میں کل آ جاﺅں گا اور علیک سلیک کر کے واپس چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد میں جب مولانا صاحب سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا مین کام سیمنٹ کا ہے سب تعمیری کام رکے ہونے کی وجہ سے لوکل سیل بالکل نہیں اور تمام ریل کا نظام فوج کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے چٹاگانگ سے باہر بھی مال نہیں بھیج سکتے، ابھی کومیلا میں دو ویگن مال جانے سے ہمارا ہاتھ کھلا ہو سکتا ہے مگر فوجیوں سے بات کون کرے، میں نے اُن سے فون نمبر لے کر وہیں بیٹھے بیٹھے ریلوے کے اسٹیشن ماسٹر کو فون کیا تو سامنے سے بنگالی انداز کی اردو میں جواب ملا ، جی میں اسٹیشن ماسٹر ضمیر الدین بول رہا ہے، کہیے کیا مانگتا ہے، میں نے اُسی انداز میں کہا ہمیں کومیلا سیمنٹ بھیجنا ہے مال گاڑی کا دو بڑا ویگن مانگتا ہے ، جواب ملا ،جی مل جائے گا ، کب چاہیے ؟ میں نے کہا ابھی میں اپنے سپلائر کو بھیج رہا ہوں اُن کا نام مولانا طیب ہے ، جواب ملا، اوہ اچھا وہ مولانا برادر والے، میں نے کہا ہاں ہاں وہی وہ جب بھی آئیں اُن کو بکنگ دے دیا کریں وہ ہمارے سیمنٹ کے بڑے سپلائر ہیں ، او کے کہہ کر میں نے فون بند کیا اور مولانا صاحب سے کہا جائیے اور کومیلا کے ساتھ ساتھ میرا مال بھی کراچی بھیجنے کی تیاری کیجئے میں کل آپ کو کچھ پیسے لا کر دوں گا جس میں سے آپ رﺅف صاب کو دے کر باقی اپنے اور میرے کام میں لگا لیجئے گا،یہ سن کر مولانا صاحب کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اُٹھا اور وہ اُسی وقت ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیئے اور میں پیسوں کا انتظام کرنے بنک کی طرف روانہ ہوگیا جو قربانی گنج میں تھا۔

بنک سے پیسے نکلوانے کے بعد میں اخلاقاً فاروق صا حب سے ملنے اُن کے آفس ”صافی برادر“ پہنچا جو قریب ہی تھا اُن سے ملے بھی بہت دن ہو چکے تھے ، میں ویسے تو اُن کا ذکر پہلے کر چکا ہوں شاید قارئین کو یاد ہو کہ انہوں نے ہی میرا بنک اکاﺅنٹ کھلوایا تھا یہ چینیوٹ سے تعلق رکھتے تھے اور یہاں صافی برادر کے نام سے رفحان فوڈ پروڈکٹ کے مین ڈیلر تھے بڑے اچھے اخلاق کے سادہ دل آدمی تھے اپنے بارے میں ہنستے ہنستے بتایا تھا کہ بھائی ملتان کی لنگیاں بیچنے آئے تھے کہ رفحان والوں نے ایجنسی دے کر یہاں پکا کر دیا، اصل نام شفیع برادر ہے مگر بنگالی ش کوس بول کر شفیع کو سافی بنا دیتے ہیں لہٰذا ہم بھی سافی کو صافی بنا کر ایک اچھے معنی پہنا لیتے ہیں کہ سافی کے تو کوئی معنی نہیں بنتے۔

آفس میں اُن کو نہ پا کر جب میں واپس ہونے لگا تو ان کے ایک ملازم نے( جو بنگالی تھا مگر اردو والوں کے ساتھ رہ کر اردو اچھی بول لیتا تھا) بڑے ادب سے کہا صاحب آپ بیٹھیے فاروق صاحب ابھی آنے والے ہیں،میں نے بھی سوچا کہ انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملازم سے کچھ اس کے دل کی بات بھی جان لیتے ہیں کہ یہ پاکستان کے اتنا مخالف کیوں ہیں، میرے سوال کے جواب میں اُس ملازم نے نظریں جھکائے جھکائے کہا صاحب آپ یہاں کا حالت تو دیکھ رہے ہیں غریب لوگ گرمی ہو یا سردی بھوکے ننگے بھیک مانگ کر آدھا پیٹ کھا کر رات کو فٹ پاتھ پر ہی سو جاتے ہیں، جب کہ مغربی پاکستان سے جو بھی آتا ہے سوٹ بوٹ پہن کر ہوائی جہاز میں آتا ہے اور گاڑیوں میں گھومتا ہے اس سے بڑھ کر اور آپ کو کیا بتائیں صاب فرق تو صاف ظاہر ہے آگے آ پ خود سمجھدار ہیں !!!اُس کی باتیں سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان کو کیسی کیسی باتوں سے ورغلایا گیا ہے میں نے اُسے بتایا کہ بھائی کراچی جا کر دیکھو وہاں بھی لوگ بھیک مانگ کر بھوکے ننگے فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں ، رہی بات ہوائی جہاز کی تو یہاں کوئی غریب آدمی تھوڑا ہی آئے گا ؟ کوئی کاروباری یا کوئی بڑا آدمی یہاں ہوائی جہاز میں ہی آئے گا ، ٹرین یا بس کا تو کوئی راستہ ہے نہیں ، یہاں ایک طرف سمندر ہے اور تین طرف انڈیا ، اب تم ہی بتاﺅ کہ غریب آدمی یہاں کیسے آئے گا اور یہاں سے تم کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہاں بھی بے روزگاری ہے لوگ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں ، ، مگر میری بات کو اُس نے ان سنی کرتے ہوئے کہا صاب آپ جو بھی کہیں پچھمی (مغربی) پاکستان والے ہم پر حکومت کر رہے ہیں جبکہ ہمارا کوئی بنگالی بڑا آفیسر نہیں بن سکتا ، فوج میں سب وہاں والے یہاں بھی بڑے بڑے عہدوں پر آتے ہیں یہاں کا کوئی وہاں نہیں جاتا ، میں نے اُس سے جب سہروردی اور روح الامین کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا بنگالی نہیں تھے تو اُس نے ہنس کر جواب دیا صاب وہ بھی وہاں کے ہو گئے تھے، بس اس سے آگے میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے دماغ میں اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ یہ اپنوں کو بیگانے اور بیگانوں کو اپنا سمجھنے لگے ہیں، یہ سب دوریوں کے سبب سے ہے کہ دوریاں کبھی کبھی انسان کو اتنا بے بس کر دیتی ہیں کہ ایک پردیس میں رہ کر بیوی بچوں کے لیے کما نے والا شخص جب دس سال بعد گھر واپس آتا ہے تو بیوی بچوں کے طور طریقے دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ، یہ دوریاں ہی تو ہیں جنہوں نے اُس کے اپنوں کو بیگانہ کر دیا، ہاں انہیں دوریوں کی وجہ سے دشمنوں کو موقع مل گیا اُس کے اپنوں کو ورغلانے کا، مگر کیا کرے انسان قدرت کے راز نہیں سمجھ سکتا کہ بظاہر نقصان میں کتنے فائدے پوشیدہ ہیں ، آج سے پچیس سال پہلے پاکستان کی قراداد پیش کرنے والے آج اُسی پاکستان کے ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)
 
image

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش بننے سے فائدہ کس کو ہوا؟ جبکہ غریب عوام آج بھی فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہے ہیں اور بنگلہ دیش بنانے والے کچھ تو اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ قیدی بن کر رہ گئے ہیں- اگر کسی غیر جانبدار بنگلہ دیشی سے بھی پوچھا جائے تو وہ بھی کہے گا “ ہندوستان کو “ کیونکہ بنگلہ دیش بننے سے پاکستان کی طافت آدھی رہ گئی٬ دوسرا اس کو ایک ایسی مارکیٹ ہاتھ لگ گئی جس میں اس کا وہ مال بھی کھپنے لگا جسے بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئی قبول نہیں کرتا٬ بنگالی بھائی جو زر مبادلہ بڑی محنت سے کما کر بھیجتے ہیں وہ سارا کا سارا ان چیزوں کے بدلے ہندوستان چلا جاتا یہاں تک کہ پٹ سن بھی اسمگل ہو کر کولکتہ پہنچ جاتا ہے- انشاﺀ اﷲ وہ دن دور نہیں جب بنگلہ دیش بھی اسے دوسرا پاکستان نظر آنے لگے گا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے کسی بھی چیز کو چاہے کتنا بھی اونچا اچھالا جائے وہ واپس زمین کی طرف ہی آتی ہے یہ قدرت کا قانون ہے کسی بندے کا نہیں لہٰذا ہر چیز کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے جلد یا بدیر جس دن ہم لوگوں نے سمجھ لیا کہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس سے ہم لوگ ہٹ گئے ہم نے عہد کو توڑا جس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے ہر شخص پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے دونوں حصوں میں نہ بنگلہ دیش والے چین میں ہیں نہ پاکستان والے- چین تب ہی ملے گا جب ہم لوگ اپنی اصل کی طرف لوٹیں گے اور پورے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں گے جو مسلمانوں کی اصل ہے٬ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق فرمائے- آمین

( یہ تصویر حالیہ دنوں کی ہے )
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77187 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.