ناول ’دھواں ‘ ۔ شاکر انور


ناول ’دھواں ‘ ۔ شاکر انور
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصناف ِ اردو میں ناول کی صنف قدیم اور مقبول ہے ۔ ناول نے قصہ گوئی اور کہانی کاری سے جنم لیا ۔ ناول بھی بنیای طور پر کہانی ہی ہوتی ہے ۔ اسے داستان کی جدید قسم بھی کہا گیا ہے ۔ ناول عام طور پر انسان کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات، حادثات، اچھے برے واقعات ، غمی اور خوشی کی باتوں پر مبنی کہانی کو پڑھنے والے کے لیے دلچسپی اور اس کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے کہانے کا پلاٹ، کردار، جگہ، کرداروں کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ اور جملے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں ۔ ناول سو سال سے زیادہ کا سفر طے کرچکا ہے ۔ اس طویل دور میں معروف ناول نگار سامنے آئے اور ان کے لکھے ہوئے نال بے حد مقبول بھی ہوئے ۔ وقت اور حالات انسانی زندگی پر اثر انداز ہوئے اور اس کی ترجیحات میں بھی فرق آیا، ان حالات اور واقعات کا اثر ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں پر بھی ہوا، انہوں نے محسوس کیا کہ اب قاری اختصار کا خواہشمند ہے، وہ ضخیم افسانے اور ناول پڑھنے میں اس کی دلچسپی کم ہوگئی ہے ۔ چنانچہ ناولوں کو ناولچہ اور افسانوں کو افسانچہ ، کہانی کو سو لفظوں کی کہانی لکھنا شروع کردیں ۔ اس کے باوجود ناول اور افسانہ کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی ۔ افسانے اور ناول لکھے جارہے ہیں ۔ پڑھنے والے پڑھ رہے ہیں ۔ ’’دھواں ‘‘لمحہ موجود کے ناول نگار شاکر انور کی تخلیق ہے ۔ شاکر انور صاحب سے میرا ادبی دوستی کا تعلق ہے، ممکن ہے کہیں ملاقات ہوئی ہو مجھے یاد نہیں ۔ میرے لیے وہ ایک قلم کار کی حیثیت سے محترم ہیں ۔ یہ ناول مجھ تک کیسے پہنچا اور مجھے اس پر اظہار خیال کرنے میں کافی وقت لگ گیا، اس کی معزرت ۔

مئی 2020ء کے ابتدائی دنوں میں جب کہ کورونا وبا شروع ہوچکی تھی اور میں اپنے گھر میں خود ساختہ قرنطین میں تھا،کراچی میں ادیبوں اور شاعروں کے دوست ، ہمدرد ، ہر لمحہ ان کی خدمات کو تیار رہنے والے شہزاد سلطانی نے یہ ناول مجھے لاکر دیا ، جس پر مصنف نے میرے نام اپنے دست مبارک سے خلوص اور محبت کے پھول بکھیرے ہوئے تھے،تبصرہ کے لیے بھی تحریر تھا ۔ میرے مشاغل میں مضامین، کالم ، خاکہ نگاری، شخصیات نگاری اور کتابوں پر اظہار خیال، ضرورت لیے کبھی شعر بھی کہنا شامل ہے ۔ احباب کی محبت ہے کہ وہ اس مقصد سے اپنی تصانیف کبھی از خود، کبھی کسی دوست کے توسط سے اور بعض احباب بذریعہ ڈاک اپنی کتب ارسال فرماتے ہیں ۔ جیسے چند دن قبل نعت گو شاعر جناب محبوب الٰہی عطا صاحب جن کا تعلق ضلع ہری پور ہزارہ کے موضع ’مونن‘ صالح سے ہے،نے اپنے چھ مجموعے بذریعہ ڈاک عنایت فرمائے ۔ چند دن ہوئے معروف ادیب و اشاعر اکرم کنجاہی صاحب نے اپنی دو تصانیف بذریعہ ڈاک عنایت فرمائیں ۔ کورونا نے سارا نظام درہم برہم کیا ہوا ہے ۔ شاکر انور صاحب کے ناول پر لکھنا بھی ٹلتا رہا ۔ کل ہی ایک پوسٹ فیس بک پر میرے فیس بک دوست عادل حسن صاحب کی ملی ایک ناول ’’اچھے دن‘‘ ، ناول نگار قیسی رامپوری ، کتاب کے ٹائیٹل پر میرے نام کی مہر لگی ہوئی تھی ;68;onated by ;68;r;46; ;82;ais ;65;hmed ;83;amdani گویا یہ کتاب میں نے کسی لائبریری کو تحفہ میں دی ہوگی ۔ میں اپنی ذاتی کتب کوئی تین چار سال قبل مختلف لائبریریز کو تحفہ کے طور پر دے چکا ہوں ، سب سے زیادہ کتب جامعہ اردو ، گلشن اقبال کے کتب خانے کو دیں جہاں میرے نام کا گوشہ اس لائبریری میں موجود ہے ۔ اس لائبریری کے علاوہ بھی تین چار کتب خانوں کو میں نے کتب تحفہ دیں ، ایک مہر بنوا لی تھی تاکہ کتاب کے بارے میں علم رہے کہ یہ کس نے تحفہ کی، عادل حسن صاحب نے پوچھا کہ یہ کتاب میں نے کس کو دی تھی، اب میری یاد داشت میں نہیں تھا کہ کسے تحفہ میں دی ہوگی ، انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب انہیں ریگل پر لگے پرانی کتابوں کے کسی اسٹال پر کافی عرصہ قبل ملی تھی ، وہ یقینا قیسی رامپوری سے تعلق رکھتے ہوں گے انہوں نے جھٹ وہ خرید لی ۔ وہ اب قیمتی اور نایاب کتاب ہے ۔ اس کی قیمت تین روپے بارہ آنے لکھی ہے ۔ آج اس ناول نگار و افسانہ نگار قیسی رامپوری کا یوم ولادت ہے اور آج ہی کے دن میں نے شاکر انور کا ناول ’’دھواں ‘‘ اپنی کتابوں سے ڈھونڈ نکالا تاکہ تبصرہ لکھ سکوں ۔ قیسی رامپوری اپنے زمانے کے معروف اور تیز تر ناول لکھنے والے تھے، ان کے چالیس ناولوں کی فہرست تو میں نے دیکھی ،لکھا ہے انہوں نے سو سے زیادہ ناول لکھے، افسانوں کے مجموعے ، تاریخی کتب اور شعر و شاعری اس کے علاوہ تھی ۔ قیسی رامپوری کا انتقال 1974ء میں ستر برس کی عمر میں کراچی میں ہوگیا تھا ۔ زندگی نے مہلت دی تو قیسی رامپوری پر پھر کسی وقت لکھوں گا ۔ اس وقت شاکر انور صاحب کا ناول ’’دھواں ‘‘ میرے پیش نظر ہے ۔

یہ بات یقینی ہے کہ ناول کی جانب کہانی اور افسانہ لکھنے والا ہی آتا ہے ۔ گویا افسانہ ناول نگار کی تربیت اور فنی ضروریات سے آگاہی عطا کرتا ہے ۔ شاکر انور نے بھی افسانہ لکھا ، ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’خواب، خوشبو اور خاموشی‘‘ شاءع ہوچکا ہے ۔ افسانوں کی لکھت نے انہیں ناول کی جانب راغب کیا اور اس حوالے سے ان کی کاوش ’دھواں ‘ کے عنوان سے قاری کے سامنے ہے ۔ ناول میں چند نکات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یعنی ناول کی کہانی کیا ہے، لکھنے والے کا انداز کیسا ہے یعنی اسلوب کیسا ہے، ناول کے کردار بہت اہم ہوتے ہیں ، کرداروں کا گفتگو کرنا، ہنسنابولنا، اٹھنا بیٹھنا، جملوں کی ادائیگی، زبان و بیان قاری کو ناول کے بارے میں رائے قائم کرنے میں معاون ہوتے ہیں ۔ زمان و مکان بھی اہم ہوتا ہے ، خوشی یا غمی کا عنصر بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ ناول نگار کا کہانی کو اپنی گرفت میں رکھنا، کرداروں کو کہانی کے مطابق اداکاری کے جوہر سامنے لانا ناول کو قاری کے لیے دلچسپ کا باعث ہوتاہے ۔

ناول دھواں کے تخلیق کارنے لکھا کہ دھواں لکھنے سے قبل ان کے ذہن میں تین سوالات ابھرے ایک کیا میری کہانی قاری کے ذہن پر دیر پا تاثر قائم رکھ سکے گی;238;، دوسرا کیا یہ کہانے مجھے لکھنی چاہیے اور تیسرا سوال کہ کیا میں اسے منطقی انجام تک کامیابی سے پہنچ سکتا ہوں ;238;ان سوالوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے کوئی بھی لکھاری اپنی تحریر کا آغاز کرتا ہے تو اس قسم کے سوالات اس کے ذہن میں بھی ہوتے ہیں ۔ مثلاً میں ’دھواں ‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کررہا ہوں ،میرے ذہن میں تبصرہ کے مطابق یہ سوالات ہیں یعنی تبصرہ لکھنا ہے، اسے مکمل بھی کرنا ہے، ا البتہ پہلا سوال ہر تحریر کے مطابق مختلف ہوتا ہے، یعنی تحریر کا تاثر، شاعر اپنے کلام کے بارے میں پر امید ہوتا ہے کہ اس کی غزل پسند کی جائے گی، افسانہ نگار کو پوری امید ہوتی ہے کہ قاری اسے پسند کرے گا، اسی طرح تبصرہ نگار کے ذہن میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے تبصرے سے قاری کو اس کتاب کے بارے میں علم ہوسکے گا کہ اس کتاب میں کیا کچھ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ شاکرانور صاحب اپنے ناول دھواں میں ان تینوں سوالوں کے جوابات حاصل کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ ان سوالات کے ساتھ ساتھ بقول ناول نگار ان کے سامنے ان کا افسانوں کا مجموعہ تھا جوبقول ان کے انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی ان کے اپنے الفاظ میں ’’ میں اپنی پچھلی کتاب ’خواب خوشبو اور خاموشی ‘کو تب دق کے مریض کی طرح دم توڑتے دیکھ چکا تھا‘‘ ۔ الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ نہ امید ہوئے ۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ انہوں نے نہ امیدی کو امید میں بدلنے کی سعی کی اور وہ دھواں کے روپ میں کامیاب ہوئے ۔ شاکر انور کی یہ سوچ اور عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کے اندر کا انسان تخلیق کار ہے، وہ تخلیق کا عمل جاری رکھیں گے، کسی بھی تخلیق پر پذیرائی، کامیابی یا ناکامی ان کے تخلیق کے عمل پر اثر انداز نہیں ہوگی ۔

دھواں کی کہانی معاشرہ میں رونما ہونے والے عام حالات اور واقعات پر مبنی ہے ۔ بنیادی طور پر ایک استاد تیمور اوراس کی شاگرد ساشا کی کہانی ہے ۔ تیمور جامعہ میں پڑھارہا ہوتا ہے، اس کی کلاس میں ساشا ہوتی ہے ۔ پہلی ہی ملاقات میں دونوں ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں ، پھر کہانی آگے بڑھتے ہے ۔ اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرہ میں عام ہیں ۔ ناول کے بنیادی کرداروں میں تیمور اور ساشا ہی ہیں ۔ محبت کے بعد دونوں کے درمیان کشیدگی اور علیحدگی ۔ ناول کا خیال ناول نگار نے اپنے ایک دوست کی سچی کہانی سے متاثر ہوکر ترتیب دیا ۔ مصنف کا کہنا ہے کہ’ ان کے دوست کی موت اس کہانی ’دھواں ‘ کو شروع کرنے کی وجہ بنی‘ ۔ مصنف کا اسلوب سادہ ہے ۔ موضوع عام ضرور ہے لیکن ناول نگار نے اسے دلچسپ بنادیا ہے ۔ تجسس کہانی کی ایک خوبی ہے، کہانی کوغم کا استعارہ کہا جاسکتا ہے ۔ ناول کا مطالعہ کرنے سے ہی ناول کا اصل حسن سامنے آسکے گا ۔

ناول نگار نے عمدگی سے اپنے خیالات کی عکاسی احسن طریقے سے اس طرح کی ہے کہ قاری جیسے جیسے مطالعہ کرتے ہوئے آگے بڑھے گا ، اس کی دلچسپی اور تجسس قائم رہے گا ۔ زندگی کے عام موضوع پر دلچسپ انداز سے ناول لکھنے پر مصنف کو دلی مبارک باد ۔ (8جون2020ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285006 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More