اقوال زریں ، زخرف القول نہیں

میرا یہ آرٹیکل مسٹر ایم این خالد کی طرف سے آٹھائے گئے نکات پر تفصیلی جواب کی صورت حاضر ہے۔ دراصل مسٹر ایم این خالد نے کچھ بے تکی باتیں جناب عشرت اقبال وارثی بھائی کے آرٹیکل بنام "میں کب تلک امتحان کی چکی میں پسوں گی" اور جس کا لنک ہے

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=12764

میں کہیں تھیں۔ لہٰذا جواب اس آرٹیکل کی صورت میں دیا جارہا ہے۔

جناب ایم این خالد صاحب ،
حیرت ہے آپ قارئین سے اپنے ہی خلاف شکایت کرنے لگ گئے ۔ جناب ہم بھی تو آپ سے یہی کہتے ہیں کہ "ہم آٓپ کی مانیں یا اللہ عزوجل کی ۔۔۔۔ ؟؟؟ " لیجئے اب بچا کچا بھی آپ نے قارئین کے بہانے "چھوڑ" دیا ویسے یہ کام آپ بخوبی انجام دیتے رہتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔۔۔۔ الحدیث چھوڑی ۔۔۔۔۔ راوی چھوڑے ۔۔۔۔ ان کی روایت چھوڑی ۔۔۔۔۔ کم و بیش 1500 سال سے جن اصحاب نے قرآن کی امانت سینوں میں محفوظ رکھی اور صاحب قرآن کی "حکمت بھری باتوں" کو ہم تک پہنچایا انہیں بھی "چھوڑ" دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ "سلیم کے خطوط" کافی سنبھال کر رکھ لیئے ۔۔۔۔ خیر پھر کبھی اس پر بھی ڈسکس کریں گے ۔۔۔۔

سمجھ نہیں آیا بغیر تربیت آپ کیسے کسی دوسرے کی تربیت کرسکتے ہیں ۔۔۔ اب ہر محاز پر لڑنے اور جمنے کے دن ہوا ہوئے لہذا "بولنے میں تولنے" کو پیش نظر رکھا کیجئے۔

خوشی ہوئی کہ آپ "علم" کی پیاس کو ڈکشنری سے بجھانے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں ۔۔۔ کبھی "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الحدیث" کو سمجھنے کی بھی کوشش کرلیجئے گا ۔۔۔۔ بد عقیدگی سے کافی خلاصی نصیب ہوجائے گی۔ انشاءاللہ عزوجل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے اب آپ کو ڈکشنری کا شوق ہوچلا ہے تو ہم ضرور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے سامنے کچھ "صحیح" حقائق رکھیں گے۔ نوٹ کیجئے ۔۔۔۔۔۔

قول ۔۔۔۔۔ (اردو) ۔۔۔۔۔ بات ، سخن ، کہاوت ، بیان ، مقولہ (فیروزالغات)
قول ۔۔۔۔۔ (عربی) ۔۔۔۔۔ کلام ، بات ، لفظ (المنجد)

زر ۔۔۔۔۔۔ (مذ) ۔۔۔۔۔۔ سونا ، سنہرا (فیروزالغات)
زریں ۔۔۔۔۔۔ (فارسی) ۔۔۔۔۔۔۔ سونے کا بنا ہوا ، بیش قیمت (فیروزالغات)

حکمت ۔۔۔۔۔۔ انصاف ، حلم ، بردباری ، حق کے موافق کلام (المنجد)
زخرف ۔۔۔۔۔۔۔ بناوٹی خوبصورتی ، وہ چاندی جس پر سونے کا پانی چڑھا کر "سونا" بتایا جائے۔ (المنجد)

مذکورہ بالا حقائق آپ کی خود ساختہ بلکہ حواس باختہ "فہم" جو کہ تمام قارئین کے لئے "ناقابل فہم" کا درجہ رکھتے ہیں ، کا قطعی رد ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لئے "دعوت فکر" بھی ہیں۔

قارئین ۔۔۔۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایم این خالد صاحب نے بڑی صفائی سے غلط بیانی کی کوشش کی مگر سب کچھ بے سود ۔۔۔۔ دیکھئے ایم این خالد صاحب نے فارسی کے لفظ "زریں" کو عربی کے لفظ "زخرف" سے تشبیہ دی اور دونوں کو ایک دوسرے کا مماثل ثابت کرنا چاہا ۔۔۔۔۔ مگر حقائق کچھ یہ ہیں کہ لفظ "زریں" لفظ "زر" سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب "حقیقی سونا یعنی ایک ایسی شئے جو بہت قیمتی یعنی بیش قیمت ہو" ہے۔ جب کہ لفظ "زخرف" بناوٹی خوبصورتی یعنی دھوکہ و فریب یا ملمع کاری دوسرے لفظوں میں "زخرف" سے مراد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا باطن باطل ، برائی اور گناہ ہو اور ظاہر مزین ، خوشنما و خوبصورت ہو۔ جیسے چاندی پر سونے کا ملمع کر کے اسے سونا کہا جاتا ہے۔ شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے بھی دراصل برائی کی طرف رغبت دیتے ہیں اس لئے اسے "زخرف" کہا جاتا ہے۔

علمی ذوق رکھنے والے قارئین کے لئے مزید کچھ تفصیلات درج کرتا ہوں کہ قرآن عظیم میں یہ لفظ "زخرف" 04 مختلف جگہ استعمال ہوا ہے ۔ نوٹ کیجئے ۔۔۔۔۔۔

1- وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الْجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوۡرًا وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوۡنَ ۔
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں آدمیوں اور جنوں میں کے شیطان کہ ان میں ایک دوسرے پر خفیہ ڈالتا ہے بناوٹ کی بات دھوکے کو اور تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو انہیں ان کی بناوٹوں پر چھوڑدو۔ (سورۃ الانعام آیت 112)

2-اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرْضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَالۡاَنْعَامُ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمْ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ۔
دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی۔ (سورت یونس آیت 24)

3-اَوْ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنۡ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا۔
یا تمہارے لئے طلائی گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جو ہم پڑھیں تم فرماؤ پاکی ہے میرے رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللّٰہ کا بھیجا ہوا۔ (سورت الاسراء آیت 93))

4- وَ زُخْرُفًا وَ اِنۡ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ عِنۡدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیۡنَ۔
اور یہ جو کچھ ہے جیتی دنیا ہی کا اسباب ہے اور آخرت تمہارے رب کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (سورت الزخرف آیت 35)

لہٰذا ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔ لفظ "زریں" اور لفظ "زخرف" کا کوئی جوڑ نہیں ایک لفظ "حقیقت" اور دوسرا لفظ "سراب" کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور اہم بات اہل زبان کے ہاں الفاظوں کے چناؤ میں "عرف" کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور اگر کوئی غیر زبان ۔۔۔۔ اہل زبان کے عرف سے واقف نہ ہو تو اسے ۔۔۔۔۔۔ ایرانی و ہندی و عربی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے کمبینیشن کو غلط استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی ورنہ ہم صورتحال ویسی ہی دیکھیں گے جیسی ایم این خالد صاحب نے یہاں پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی۔

اس کے بعد ایم این خالد صاحب "اقوال زریں" کو حکمت و دانائی کی باتیں کے طور پر غلط قرار دے رہے ہیں لہٰذا ان کی اس جرات کا بھی پوسٹ مارٹم کئے دیتے ہیں ۔۔۔۔ دوبارہ نوٹ کیجئے ۔۔۔۔۔۔

قول ۔۔۔۔۔ (اردو) ۔۔۔۔۔ بات ، سخن ، کہاوت ، بیان ، مقولہ (فیروزالغات)
قول ۔۔۔۔۔ (عربی) ۔۔۔۔۔ کلام ، بات ، لفظ (المنجد)

زر ۔۔۔۔۔۔ (مذ) ۔۔۔۔۔۔ سونا ، سنہرا (فیروزالغات)
زریں ۔۔۔۔۔۔ (فارسی) ۔۔۔۔۔۔۔ سونے کا بنا ہوا ، بیش قیمت (فیروزالغات)

حکمت ۔۔۔۔۔۔ انصاف ، حلم ، بردباری ، حق کے موافق کلام (المنجد)

جناب ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔ یعنی ایسا قول جو حقیقت پر مبنی ہو وہ چونکہ عام اقوال سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے اسی لئے زیادہ اہم یعنی قیمتی ہوتا ہے۔ اور ہر فرد اپنی حیثیت سے "اعلیٰ" بات کرتا ہے۔ لہذا اس کی حیثیت کے مطابق ہی ہم اس کے لفظوں یا باتوں کو ایک نیا نام دے دیتے ہیں اور یہ عمل صرف اسٹیٹس کو ملحوظ رکھنے کی خاطر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ جیسے جو بات اللہ کریم نے کہی اسے قرآن کہا گیا ۔۔۔۔۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہی تو حدیث کہا گیا اور جب دیگر بزرگان دین نے اچھی باتیں کہیں تو اسے "اقوال زریں" کہا گیا ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ الفاظوں کے معنی میں "اسٹیٹس" کا خیال بھی رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔ لہذا اب اگر رب عزوجل فرمائے ۔۔۔۔۔۔

یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ (ان کے ہاتھوں پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے) ۔۔۔۔۔۔ سورت الفتح آیت 10)

اور اب اگر یہاں حقیقی معنی لئے جائیں یعنی وہی "ہاتھ" تسلیم کیا جائے جیسا کہ ہمارا آپ کا ہوتا ہے تو "کفر" لازم آئے گا کہ اللہ کریم جسم سے پاک ہے۔ لٰہذا ہم یہاں مجازی معنی یعنی "دست قدرت" کا معنی لیں گے۔

اسی طرح "زر" کا معنی سونا اور سنہرا ہے ۔۔۔۔ اور سونا یا سنہرا بھی وہ جو "حقیقی" ہو اور جو فرضی ہو اسے "زخرف" کہا جائے گا۔ تو آپ کیسے صحیح کو غلط میں مکس کرسکتے ہیں۔ پھر ایک اور جگہ آپ نے دھوکہ کچھ یوں دیا کہ اقوال زریں کو اپنی دانست میں جملہ واحدہ بنا دیا یعنی اقوال کو قول میں اور زریں کو زر میں تبدیل کردیا حالانکہ اقوال کا واحد تو قول ہے مگر زریں ایک "صفت" ہے جو موصوف کی خاصیت کو بیان کرتی ہے اور اپنی بناوٹ میں واحد و جمع کی قید سے آزاد ہے لہٰذا جب بھی اس کا استعمال کیا جائے گا اس کی بناوٹ ہمیشہ "زریں" ہی رہے گی نہ کہ "زر" میں تبدیل ہوجائے گی۔ لہٰذا قول زر + قول زر + قول زر کا معنی "دھن دولت کی بات" تو کیا جاسکتا ہے مگر "حقیقی بات یا اچھی بات یا قیمتی یا سنہری بات" نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہمیں "حقیقی بات یا اچھی بات یا قیمتی یا سنہری بات" کا معنی چاہئے تو "قول زریں یا اقوال زریں" ہی کا استعمال کرنا ہوگا۔ لہٰذا ایم این خالد صاحب آپ کا پیش کردہ "ناقص کلیہ" یہاں کامل نہیں ہوسکتا۔ اور جو کلیہ ناقص ہو اس پر "مہر ثبت" ہم کیسے لگاسکتے ہیں۔ اب ہمیں مزید کہنے دیجئے کہ آپ کی اس "ناقص ضرب المثل" کی شدید ضرب آپ پر ہی الٹ آئی ہے ۔۔۔۔۔۔ بچاؤ کی تدبیر کیجئے ۔۔۔۔۔ یعنی حق کو مان لیجئے اور "اقوال زریں" کو اپنے ذاتی معنی نہ پہنائیے ۔۔۔۔۔

ویسے اگر آپ کا "قول زر" ضرب المثل ہے اور آپ اس سے وہی معنی لیتے ہیں جو آپ نے بیان کرنا چاہے تو مذکورہ ذیل ضرب الامثال کے بھی معنی لکھ دیجئے ۔۔۔۔۔

قول دینا

آٹھ آٹھ آنسو رونا

اور ان الفاظوں کے معنی بھی تحریر کردیجئے ۔۔۔۔۔۔

زر نقد

زر نگار

مسٹر ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ اکثر لکھتے ہیں کہ "محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا" ۔۔۔۔۔۔ قارئین ذرا غور سے اس جملے میں "زخرف" کو محسوس کیجئے ۔ کیا ہم آپ نہیں جانتے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن اصحاب (رضوان اللہ علیھم اجمعین) سے کلام فرمایا یہ انھی کا حق ہے کہ وہ فرمائیں "اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے یا ہم سے فرمایا" ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایم این خالد کون ہوتے ہیں اس حق کا استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔ اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی لیکر ایک ایسی بات آپ سے منسوب کرنا جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہمیں ہماری ویب کے ایڈیٹر یا موڈز وغیرہ کو ایسے "بد اقوال" پر بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!!!

اور یہی نہیں بلکہ ایم این خالد صاحب ہمیشہ اپنے مطلب کا قرآنی ترجمہ کرتے ہیں اور اپنے "زخرف القول" سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لاعلم صاحبان کے اذہان کو بھی پراگندہ کرنے کا وبال اپنے سر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لہٰذا زخرف القول کو اپنے متعین کردہ معنوں میں "خصوصی قول زر" ثابت کرتے ہیں جو کہ سراسر قرآن کے فہم سے نآشنائی ، صراط مستقیم سے دوری اور سواداعظم سے بیزاری کا عذاب ہے کہ اب قارئین بھی ان کے فہم پر انگلی اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اب میں تمام قارئین سے بھی التماس کروں گا کہ وہ ایم این خالد صاحب کے طرز فہم کو سمجھیں اور اس فتنہ سے خود کو محفوظ رکھیں کہ جو شخص "زخرف القول یعنی شیطانی وسوسوں" کو صحابہ کرام علیھم الرضوان یا اولیاءامت کی نصحیتوں ، اچھی باتوں ، یعنی حق والی باتوں کہ جن کا کوئی مول نہیں ۔۔۔۔ ان پر ثبت کرتا ہو اور پھر ایسا شخص قرآنی ترجمہ بھی اپنی محدود عقل اور ناقص علم کے ذریعے کرتا ہو اس پر بھلائی یا حق کو پھیلانے یا قرآن کا صحیح فہم رکھنے کا یقین کیسے کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ !!! سوچنے کی بات ہے اسے بار بارسوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!

واہ واہ ۔۔۔۔۔۔ ایم این خالد صاحب کیا خوب کہا آپ نے ۔۔۔۔۔ یعنی میرے پوچھے گئے سوال کا اتنے دنوں بعد جواب تو دیا مگر وہ بھی ادھورا ۔۔۔۔۔۔ جناب اچھی بات کہ آپ نے مانا کہ "اولیاء" دوست کو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر ادھورا جواب کیوں ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ اولیاء الشیطن کے متعلق آپ نے بتایا کہ وہ "خصوصی قول زر" وحی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اولیاء اللہ کیا کرتے ہیں یہ نہیں بتایا آپ نے ۔۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔ ؟؟؟

ویسے آپ کا ہی فارمولہ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

اولیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر
اولیاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے دوست
اولیاءالشیطن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کے دوست

شیطان کے دوست "خصوصی قول زر" وحی کرتے ہیں
یعنی پھر اللہ کے دوست "خصوصی قول زریں" کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب یہی تو ہم بھی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب آپ میں اتنی دانائی کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور حکمت کی باتیں بھی خوب کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنے "عبداللہ" بغیر چیلنج کئے اپنے دل پر زنگ لگوا بھی چکے ہوں گے ۔۔۔۔۔ دیکھیے نہ کتنی حکمت بھری بات کی آپ نے اور الحدیث کا سہارا لیکر "حکمت" کو ڈیفائن کرنا چاہا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث کہہ کر قرآنی آیت سنا گئے ۔۔۔۔۔۔ اور اس پر طرہ یہ کہ اس کا بھی ترجمہ اپنے فہم سے ، جو اب ہمارے تمام قارئین کے لئے ناقابل فہم بن چکا ہے ، کرتے گئے ۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو لکھتے ہیں ۔۔۔۔

"اللہ نے المومنین پر “ من “ کیا کہ ان کے نفسوں میں ایک رسول مبعوث کیا ۔ وہ ان پر اس (من کرنے والے رب ) کی آیات تلاوت کرتا ہے ۔ اور ان کی زکاوت کرتا ہے ۔ اور ان کو الکتاب اور الحکمت کا علم دیتا ہے اس سے قبل (المومنین ) مبین ضلالت میں تھے ِ" (سورت آل عمران آیت 164)

کیا بات ہے ایم این خالد صاحب کی ۔۔۔۔۔۔ "من" کو ویسے ہی رہنے دیا ترجمہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔ کرتے بھی کیسے ۔۔۔۔۔ احسان مند ہوتے تو ایسے ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ایک بات ہے اللہ کریم بنی اسرائیل پر "من" اتارے تو وہ اسے "عید" بنالیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم سورت آٓل عمران کی آیت 164 میں "من" کی خوشی منائیں تو بدعتی و مشرک کہلائیں ۔۔۔۔۔۔ خیر یہ ایک موضوع سے ہٹ کر ضمنی بات تھی ۔۔۔۔

خیر ۔۔۔۔۔ ہمیں صرف قرآن تک محدود کرنے کا جھانسہ دینے والے ، الحدیث کے نام پر القرآن کی آیت لکھنے والے ، اقوال صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اقوال امت کو معاذاللہ "زخرف القول" ثابت کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خود ساختہ ترجمے کے بعد اپنا قول پیش کر رہے ہیں کہ " یعنی یہ جو تم اسلاف سے بائئبل ، تالمود اور دیگر اساطیر سن رہے تھے اور سر دھنتے تھے یہ سب تمہیں ضلالت کی طرف لے جا یہے تھے پھر اللہ نے تم پر “ من “ کیا اور تمھیں آگ کے گڑھے میں گرنے سے اپنی آیات مبین کے ذریعے بچایا ِ" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قارئین دیکھ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم قرآن سمجھنے کے لئے نہ صحابہ کرام علیھم الرضوان کی طرف دیکھ سکتے ہیں نہ اولیاء امت کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مگر مسٹر ایم این خالد اپنا فہم استعمال کرتے ہوئے اپنا "زخرف القول" دینا ضرور پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا یہی انصاف ہے ۔۔۔۔ !!!!

ویسے اتنی بہت سی گفتگو میں اور شاید جوش تحریر میں جناب ایم این خالد صاحب یہ بھی بھول گئے کہ وہ کیا جملہ لکھ رہے ہیں ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔۔

" مگر اے اللہ کے رسول میرے ایک مسلمان بھائی نے دعویٰ کیا ہے کہ اللہ نے “ لقمان “ کو حکمت دی ! وہ حکمت کیا تھی ؟"

میں صدقے سبحان تیری قدرت کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ منکروں سے بھی "یا رسول اللہ" کی صدا لگوا دی ۔۔۔۔۔۔ بلکہ صرف صدا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تو استغاثہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ذرا مذکورہ بالا جملے کو بار بار پڑھئے ۔۔۔۔۔۔ اور ان صاحب یعنی ایم این خالد صاحب کے فہم کو داد دیجئے ۔۔۔۔۔ یعنی جس قول پر فتوی دیتے دیتے اور "شرک شرک" کے نعرے لگاتے ایم این خالد صاحب بوڑھے ہوگئے ہیں وہی بات آج خود کے قلم سے بھی نکل گئی ۔۔۔۔۔۔ ویسے کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ "حقیقت چھپ نہیں سکتی قول زخرف سے " اوہ سوری ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے "بناوٹ کے اصولوں سے" ۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح حضرت لقمان علیہ السلام کے واقعہ میں قرآن کی آیت سے پہلے ، خود ساختہ "کلام" بے ساختگی سے فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " وہ حکمت جو اللہ نے لقمان کو دی وہ یہ تھی کہ وہ کسی اور کا شکر کرنے کے بجائے صرف اللہ کا شکر ادا کرے اور یہ شکر وہ اللہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے نفس کے لئے کرے گا ِ اور جو اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا تو اللہ غنی اور حمید ہے ِ"

اور پھر سورت لقمان کی آیت 12 لکھتے ہیں ۔ قارئین ذرا ایم این خالد صاحب کی مذکورہ بالا خود ساختہ "تفسیر" تو پڑھئے بلکہ بار بار پڑھئے ۔۔۔۔۔۔ یہاں موصوف یہ دھوکہ دے رہے ہیں کہ اللہ نے جو حکمت حضرت لقمان علیہ السلام کو دی وہ دراصل "شکر" ہی تھا۔ جبکہ ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ دانائی کی باتیں حکمت اور تمام حکمتوں کا بیان "اقوال زریں" کہلاتا ہے۔۔۔۔۔ خیر اگر مسٹر ایم این خالد صاحب اسی بات پر مصر ہیں کہ حکمت کا معنی "شکر" ہی ہے تو یاد رکھ لیجئے کہ حکمت کا معنی شکر نہیں ہے البتہ جو شکر کرے اُس نے حکمت اختیار کی۔ حکمت کے بہت سے معنوں میں ایک یہ بھی ہے کہ "واقعہ کے مطابق چیزوں کی حقیقت کی معرفت "حکمت" ہے۔

قرآن حکمت کی کتاب ۔۔۔۔۔

الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنۡ لَّدُنْ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۔
یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں ۔پھر تفصیل کی گئیں۔ حکمت والے خبردار کی طرف سے۔ (سورت ھود آیت 01)

جناب ایم این خالد صاحب زرا غور کیجئے اگر "حکمت" کا معنی "شکر" ہے تو مذکورہ بالا آیت قرآنی کا ترجمہ آپ کیا کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔

قارئین ذرا غور کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمت لفظ "حکیم" سے بنا ہے۔۔۔۔۔۔ معنی درج ذیل ہیں ۔۔۔۔۔

حکیم ۔۔۔۔۔۔ دانا ، عالم (فیروزالغات ، المنجد)
حکمت ۔۔۔۔۔۔ انصاف ، حلم ، بردباری ، حق کے موافق کلام (المنجد)

ایک بات اور ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔۔ اگر حکمت کا معنی "شکر" ہے اور حکمت چونکہ لفظ "حکیم" سے ماخوذ ہے لہذا مندرجہ ذیل آیت قرآنی کا کیا ترجمہ آپ کرنا پسند فرمائیں گے ۔۔۔۔

قَالُوۡا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنۡتَ الْعَلِیۡمُ الْحَکِیۡمُ۔
بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے (سورت البقرہ آیت 32)

یاد رکھئے ۔۔۔۔۔۔۔ لفظ حکمت کا استعمال قرآن عظیم میں کئی معنوں میں کیا گیا جیسے ۔۔۔۔۔۔

نصیحت کے طور پر :۔۔۔۔

حِکْمَۃٌۢ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ
انتہا کو پہنچی ہوئی حکمت پھر کام کام دیں ڈر سنانے والے

سنت کے طور پر :۔۔۔۔۔۔۔

کَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیۡکُمْ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیۡکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمْ تَکُوۡنُوۡا تَعْلَمُوۡنَ ۔
جیسے کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ (سورت البقرہ آیت 151)

عقل و فہم کے طور ہر :۔۔۔۔۔۔۔۔

وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ وَمَنۡ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ۔
اور بےشکَ ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کر اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بےشکَ اللہ بے پرواہ ہے سب خوبیاں سراہا۔ (سورت لقمان آیت 12)

دلائل ، عام فہم مثالوں کے استعمال کے طور پر :۔۔۔۔۔۔۔۔

اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہۡتَدِیۡنَ۔
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بےشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو۔ (سورت النحل آیت 125)

ایم این خالد صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ ذہانت ، فقہ ، علم ، سکون ، اطمینان ، غوروفکر اور بصیرت یہ سب "حکمت" ہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ حماقت ، طیش ، عجلت ، خواہش کی پیروی ، غفلت ، جہالت یہ اس کی ضد ہیں۔۔

یقیناً جس میں حکمت ہوگی وہ ضرور اللہ کا شکر ادا کرے گا ۔۔۔۔۔۔ یعنی شکر کے لئے حکمت لازمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک مومن کے تزکئے کے لئے اللہ کی آیات بھی ہیں مگر وہ جو ان آیات کی تشریحات کریں ان کے "اقوال" کیوں نہ "زریں" حروفوں سے لکھے جائیں ۔۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے آپ کا ۔۔۔۔ ؟؟؟
Kamran Azeemi
About the Author: Kamran Azeemi Read More Articles by Kamran Azeemi: 19 Articles with 50283 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.