درس قران 51

سورۂ رحمن
اللہ رب العزت نے اتنی نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں کہ نعمتوں کو انسان شمار نہیں کر سکتا۔ انسان سوچتا ہے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے اور وہ چیز تو میرے پاس ہونی چاہیے لیکن اگر انسان چند لمحے کے لیے سوچے کہ مجھے کتنی نعمتیں اللہ سے مانگ کر اور خود محنت کر کے ملی ہیں اور کتنی چیزیں ہیں جس کے لیے انسان نے سوچا ہے کہ مجھے مل جائیں تو ہر انسان اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں بغیر اس کے سوچے بغیر مانگے بغیر محنت کیے ان کی مقدار بہت زیادہ ہے کئی نعمتیں ایسی نظر آئیں گی جن کے مانگنے کا کبھی خیال بھی نہ آیا ہو گا حالانکہ ان کے بغیر انسان زندہ بھی نہیں رہ سکتا لیکن اللہ نے وہ نعمتیں بھی انسان کو عطا فرمائی ہیں۔اب ان تمام نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسان ان کا شکر ادا کرے یعنی انسان اللہ کی بے شمار نعمتوں کادل سے اقرار کرے زبان سے اس کی تعریف کا اظہار کرے لہٰذا صرف وہی انسان اللہ کا شکر گزار بندہ کہلائے گا جو عملی زندگی میں احکام الٰہی کا پورا پابند ہو۔اللہ کی عبادت جس اندازکی اللہ نے سکھائی وہ بھی شکر کا بہترین انداز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ شکر خداوندی کا بہترین نمونہ ہے۔ راتوں کو اٹھ کر اتنی دیر مصروف عبادت رہتے کہ پائوں مبارک سوج جاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے یہ حالت دیکھ کر عرض کیا کہ آپؐ کے لیے تو اللہ نے مغفرت کا وعدہ فرما دیا ہے پھر آپؐ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا:
{افلا اکون عبداشکورا}
’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
آئیے :سورۃ رحمن کے متعلق جانتے ہیں : سورئہ رحمن مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الرحمن، ۴/۲۰۸)
اس سورت میں 3رکوع ،78آیتیں ،351کلمے اور 1636حروف ہیں ۔
(جلالین، سورۃ الرحمن، ص۴۴۳، خازن، تفسیر سورۃ الرحمن، ۴/۲۰۸، ملتقطاً)
اس سورت کا نام ’’سورۂ رحمن ‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ ا س کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اَسماء ِحُسنیٰ میں سے ایک اسم ’’اَلرَّحْمٰنُ‘‘ سے کی گئی ہے۔حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ہر چیز کی ایک زینت ہے اور قرآن کی زینت سورۂ رحمن ہے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۹۰، الحدیث: ۲۴۹۴)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’چند وجہ سے سورۂ رحمن کو قرآن کی دلہن،زینت فرمایا گیا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کاذکر ہے اور ذات و صفات پر اعتقاد ایمان کی زینت ہے۔اس سورت میں جنت کی حوروں ،ان کے حسن و جمال ،ان کے زیورات کا ذکر ہے (اور) یہ چیزیں جنت کی زینت ہیں ۔اس سورت میں آیت ِمبارکہ ’’فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘ 31 جگہ ارشاد ہواا س سے سورت کی زینت زیادہ ہوگئی۔
( مرأۃ المناجیح، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثالث، ۳/۲۸۱-۲۸۲، تحت الحدیث: ۲۰۷۴)
حضرت فاطمہ زہراء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سورۂ حدید،سورۂ واقعہ اور سورۂ رحمن کی تلاوت کرنے والے کو زمین و آسمان کی بادشاہت میں جنتُ الفردوس کا مکین پکارا جاتا ہے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۹۰، الحدیث: ۲۴۹۶)
اس سورت کی آیات اگرچہ چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ان کی تاثیر بہت مضبوط ہے۔مروی ہے کہ حضرت قیس بن عاصم مِنْقری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اسلام قبول کرنے سے پہلے) سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے میرے سامنے اس کی تلاوت کیجئے۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے سامنے سورۂ رحمن پڑھی تو ا س نے عرض کی:اسے دوبارہ پڑھئے،حتّٰی کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس کے کہنے پر) تین مرتبہ سورۂ رحمن کو پڑھا۔ (سورۂ رحمن سن کر) اس نے عرض کی :خدا کی قسم!یہ سورت بہت ہی خوبصورت ہے،اس میں بہت حلاوت ہے،اس کا نیچے والا حصہ سرسبز ہے اور اوپر والا حصہ پھل دار ہے اور یہ کسی انسان کا کلام ہی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔( تفسیر قرطبی، تفسیر سورۃ الرحمن، ۹/۱۱۳، الجزء السابع عشر)
اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآنِ مجید کے اللہ تعالیٰ کی وحی ہونے پر دلائل بیان کئے گئے ہیں ،نیز اس میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم نعمتوں جیسے قرآنِ پاک کو نازل کرنے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی تعلیم دینے،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا و آخرت کی تما م چیزوں کی تعلیم دینے کا ذکر فرمایا۔
اس کے بعد سورج، چاند،زمین پر اُگی ہوئی بیلوں ، درختوں ، آسمانوں ، زمینوں ،باغات میں پھلوں اور کھیتوں میں فصلوں کا ذکر فرمایا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کی پیدائش، میٹھے اور کھاری سمندروں اور ان سے موتیوں کے نکلنے کو بیان فرمایا گیا۔اس جہاں کے فنا ہونے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے باقی رہنے اورتمام مخلوق کے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے کا ذکر فرمایا گیا۔اس سورت کے آخر میں قیامت،جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سختیوں اور ہَولْناکْیوں وغیرہ کا ذکر ہے۔
اب انسان سوچتا ہے کہ واقعی مجھے بھی شکر ادا کرنا چاہیے لیکن آخر شکر ادا کرنے میں رکاوٹ کیا ہوتی ہے صرف آج کے دور میں نہیں ہر دور میں انسان کے لیے شکر گزار بندہ بننے میںیہ بات رکاوٹ بنتی ہے کہ جب کوئی انسان مال و دولت میں دنیا کی چیزوں اور نعمتوں کے لحاظ سے اپنے سے اوپر والے کو دیکھتا ہے تو دل و دماغ میں بس ان چیزوں کی فہرست چلتی رہتی ہے یہ میرے پاس ہونا چاہیے۔ اور فلاں کے پاس اتنا ہے میرے پاس بھی ہونا ضروری ہے۔ فلاں کے پاس ایسی رہائش گاہ ہے میرے پاس بھی ہونی چاہیے۔ فلاں کے پاس اتنی شاندار سواری ہے میرے پاس کیوں نہیں۔ اس طرح انسان دنیا کی ان چیزوں کے اس تانے بانے میں الجھا رہتا ہے شکر کے کلمات زبان پر آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا علاج بتایا کہ دنیا کے بارے میں اپنے سے کم تر کو دیکھو اور دین کے معاملہ میں اپنے سے بلند تر کو دیکھو۔
اللہ پاک ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنائے ۔آمین
دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545902 views i am scholar.serve the humainbeing... View More