باتوں کے ہم بادشاہ باتیں کریں مہان

ہمارے ملک مِیں میڈیکل کی تعلیم پر تحقیقی طور پر کوئی کام نہیں ہوا، فارمیسی میں جوبچے پڑھتے ہیں وہ خود کنفیوژ ہوتے ہیں، ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہمارے طالبعلم فارمیسی کے میدان میِںِ کوئی تحقیق کر پا یئں ۔ہماری کوششیں آزاد نہیں ہوسکتیں۔غیروں کی نہ دکھائی دینے والی نظریں نہ صرف دیکھتی ہیں بلکہ اس کی رپورٹ بھی کرتی ہیں۔ اور وہ کام پر سکون طریقے سےروک دیا جا تا ہے۔ پاکستان میں سائنسی میدان میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ایٹمی دھماکے کو صرف اللہ رب العزّت نے محفوظ رکھا تھا ۔ ورنہ یہ ہمیں جینے نہ دیتے۔آپ اپنے اللہ کو کبھی فراموش نہ کریں کہ اسنے ہمیں کبھی دوسروں کے رحمو کرم پر نہیں چھوڑا۔ مگر اسکی مدد کے لئے ضروری ہے۔ ہم اسکے حبیب ﷺ سے وفا کریں اور اس معاملہ میں قطعی نہ شرمایئں ۔

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں۔۔یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

مگر ہم اس کرونا والے معاملے میں گوروں کے جھوٹے بیانیہ کو پھیلائے جا رہے ہیں

انفارمیشن کے اس دور میں ہم بڑی بے خبری کے ساتھ اسی ایجنڈے پر لگے ہیں جس سے ملک میں زیادہ سے زیادہ تباہی آئے۔ کرونا سے متاثر ہزاروں مریضوں کا پتا چلایا گیا ہے ۔ اس نا قابل اعتبار کٹ سے جس کے متعلق پوری دنیا کو معلوم ہے بس ہمارے معصوم کچھ نہیں جانتے۔ یقین نہیں آتا کہ پاکستانی ایسے ہو سکتے ہیں ؟ بھئی یہ تو دھوکہ کھانے کے بھی پیسے لے لیتے ہیں ۔ کیا واقعی؟ جو دل چاہے کریں مگر وطن عزیز کو تو نقصان نہ پہنچایئں۔ یا ڈالر کی چمک سے اندھے ہو گئے ہیں؟

کیا کہا جا سکتا ہے۔جو لوگ چینی بنانے میں سبسیڈی لیتے ہیں اکسپورٹ کرنے میں سبسیڈی لیتے ہیں۔ پھر امپورٹ کرنے پر پھر سبسیڈی لیتے ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر سبسیڈی دینے والے تو دودھ کے دھلے ہیں؟

بات دور نکل گئی میں نے تو کیمسٹری کی میدان میں اپنی کم مائیگی کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ سب ممکن ہے جب ہماری حکومت کی توجہ اس طرف ہو۔ مگر بھلا کیسے ممکن ہے جب ہمارے ارباب حل و عقد منی لانڈرنگ اور جھوٹے ٹی ٹی کی وصو لی میں مصروف ہوں۔

ایک خبر کے مطابق امریکہ میں تحقیق کرنے والے ایک چائنیزڈاکٹر (سائنٹسٹ) کو قتل کردیا گیا ہے۔ چین جیسے طاقتور ملک نے کیا کر لیا؟ ہماری قسمت بس یہی ہے کہ ہم کو جس طرح کا بیا نیہ دے دیا جاتا ہے ہمیں پوری شدّومد سے اسی کو پروموٹ کرنا ہے،اعداد و شمار میں اس طرح کھیلتے ہیں کہ جیسے سب کو آب حیات پلا دیا ہے لہٰذا اب کسی کو مرنا نہیں چاہیئے۔

آپ دیکھ ہی رہے ہیں، کہ اس کرونا کی حقیقت پرکئی امریکن پی۔ایچ۔ ڈی ڈاکٹروں نے بہت کچھ لکھا ،ویڈیو بنائی اور یو ٹیوب نے انکے ویڈیو ہٹا دی۔حالانکہ ڈاکٹرز کا خیال ہے ۔ کہ آزادی اظہار رائے کے حقوق کے مطابق یو ٹیوب نے غلط کیا ہے، بعد میں۔ بی بی سی نے یہ بتایا کہ WHO کےبیانیئے کے خلاف آپ کوئی چیزلوڈ نہیں کر سکتے۔ جبکہ ڈاکٹر بوترنے کہا کہ ہم پاگل تو نہیں ہیں؟ ہم تو عوام کو آگاہی اس لئے دے رہے ہیں کہ ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ امریکہ اور اسکے عوام کی مرتے دم تک حفاظت کریں گے۔ چھوڑئیے یہ تو جو کچھ ہے امریکہ کے دیکھنے کی بات ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نا دیدۃ قوتیں ہمارے کسی کام پر بھی قد غن لگا سکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارا پورا میڈیا، اسمبلی ممبر، ڈاکٹر ، صحافی۔ سب سارا دن نہ ہوئی اموات کی کمنٹری کرتے رہتے ہیں۔اور آنے والے دنوں میں لا تعداد اموات کی پیش گوئی (تمنّا) کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے کچھ پاکستانی ڈاکٹروں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی تھی، وہ بھی یوٹیوب سے غائب ہے، ان بیچاروں کا دعویٰ تھا کہ سو فیصد کامیاب دوا لائے ہیں ۔ جو نیوزی لینڈ میں پوری طرح کا میاب ہے، وہ اس مصیبت میں پاکستانی بھائیوں کی مفت مدد کرنا چا ہتے تھے۔ یہ بہت بڑا تجارتی اور سیاسی مسئلہ ہے۔ کسی کی منشاء یہ ہے کہ بس پوری دنیا مَیں انہی کی ویکسین کو بڑی تعریفوں کے بعد انسانیت پر احسان مان کر لانچ کر دیا جائے۔ اس بڑی تجارت کے لیئے کرونا کو لانچ کرنا پڑا۔

ہمارے سیانے بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جو بھی مرے وہ کرونا کے نام پر مرےاور اگر کوئی بھوک سے مرتا ہو تو پوری اجازت ہے بس ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر کرونا لکھا جائے۔ تو ہمیں تو لاک ڈاؤن کا پورا فائدہ ملے گا۔

ہمارے ملک میں تو ہر ہر چیز کے کئی کئی فوائد ہوتے ہیں۔ جیسے کسی کو اپنے مریض کے انتقال پراس کی تجہیزوتدفین کرنی ہے تو اتنے روپے لاؤ، انکے خیال میں آپ کو سمجھنا چاہیئے،کہ یہ آپ کے لئے کتنی آسانی مہیا کر رہے ہیں، نہ غسل ،نماز ،نہ جنازہ، نہ دفن کرنے کے لیئے جانے کی پریشانی۔ یہ انکا وعدہ ہے کہ کسی بڑے عالم سے دستخط شدہ شہید ہو جانے کا سرٹیفیکیٹ ۔ مردے کے سینے پر چپکادیا جائے گا۔

ٹسٹنگ کٹ اگرچہ کہ ساری دنیا اسے ٹسٹنگ کے لئے نا مناسب کہہ رہی ہے مگر مریضوں کی تعداد تو بڑی خوبی سے بڑھا رہی ہے۔ اور کیا چاہیئے؟

پھر سرکاری عملہ اور مزے میں ۔ ارے تم تو SOP کا کوئی خیال نہیں کرہے ہو۔ تمہاری دوکان اور پوری گلی بند۔ کیا خیال ہے؟ اب وہ غریب خیالات بتائے گا۔ سر کار کو جو پسند آئے گا اسے مان لے گی۔اور گلی بند نہ کرنے کی SOP پر عمل کیا جائے گا۔

جسطرح ہمارے دانشورکرونا کے فضائل و اعمال بتاتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں ۔ اسی طرح میرا دل چاہتاہےکہ سجدہ ریز ہو جاؤںکہ مالک تو واقعی رحمٰن و رحیم ہے۔ تیرے دئیے ہوئے اس ملک میں کیسے کیسے لوگ ایمان سے دور ہیں۔ اور رمضان کے مبارک مہینہ میں انہوں نےکسقدر چوری چکاری کو اپنا شعار بنایا ہے۔ اور اپنی نسبت تیرے محبوب محمّد مصطفےٰ ﷺ سے ملاتے ہیں۔ اللہ توہی علیم و خبیر ہے۔ انکے شر نے مسجد سے دور کیا اور کرونا زبردستی مسلّط کیا ہے۔ اللہ اپنے مجبور بندوں پر رحم فرما اور فتنہ مسیح الدجّال سے محفوظ رکھ ۔
 

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 58 Articles with 45089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.