وہ حادثہ جو نہیں ذہن و دِل میں مستحضر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ دنیائے بے ثبات اور اِس کی بزمِ آرائیاں ابتدائے آفرنیش سے انسان کے لئے وجہِ حیرت بھی رہی ہیں اور سببِ انبساط بھی ۔سر پر تنا ہوا یہ خوبصورت نیلگوں آسمان،اِس پر جھل مل کرتے ستاروں کی حسین انجمن، دیو ہیکل موجوں کے ساتھ ٹھانٹے مارتا ہوا یہ وسیع و عریض سمندر اور ہمارے قدموں تلے بچھی یہ بے پناہ خوبصورت زمین ہمیں اِس خام خیالی میں ہمیشہ مبتلا رکھتی ہے کہ دنیائے دوں کی یہ تمام رونقیں سدا بہار ہیں اور سدا بہار ہی رہیں گی۔اِس کے ان پرکیف لیل ونہار کی شوکت و عظمت پر کبھی زوال نہیں آئے گا، یہ کبھی کسی حادثہ سے دوچار نہیں ہونگے۔لیکن کسی مذہبی عقیدت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مہتمم با الشان سائنسی دور کے ثابت شدہ اُمور کے بموجب ہم عرض کریں گے کہ ہمارے سروں پر روشن آفتاب کی توانائی ختم ہو جانے کو ہے،اور یہ کہ پورا کا پورا نظام شمشی اپنے سورج سمیت کائناتِ بسیط کی کسی نامعلوم منزل کی سمت رواں دواں ہے اور کسی وقت بھی کسی سدّراہ سے متصادم ہوکر پاش پاش ہوجانے والا ہے۔لیکن حیر ت ہوتی ہے کہ سائنسدانوں کو یہ بات کہنے کے لیے صدیاں لگ گئیں۔ جبکہ کلام اللہ نے کسی قسم کی قیاس آرائیوں Hypotheses کے بغیر چودہ سو سال قبل ہی اِسے ایک حقیقت کے طور پر بیان کر دیا تھا کہ ایک مقررہ ساعت پر اس کا ئنات کا نظام درہم برہم کردیا جائے گا اور یہ سب کچھ ایک ہی دھماکے میں اچانک ہو نے والا ہے۔لَا تَتِیکُم اِلَّا بَغتَةً ۔ ”وہ قیامت تم پر اچانک ٹوٹ پڑیگی۔ “ ثَقُلَت فِی السَّمٰوَاتِ وَالاَرضِ ” آسمانوں اور زمین کا وہ ایک زبردست حادثہ ہوگا ۔“ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم یا ہمارے سائنسدان اس بھیانک حادثہ کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور اِن تباہ کاریوں کی حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اعراض سے کام لے رہے ہیں؟ اِس اعراض کا ذکر اکیسویں سورة کی پہلی آیت میں صاف الفاظ میں موجود ہے: ”انسانوں کے لیے اُن کے حساب کا وقت قریب آلگا ہے اور وہ(ہیں کہ) غفلت میں اعراض برت رہے ہیں۔ “

المیہ یہ ہے کہ اِس عظیم حادثہ سے اعراض کا حقیقی سبب کتاب ِ ہدایت ہی کا عملاً ہماری زندگیوں سے منسوخ ہو جانا ہے ۔اِسے کھول کر دیکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں نہ اِنہیں کوئی یہ بتانے والا نظر آتا ہے کہ یہی ایک کتاب ایسی ہے جو اِس حادثہ کے سلسلے میں اِنہیں سنجیدگی بھی عطا کر سکتی ہے اور اُن کے دکھوں کا مداوا بھی بن سکتی ہے ۔ کلامِ اِلٰہی سے ہدایات ِ ربانی کے دریافت کرنے کی نہ ہم میں کوئی جستجو ہی نظر آتی ہے نہ اخلاص کے ساتھ اِن سے رابطے ہی کا کوئی خیال ہی ہمیں آتا ہے۔ حالانکہ اِن آیات میں رحمت ِ باری تعالےٰ کی ایسی بہاریں موجود ہیں کہ ہم اپنے شب وروز، اپنی سماجی ، کاروباری اور ازدواجی زندگی کے اُجڑے بیابانوں کو لالہ زار میں بدل سکتے ہیں اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ اور اُن کے اخلاقِ پاکیزہ کی خوشبو سے اِن چمن زاروں کو معطر کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اِس کے کسٹوڈین ہی خود اِس سے بے بہرہ ہوجائیں تووہ کیوں کر اِسے پڑھیں گے یا دوسروں کو اِس سے متعارف کرانے کا انہیں کیوں کر خیال آئے گا ۔

اِس مضمون میں ہم نے ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ انسانیت کو دعوتِ غور و فکر دینے والی سورہ الانفطار کی فکر انگیز آیتوں کی روشنی میں مذکورہ حادثے کی سنگینی کا احساس دلایا جائے۔اُس مالکِ حقیقی جس کا کوئی شریک نہیں ، کوئی پارٹنر نہیں،جسکے برابر کوئی نہیں، کوئی مثال جس کی نہیں دی جاسکتی۔جو اپنی ذات میں یکتا، جو اپنے کمال میں تنہا،جو اپنے اختیار میں اکیلا،جو اپنے جمال میں بے مثال و بے نظیرہے، ایسے مالک سے دعا کے ساتھ کہ اے ہمارے رب جلیل....! ہمیں اپنے شرورِ انفس، ضد، انا، حسد ،وساوسِ شیطانی غرض کے ہمارے ا ندرون و بیرون کے اشرار سے جو ہر وقت ہمارے اخلاقی بگاڑ کی تاک میں ہیں، ہماری حفاظت فرما.... آمین۔ یقین کامل ہے کہ جسے رب ِجلیل کا تحفظ حاصل ہو، دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.... اور جسے رب تعالیٰ اپنی پناہ سے محروم کردے، اسے کہیں کوئی جائے پناہ میسر نہیں ہو سکے گی۔عرشِ اعظم سے نازل شدہ کلامِ ربانی کی ہماری حقیر زبان میں ترجمانی کا حق ادا کرنا ہم جیسے بے بضاعتوں سے ہر گز ممکن نہیں تاہم ہماری کوشش یہی ہے کہ آیاتِ ربانی کے معنی و مفہوم سے زیادہ اِس کی روح تک رسائی ممکن ہو جائے اور اپنے لئے پیغامات ربانی کے حصول کی راہ ہموار ہو جائے اور راہِ حق کی جادہ پیمائی کے ہم قابل بن سکیں اور اُس منزل کے نقوش ہماری نظر کے سامنے اُبھرنے لگ جائیں جسے اُخروی فلاح سے موصوم کیا گیا ہے۔

سورة کی ابتداء قیامت کی ہولناکیوں کے تذکرے سے ہوتی ہے۔الفاظ کے تیور ملاحظہ ہوں:” جب آسمان کو چیر دیا جائے گا اور جب ستارے بکھیر دئے جائیں گے اور جب سمندر(سنامیوں کی شکل میں انسانی بستیوں کی سمت) بہا دئے جائیں گے اور جب قبریں اُدھیڑ دی جائیں گی، اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنے آگے کیا کچھ بھیجا تھا اور کیا کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا !! “ ہماری رسد گاہوں اور خلائی مراکز کی مدد سے ہم خلائے بسیط کا مسلسل مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور ہر لمحہ اپنے رب کے کمال و جلال، اکرام و سبحان اور شانِ ذی شان کے مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں اور حیرت کے سمندر میں اپنے آپ کو غرق پاتے ہیں۔

یوں محسو س ہوتا ہے جیسے کائنات کے ایک ایک ذرہ کی تخلیق، مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک تدریج و تسلسل کے ساتھ ہوئی ہے۔لیکن وہ الحیُ القیوم ، وہ لازوال اور لا یُمیت ، ربُ الاعلی ایک بھیانک زلزلہ کے ذریعہ اور ایک ہی زبردست تصادم کے ساتھ اِ س منصوبہ بند و منظم کائنات کو فنا کردے گا۔آسمان کے چیر دیے جانے سے لے کر قبروں کے اُدھیڑ دیے جانے تک کا یہ حادثہ یکلخت برپا ہوگا اور اِسی ایک دھماکہ کے ساتھ اس کائنات کی انجمن تہ وبالا کردی جائے گی۔یعنی یہ کہ خالق اپنی حشمت و قدرت کے مکمل کمان کے ساتھ اپنی مخلوق کی تباہی کا بہترین پروگرام لیے جلوہ افروز ہو گا اور اپنی مخلوق کو اپنے وعدے کے مطابق فنا کردے گا۔ اُس کی مخلوق کہاں کہاں آباد ہے اِس کی ہمیں کچھ خبر نہیں،نیز کس سیارے میں کونسی مخلوق آبا د ہے اِ س کا بھی ہمیں کوئی اندازا نہیں۔ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کس آسماں کے نیچے کس نوع کے سیارے اُس نے تخلیق فرمائے ہیں اور کس مخلوق کے لیے اِنہیں جائے قرار بنایا ہے۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم اپنے نظامِ شمسی ہی کو دیکھ کر محوِ حیرت ہیں،جس کی حقیقت پوری کائنات میں ایک ذرّے کے ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے۔

پھر ایک ہی صور یا دھماکہ کے ساتھ تباہ شدہ کائنات کی ان ساری چیزوں کو بدلی ہوئی شکل و ہئیت کے ساتھ دوبارہ تخلیق کا جا مہ پہنائے گا ۔ ہمیں خبر نہیں کہ یہ سب کیسے ہوگا ، ہاں اتنا ہمیں ضرور پتہ ہے کہ اِنَّہ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیر ۔ وہ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اور کسی بھی بڑے سے بڑے تخلیقی کام کے لئے یا فَیَکُون کے لیے اسے کُن کا صرف ایک کلکClickکا فی ہوگا۔ پلک جھپکتے ہی ساتوں آسمان دوبارہ وجود میں آ جائیں گے یا جتنے وہ چاہے، بناسکتا ہے۔ سائنسی علوم نے اب عصر حاضر کے ملحدوں کو بھی حق الیقین کی منزل تک پہنچا دیا ہے جہاں انہیں ایک ایسی قوت کا ادراک ہو گیا ہے جو باحشمت ہے اور جس سے کچھ بھی ممکن ہے ۔ظاہر ہے وہ خالق ذوالجلال کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔لیکن انسانی عقل کو دعوت دیتے ہوئے آگے جو اہم بات کہی جارہی ہے، وہ ہمارے لئے غور طلب ہے۔

” ہر نفس جان لے گا کہ اس نے (یہاں آنے سے قبل ہی اپنی زندگی کے امتحان میں) کون سے اعمال آگے بھیج رکھے تھے، اور کون سے اعمال( اس نے) اپنے پیچھے چھوڑکر( موت کی وادیوں سے ہوتا ہوا یہاں حشر کے میدان تک) پہنچا ہے۔ “ہمارے شب و روز کی زندگی، تاریکی یا اُجالے کی ہماری سب حرکتیں، مجلس اور تنہائی کی ہماری مصروفیات، ہمارے افعال اور اقوال کے سارے مرحلے، سب کچھ رکارڈ اور مخفی کیمروں کی نظروں میں محفوظ ہو ں گے۔ چاہے ہم ان سے بے فکر اور غافل ہی کیوں نہ بنے رہے ہوں۔ ہمارے ایک ایک مضمون کے ایک ایک جملے، ہماری ایک ایک سرگرمی کی ایک ایک حرکت اور ہماری ایک ایک تقریرو بیان کا ایک ایک لفظ، کیا کیا مثبت یا منفی ردعمل کی لہریں اٹھائی تھیں اور اِس کے اثرات کہاں تک جا پہنچے تھے،اپنی تمام تر Minute Detailsکے ساتھ سب کچھ محفوظ ہوگا۔ ہمیں ہماری زندگی گزارنے کے دوران دھیان ہی نہیں رہتا کہ وفاداریوں اور بے وفائیوں کی ساری داستانیں، طاعتوں اور سرکشیوں کے سارے قصے،ایمانداریوں اور بغاوتوں کی ساری کہانیاں رکارڈ ہو رہی ہیں جسے ہمارے رب نے ہماری نظروں سے اوجھل کر رکھا ہے اور سا رے رکارڈ کو گویا ڈھانپ کر رکھا گیا ہے۔ اَحصَاہُ اللّٰہُ وَ نَسُوہ ۔ ظاہر ہے یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہم اس دھرتی میں کانٹوں کے بیج بو کر چلے جائیں اور جن کی خاردار فصلیں نسلِ اِنسانی کو لہو لہان کرتی رہیں اور رب تعالےٰ اِن زخموں کا ہم سے حساب نہ لے؟ وہ تو مالک یوم الدین ہے، احکم الحاکمین ہے۔

” اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِّ کریم کے بارے میں دھو کے میں ڈال دیا۔وہی رب! جس نے تجھے خلق کیا ، متناسب اعضاء دئے اور معقول Proportionسے تجھے بنایا!! اور اپنی پسند سے تیری صورت بناکر اسے(تیرے پیکر پر)فِٹ کردیا....! “کس قدر کریمانہ انداز ہے یہ رب تعالےٰ کا،اگر اللہ کے الکریم ہونے کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو ہم اُس کے لطف وکرم کی طرف لازماً لپکیں گے، اس کی شکر گزاری کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنائیں گے۔ لیکن افسوس ! اس کے بر عکس وہ اپنے ہی خالق سے لاپرواہی برتتا ہے ، اور خواہش پرستی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔انسان دنیا کی ممتاز ترین مخلوق ہے، اسکی تخلیق میں خالق کی صناعی پوری طرح عیاں ہے۔ جن مراحل سے گزر کر وہ دنیا میں آتا ہے، وہ اس کے متناسب اور معتدل ہونے کے گواہ ہیں۔ پچانوے سورة کی چوتھی آیت میں ہے:”درحقیقت ہم نے انسان کو بہتر ین سانچے میں ڈھالا ہے۔ “ تیسری سورة کی چھٹی آیت میں بھی ہے کہ:”وہی ہے جو تمہاری ماں کے ارحام میں، تمہاری صورتیں بناتا ہے،(فی الحقیقت) کوئی اِلٰہ نہیں ہے مگر وہی غالب اور حکمت والا(ہی تمہارا اِلٰہ ہے)۔ “،” کَلّاَ....(ان باتوں کاآج ادراک کرنے کے بجائے )تم انصاف کے دن کی تکذیب کئے جارہے ہو۔ حالانکہ تم پر محافظین موجود ہیں، جو نہایت ہی گرامی قدراوراصحاب ذی مرتبت کا تب ہیں،تمہارے افعال کا علم رکھتے ہیں۔ “ یہ کاتبین جو اپنے رب کے حکم سے ہر فردِ متنفس پر مقرر ہیں، فرداً فرداً اِنسانی افعال کے رکارڈ کے اہتمام میں لگے ہیں جسے یومِ حشر کو پیش کیا جانا ہے، جیسا کہ ستراویں سورة کی تیرویں آیت میں ہے:”اور ہم نے ہر اِنسان کے دفتر عمل کو اُس کی گردن میںلازم کردیا ہے۔اوربروزِ قیامت ہم اُسے (اُس کی گردن)سے نکال کر کتابی شکل میں نشر کریں گے،(اور اُس سے کہا جائے گا کہ اب)پڑھ لے تو خود اپنا رکارڈ۔(پھر تری اجراء شدہ کتابِ عمل کے مطالعہ سے تو محسوس کرے گا کہ) تو خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔“

کسی پروف ریڈنگ کی ضرور ت کے بغیر از اول تا آخر یہ رکارڈ اس قدر مکمل اور غلطیوں سے اِتنا پاک ہوگا کہ اِس کو دیکھ کر اِنسان حیران رہ جائے گا۔ چنانچہ ظاہر ہے ایک ذمہ دار او ر سنجیدہ ، باشعور و صاحبِ فہم وفراست شخصیت کیوں کر ایسی تباہ کن صورتحال سے خود کو غافل رکھ سکتی ہے....!! ضروری ہے کہ کتاب اللہ کا اِنتہائی سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے اور شخصیت اور کردار کا جو معیارِ مطلو ب اِس میں پیش کیا گیا ہے، ٹھیک اِس کے مطابق اپنی ذات کو اُسوہ حبیب پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں اصلاح کے مرحلے سے گزارا جائے تاکہ شخصیت و طرز زندگی میں تعمیر کا عمل شروع ہو جائے جو با لآخر دُنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی،ایک کامیاب انسان بنانے پر منتج ہو۔اِس سے پہلے کے فائنل محاسبہ کا وقت آجائے، ابھی سے اپنی ذات کا محاسبہ Self Assessment کرلے۔ پھر اِس کا موقع بھی ہے اور مواد بھی ، جو قرآنی احکامات کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔خود رب تعالےٰ نے ہمیں ایک اچھا انسان بننے کی ساری ہدایات فراہم کر دی ہیں اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس طرح عظیم حادثہ سے گزار کر مالکِ کائنات کے روبرو حاضر ہو تے ہیں۔اپنی رحمتوں کے ساتھ ہماری استعانت کے لیے ہمارا رب ہم پر سایہ فگن ہے اور ہم ہیں کہ اُس کی جناب میں دستِ دُعا دراز کرنے کے لیے ابھی تک حاضر نہیں ہوئے ہیں۔ رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ وتُب عَلَینَااِنَّکَ اَنتَ التَّوَّاب’‘ الرَّحِیمُ ۔ رَبَّنَا لَا تُزِ غ قُلُوبَنَا بَعدَ اِذ ھَدَ یتَنَا وَھَب لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحمَةً اِنَّکَ اَنتَ الوَھَّابُ ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَاَصحَابِہ اَجمَعِینَ بِرَحمَتِکَ یَااَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 76434 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.