اسٹریٹجک اتحادی سے دھوکہ بازی مہنگی پڑ سکتی ہے

ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کی براہِ راست نگرانی صدر اوبامہ اور امریکی عسکری کمانڈرز کررہے تھے۔ امریکی میرینز جب اسامہ کے کمپاﺅنڈ میں داخل ہوئے تو ان کے ہیلمٹ پر لگے طاقتور کیمرے وائٹ ہاﺅس کو براہِ راست آپریشن کی تصاویر دکھا رہے تھے۔ چالیس منٹ پر محیط اس آپریشن کے بعد امریکی ہیلی کاپٹر جب وہاں سے روانہ ہوئے تو ان کے قبضے میں اسامہ کی لاش کے علاوہ اس کے زیر استعمال لیپ ٹاپ، سی ڈیز اور دیگر دستاویزات بھی تھیں۔ جب یہ ہیلی کاپٹر افغانستان کی حدود میں داخل ہوئے تو اوبامہ نے اپنی قوم کو اسامہ کی ہلاکت کی ”خوشخبری“ سنائی اور یہ بھی بتایا کہ اسامہ ایبٹ آباد کے مذکورہ کمپاﺅنڈ میں گزشتہ پانچ سال سے رہائش پذیر تھا۔ اس طرح اسامہ کا ”مدعا“ پاکستان پر پڑ گیا۔پل بھر میں امریکی عہدیداروں نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں، وفاداریاں اور نقصانات کو نظر انداز کر کے اس پر تنقید کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا ۔ جس کے منہ جو آیا وہ بکتا ہی چلا گیا۔ سی آئی اے کے چیف لیون پنیٹا نے تو فوراََ پاکستان کے کردار پر شک ظاہر کرنا شروع کردیا۔اس نے الزام لگایا کہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے معاملے میں” پاکستان ملوث ہے یا پھر نااہل“ ۔

پاکستان کے خلاف امریکی پراپیگنڈے کا طوفانِ بدتمیزی اب بھی نہیں تھما بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ دنیا کے سامنے یہ چیز ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ دہشت گردی کا مرکز اب افغانستان سے پاکستان منتقل ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز امریکی محکمہ دفاع نے اسامہ کی چند وڈیوز بھی جاری کیں۔ ان کے بقول یہ وڈیوز ایبٹ آباد کے کمپاﺅنڈ سے ملی ہیں جن میں اسامہ کو وڈیو پیغام کی ریہرسل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک وڈیو میں اسامہ ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں تھامے خود کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ ان وڈیوز کے ساتھ امریکی خبر رساں اداروں کی پراپیگنڈہ کے ریپر میں لپٹی یکطرفہ خبرنگاری میں امریکہ کے آئندہ عزائم کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ ان وڈیوز کو ریلیز کرنے کا مقصد دراصل اسامہ کے ایبٹ آباد کمپاﺅنڈ کو القاعدہ کا آپریشنل روم ثابت کرنا ہے کہ وہاں سے اسامہ دنیا بھر میں موجود القاعدہ کے رہنماﺅں کو ہدایات جاری کرتے تھے۔خدانخواستہ اگر آئندہ کسی وڈیو میں ہماری کسی سرکاری اہلکار کو ملوث کردیا گیا تو تصور کیجئے کہ پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کا یہ پراپیگنڈہ کہ اس کے ہاتھ میں معلومات کا وسیع ذخیرہ آگیا ہے ، دراصل پاکستان پر پریشر بڑھانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے ۔تاکہ وہ امریکہ کی جانب سے اس کی حدود کی خلاف ورزی اور دیدہ دلیرانہ آپریشن پر صدائے احتجاج بھی بلند نہ کرسکے۔

بہر حال بات ہورہی تھی پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے ملوث یا نااہل ہونے کے امریکی الزام کی۔9/11کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس کی افواج کو وہاں قدم جمانے کے لئے درکار انٹیلی جنس آئی ایس آئی نے فراہم کی۔ امریکہ کو مطلوب بہت سے افراد کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے تعاون سے گرفتار کیا گیا۔ اس تعاون کا اعتراف خود امریکہ بھی متعدد مرتبہ کرچکا ہے۔ اگر آئی ایس آئی کے رابطہ القاعدہ یا طالبان سے ہوتا تو ان کے دفاتر کبھی بھی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنتے۔ لاہور، فیصل آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں موجود آئی ایس آئی کے دفاتر دہشت گردوں کی مذموم کاروائی کا نشانہ صرف اس لئے بنے کہ پاکستان کی اس ایلیٹ ایجنسی نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک ان کے ہاتھوں تباہ ہوئے۔ اگر ہماری فوج اور ایجنسیاں دہشت گردوں سے رابطے میں ہوتیں تو جنرل ہیڈ کوارٹرز پر حملہ نہ ہوتا، پریڈ لین مسجد میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی، پشاور کے بازار دہشت گردی کا نشانہ نہ بنتے، راولپنڈی میں سرجن لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ دہشت گردی کے بھینٹ نہ چڑھتے۔ راولپنڈی میں آرمی میڈیکل کالج کی بسیں دہشت گردی کا نشانہ نہ بنتیں اور گزشتہ دنوں کراچی میں نیول بسوں پر حملہ نہ ہوتا۔ اگر پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی میں ملوث ہوتا تو ہماری افواج اور سیکورٹی کی دیگر ادارے کم از کم طالبان اور القاعدہ کی ہٹ لسٹ پر نہ ہوتے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات پنیٹا کی الزام تراشی کی نفی کرنے کے لئے کافی ہیں۔

جہاں تک پنیٹا کے بیان کا دوسرے حصے یعنی ہمارے اداروں اور ایجنسیوں کی ” نااہلیت“ کا معاملہ ہے تو اگر ایسا ہوتا تو امریکہ کبھی بھی پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ نہ بناتا۔ اسے ہماری افواج اور خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر اس وقت تو کبھی شک نہ تھا جب انہوں نے القاعدہ کے خطرناک دہشت گردوں کو پکڑنے میں اس کی مدد کی۔سچ یہی ہے کہ اسے افواج پاکستان کی اہلیت اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی شہرت اور نیک نامی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی آنکھ کا کانٹا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اسامہ کے اس کمپاﺅنڈ کے متعلق بنیادی معلومات آئی ایس آئی نے فراہم کی تھیں ، پاکستان کو اس آپریشن سے دور رکھنے کے دو ہی مقاصد ہوسکتے ہیں کہ یا تو یہ ایک ڈرامہ تھا جس کی راز داری ناگزیر تھی یا پھر وہ پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کو اسامہ کی گرفتاری کے جشن میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر اسامہ ہنٹ آپریشن میں ہم بھی حصہ دار ہوتے تو ہماری شہرت کا کیا عالم ہوتا اور اس آپریشن کے متعلق شکوک وشبہات بھی ختم ہوجاتے۔دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی میں بے حد اضافہ ہوتا۔ مگر امریکہ کو ہمیں اس مقام پر ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا لہٰذا اس نے وہی کیا جو صدیوں سے وہ اپنے ساتھیوں سے کرتا آیا ہے دھوکہ دہی اور فراڈ۔ اپنے اسٹریٹجک اتحادی کی فضائی حدود کو روندھ کر وہاں آپریشن کرنے والا کبھی اتحادی یا دوست ہونے کا حقدار نہیں۔

امریکہ کے تمام تر پراپیگنڈہ کے باوجود کچھ آوازیں ایسی بھی آرہی ہیں جو امریکہ کو کسی آزاد ملک کی حدود کی خلاف ورزی اور اسامہ کمپاﺅنڈ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔عہدِ حاضر کے معروف امریکی فلاسفر نوم چومسکی نے ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اپنے ایک مختصر مضمون میں انہوں نے لکھا کہ جس طرح امریکی کمانڈوز نے اسامہ کو ہلاک کیا اگر عراقی کمانڈوز بش کے کمپاﺅنڈ میں داخل ہوکر اسے قتل کرنے کے بعد سمندر برد کردیں تو امریکی شہریوں کی کیا حالت کیا ہوگی۔ اسی طرح اسامہ کی ہلاکت بارے مسلم دنیا میں ایک شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ کو منظم انداز میں قتل کر کے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی میڈیا پر پاکستانی ا فواج اور خفیہ ایجنسیوں کے کردار اور اسامہ کے کمپاﺅنڈ سے متعلق بے خبری کے حوالے سے واشنگٹن کے غصے کے بارے میں تو خوب بحث و مباحثہ جاری ہے مگر پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر وہاں جو غصہ پایا جاتا ہے اس کے متعلق کسی نے بھی بات نہیں کی۔ امریکہ مخالف جذبات پہلے ہی پاکستان میں بہت زیادہ ہیں اور اس واقعے کے بعد ان میں اضافے کا امکان ہے۔

بہرحال امریکہ نے پاکستا ن کو دھوکے میں رکھ کر جس طرح ایبٹ آباد آپریشن کیا، ہماری آنکھیں اب کھل جانی چاہئیں۔ امریکہ پر اعتبار ہمیں مہنگا پڑ گیا۔ اب سرحد مشرقی ہو یا مغربی دونوں طرف نظریں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں امریکہ کی اس جارحانہ اقدام کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اگر آئندہ ایسی کاروائی ہوئی تو پاکستان عسکری اور انٹیلی جنس تعاون ختم کردے گا۔ اگر ہمیں اپنی حرمت اور وقار قائم رکھنا ہے تو آئندہ امریکہ کو درگزر نہ کیا جائے ۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن میں سی آئی اے کو عارضی فتح تو ضرور حاصل ہوئی مگر اپنے اسٹریٹیجک اتحادی کی قیمت پر۔ اس دھوکہ بازی کا خمیازہ اسے ضرور بھگتنا پڑے گا۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 35252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.